طلبہ یونین کی بحالی ناگزیر کیوں ہے؟


طلباء کسی بھی معاشرے کا بنیادی حصہ اور اس کے روشن یا تاریک مستقبل کے علمبردار ہوتے ہیں۔ جہاں حال میں ان کے کردار کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہے وہیں طلباء کے بغیر مستقبل کو ایک من چاہے قالب میں ڈھالنا بھی نا ممکن ہے۔ دنیا میں اب تک آنے والے انقلابات میں اکثریت نوجوان نسل اور طلباء کے لائے ہوئے ہیں۔ اگر ہم آج کل شہ سرخیوں میں رہنے والے خنسہ امینی کے معاملے کو دیکھیں تو ایران ایک دفع پھر کسی بڑے انقلاب کے دہانے پہ ہے اور اس انقلاب کا ہراول دستہ بھی طلباء پر ہی مشتمل ہے۔

اسی ایران نے ابھی چند دہائیوں قبل آزاد خیالی کے خلاف جنگ کی ہے اور یہی ایران پھر اسی آزاد خیالی کی طرف جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ وجہ اس کے مستقبل کے معماروں کو دو مختلف نظریوں پر زبردستی عملدرآمد کے لیے ابھارنا ہے۔ اور یہی آہستہ آہستہ پکتا ہوا لاوا آخر کار ایک آتش فشاں بن جاتا ہے اور صدیوں کے عرصے پہ پھیلی ہوئی حکومتوں کو بھی اکھاڑ پھینکتے ہیں۔

لیکن ذرا ٹھہرئیے!

آپ ملک پاکستان میں موجود ہیں جہاں رکشہ چلانے والوں، پھل فروشوں اور ٹرک ڈرائیوروں کی یونین تو موجود ہے لیکن اس کی ترقی میں اور تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والے طالب علموں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے مستقبل میں اس ملک کی بار کونسلز کا ممبر اور صدر منتخب ہونا ہے، وہ نوجوان جنہوں نے اس ملک کی بیوروکریسی میں اہم کردار ادا کرنے ہیں، وہ طالب علم جنہوں نے استاد بن کر اس ملک کی اگلی نسل کو پروان چڑھانا ہے اس حق سے محروم ہیں۔ وہ نہ تو اپنے حق کے لئے مجموعی طور پر کوئی آواز اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی خود کو آنے والے مسائل کے لئے تیار کر پاتے ہیں۔

مارشل لا کی لپیٹ میں آنی والی اس طلبہ سیاست نے کبھی اچھے دن بھی دیکھے تھے۔ اسی دور میں انہیں طلباء یونینز انتہائی زیرک سیاستدان، کمال کے راہنما اس قوم کو دیے ہیں۔ جو سیاست گرمیوں میں تپتی ہوئی سڑکوں پر طلباء حقوق کے لئے جدوجہد کرنے سے سیکھ کر آئے تھے نہ کہ بس اس بنا پر سیاستدان کہلائے کہ ان کا باپ سیاستدان ہے۔ لیکن پھر طلبہ یونینز پر پابندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سیاسی نرسری بانجھ ہو گئی اور سیاست چند خاندانوں کے گھر کی باندی بن کہ رہ گئی۔ طلبہ سیاست میں حصہ لینا تو دور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے سے بھی گھبرانے لگے۔ غیر نصابی سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے طلباء میں اعتماد کی کمی ہونے لگی اور وہ اس ناکارہ نظام تعلیم کی تجربہ گاہ بن کر رہ گئے۔

کچھ طلباء تنظیموں نے اس اپنے طور پر زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے مختلف تحریکیں بھی شروع کیں اور اس کی بحالی کے لئے کیس بھی لڑے گئے لیکن ایک مخصوص طبقہ اس کی راہ میں کانٹے بچھائے ہوئے ہے۔ ہر جماعت اپنے منشور میں طلباء یونینز کی بحالی کے دعوے کرتی ہے لیکن حکومت میں آ کر بالکل بھول جاتی ہے۔ وجہ صرف ایک ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایک پڑھا لکھا طبقہ سامنے آئے جو اس نظام کو تبدیل کرے، غیر دیانتدار لوگوں کے بجائے دیانتدار لوگ اقتدار میں آئیں۔

ضرورت اس امر کی ہے طلبہ کو آزادی رائے اور یونین الیکشن کی اجازت دی جائے تا کہ طلبہ سیاست ایک بار پھر اس ملکی سیاست میں پڑے ہوئے زیرک سیاستدانوں کے خلا کو پر کر سکے۔ تمام ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک اپنے طلبہ کو سر فہرست رکھتے ہیں، ان کے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر رکھتے ہیں۔ تبھی ان کے طالبعلم ہمارے طالب علموں سے اعتماد اور اختیار میں کہیں آگے ہیں۔ لیکن اس برعکس ہمارے ملک میں چند خاندانوں اور کچھ با اثر طبقوں کی تسلی کے لئے اس ملک خداداد کے طلباء سے مسلسل زیادتی کی جا رہی ہے۔ اب بھی اگر ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور طلبہ کو ان کا بنیادی حق دے دیں تو آنے والی نسلیں ان کی مشکور ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments