خلیج بنگال پر واقع میرینا بیچ


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے

کانفرنس کے اختتام پر شرکاء کے لیے انتظامیہ نے میرینا بیچ پر ایک یاد گار شام کا اہتمام کیا۔ اس کے ایک دن بعد ہماری روانگی تھی۔ ابھی بھی بہت کچھ دیکھنا باقی تھا کہ روانگی کا وقت بھی آن پہنچا۔ وقت ہمیشہ ہی کم ہوتا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے مہیا کی گئی سواری کے ذریعے ہم تینوں دوست مرینا بیچ پہنچ گئے۔ مرینا بیچ کا تعارف کروانے سے پہلے میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

ایک بڑے اور خوبصورت ریسٹورانٹ میں عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ریسٹورانٹ کے گیٹ پر دو نوجوان لڑکیاں روایتی تامل لباس پہنے کھڑی تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں ماتھے پر تلک لگانے کے لیے سرخ رنگ تھا۔ وہ سب آنے والوں کے ماتھے پر سرخ رنگ سے ایک نشان لگاتی تھیں جو عام طور پر ہندو مرد اور خواتین لگاتے ہیں۔ تلک زیادہ تر خواتین لگاتی ہیں لیکن کہیں کہیں مرد بھی یہ کام کرتے ہیں۔ جب ہم تینوں ان کے پاس پہنچے تو انھوں نے ہمیں روایتی انداز میں خوش آمدید کہا اور ساتھ ہی اپنی انگلی سے ہمارے ماتھے پر نشان لگانے کی کوشش کی۔ جس پر ہم نے معذرت کی اور کہا کہ آپ ہمارے ساتھ یہ نہ کریں۔ اس پر انھوں نے برا نہ منایا۔ ہم نے انھیں بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں اور مسلمان ہیں۔ اس پر انھوں نے ہمیں السلام علیکم کہا۔ جس سے ہمیں بڑی خوشی ہوئی۔

اس کے بعد ہم ریسٹورانٹ چلے گئے جہاں سمندر کے کنارے عشائیے کا انتظام تھا، جو بہت ہی خوب تھا۔ ہم لوگ کافی دیر تک وہاں موجود رہے۔ کھانا کھانے کے بعد کچھ لوگوں نے ساحل سمندر کی سیر بھی کی جس میں میں سب سے آگے تھا۔

چنائی میں ہماری یہ آخری شام تھی جو انتہائی یادگار تھی۔ ریسٹورانٹ بہت ہی خوبصورت انداز سے سجایا گیا تھا۔ رات کا وقت تھا، ٹھہرے ہوئے ساحل سمندر اور تاروں بھری رات نے مل کر اس منظر کو تادیر یاد رکھنے میں مدد کی۔ میں اپنی عادت کے مطابق سمندر کو دیر تک دیکھتا رہا جس سے وہ منظر میرے دل و دماغ پر نقش ہو گیا۔ میں اب بھی چشم تصور سے اس منظر کو دیکھتا ہوں اور لطف اٹھاتا ہوں۔

میرا کانفرنس کی انتظامیہ میں شامل میگا نامی لڑکی سے تعارف ہوا جس کی عمر بیس سال کے لگ بھگ تھی۔ میگا کے ساتھ بات چیت کا موقع ملا۔ اسے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ میری بھی ایک بیٹی ہے، جس کی اس وقت عمر 15 سال تھی۔ میگا نے کہا کہ میں پاکستان کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتی ہوں لیکن میرا پاکستان میں کوئی دوست، رشتے دار نہیں ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر وہ پسند کرے تو میری بیٹی سے رابطہ رکھ سکتی ہیں۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئی اور اس نے میرا ای میل لے لیا اور بعد میں میرے ای میل کے ذریعے میری بیٹی سے رابطہ رکھا جو ایک مدت تک قائم رہا۔ بعد ازاں میگا کی چھوٹی بہن بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔ ایک مرتبہ انھوں نے میری بیٹی کے لیے کچھ تحائف بھی بھیجے جس کے جواب میں ہم نے بھی کچھ تحائف بھیجے۔ چند سال تک یہ رابطہ بر قرار رہا اور پھر لائن کٹ گئی۔

مرینا بیچ: دنیا کا دوسرا طویل ساحل سمندر

سترہویں صدی میں جب انگریزوں نے اس علاقے کو آباد کرنا شروع کیا تو انھوں نے سمندر کے قریب رہنے کو ترجیح دی۔ ممکنہ طور پر اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کی تجارت سمندر کے ذریعے تھی۔ اس وجہ سے انھوں نے بندرگاہ کے قریب کالونی بنانے کو ترجیح دی۔ دوسری یہ کہ وہ جس ملک سے آئے تھے یعنی برطانیہ سے وہ چاروں طرف سے سمندر میں گھرا ہوا ہے۔ اس وجہ سے انھیں سمندر کے قریب رہنا زیادہ پسند ہو۔ چھ کلومیٹر طویل قدرتی ساحل پر انھوں نے خوبصورت انداز سے ریت بچھا کر اسے لمبائی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا قدرتی بیچ بنا دیا۔

جو کئی صدیوں سے لوگوں کے لیے ایک بہترین تفریح گاہ ثابت ہو رہا ہے۔ اس کی چوڑائی ایک ہزار فٹ سے پندرہ سو فٹ تک ہے۔ پانی میں داخل ہونے پر سخت پابندی ہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ سمندری حیات کو محفوظ کرنے کے لیے یہاں ہر طرح کے شکار پر پابندی ہے۔ اس وجہ سے یہاں پر بے شمار اقسام کی نایاب اور انتہائی خوبصورت مچھلیاں اور دیگر آبی حیات پائی جاتی ہیں۔

میری خواہش تھی کہ ہم دن کے وقت بھی اس ساحل پر آتے لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ ہم اسے صرف رات کے وقت ہی دیکھ سکے۔ میں سوچ رہا تھا کہ جو ساحل رات کے وقت اتنا خوبصورت لگتا ہے وہ دن کی روشنی میں جب سورج کی شعاعوں سے ریت چمک رہی ہو، تاحد نگاہ ایک پرسکون سمندر نظر آ رہا ہو، کنارے پر واقع بلند و بالا عمارات، خوبصورت ہوٹل، لکڑی سے بنے ہٹ ہوں یقیناً بہت خوبصورت منظر ہو گا۔

میں نے چنائی کے بارے میں جو کچھ لکھا اس پر ڈاکٹر اشتیاق احمد گوندل صاحب کا تبصرہ نہایت دلچسپ ہے۔ انھوں نے درست کہا کہ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ ہمیں بھی چنائی جانا چاہیے۔ آپ کی کیا کیفیت ہے؟ معلوم نہیں۔ اگر مجھے بھارت کے جنوبی علاقوں کو دیکھنے کا موقع ملے تو ضرور جاؤں گا اور کیرالہ میں واقع اس مسجد کو بھی دیکھوں گا جس کی بنیاد نبی محترم ﷺ کی زندگی میں ہی رکھی گئی تھی۔

مدر آف تامل ناڈو جے للیتا

چنائی میں پانچ دن گزارنے کے بعد ہماری اگلی منزل ممبئی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو اپنے اگلے سفر سے متعلق معلومات فراہم کروں میں چاہوں گا کہ ایک بہت ہی مشہور شخصیت مدر آف تامل ناڈو کے بارے میں چند دلچسپ معلومات آپ کی خدمت میں پیش کروں۔

میرے علم کے مطابق بھارت میں مہاتما گاندھی کو فادر آف نیشن اور جے للیتا کو مدر آف تامل ناڈو کہا جاتا ہے۔ جے للیتا بنیادی طور پر ایک فلم ایکٹریس تھی اس نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے چھ مختلف زبانوں میں ادا کاری کی، جن میں مقامی زبانوں کے علاوہ انگریزی اور ہندی بھی شامل ہیں۔ اپنے وقت میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ادا کارہ تھیں۔ بعد ازاں انھوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور وہ ایک کامیاب سیاستدان ثابت ہوئیں۔ انھوں نے بطور وزیراعلی، تامل ناڈو میں بہت سے ایسے کام کیے جو بہت ہی منفرد تھے۔ جس کی بنیاد پر انھیں ماں کہا جانے لگا۔ ان کے دور میں تامل ناڈو نے بے حد ترقی کی۔

ایک مدت سے تامل ناڈو میں یہ رواج چلا آ رہا تھا کہ بچیوں کو پیدائش کے فوراً بعد مار دیا جاتا تھا۔ یہ ایک بہت ہی ظالمانہ رسم تھی۔ لڑکوں کی خواہش میں کچھ لوگ ایسا کرتے تھے۔ جے للیتا نے ایک نیا سسٹم متعارف کروایا جس کے تحت سکول میں داخل ہونے والے بچوں کے لیے ان کی ماں کا نام ہی کافی تھا۔ اس طرح انھوں نے مخنثوں کے لیے بھی سکولوں میں داخل ہونے کا بندو بست کیا۔ اس طرح کی مختلف سکیموں کی وجہ سے انھیں 1991 ء میں ماں کا خطاب دیا گیا۔

ان کے دور حکومت میں صحت کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ اس وقت تامل ناڈو جی ڈی پی کے لحاظ سے بھارت کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ آٹو موبائل، لیدر، ٹیکسٹائل، سولر اور آئی ٹی کے شعبوں میں اس کی پورے بھارت میں اول پوزیشن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سب کی بنیاد جے للیتا کے دور حکومت میں رکھی گئی اور تامل ناڈو کو یہاں تک پہنچانے میں بھی جے للیتا کا ایک اہم کردار ہے۔

ان کی باتیں پڑھنے کے بعد میرے اس خیال کو تقویت پہنچی کہ جو بھی لوگوں کی خدمت کرتا ہے اللہ کے ہاں تو اس کا اجر ضرور ہے لیکن دنیا بھی اس کی قدر کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments