شاہ رخ جتوئی رہا، اس کے بعد ظاہر جعفر اور شاہنواز امیر؟


جون ایلیا نے کہا تھا کہ
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

جون کے اس شعر میں گھر کو وطن عزیز سمجھ لیجیے۔ اس دفعہ چیز نہیں ٹوٹی ہے بلکہ انصاف کا خون ہوا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ماتم کرنے کا دل نہ چاہتا ہو۔ ابھی تو مجید اچکزئی رہا ہوئے تھے جنہوں نے اپنی لینڈ کروزر سے غریب پولیس کانسٹیبل کو کچل دیا تھا۔

کانسٹیبل نے مجید اچکزئی کی طرف سے ٹریفک روکی ہوئی تھی لیکن صوبائی اسمبلی کے ممبر اور برادری کے سردار مجید اچکزئی نے گاڑی نہ روکی۔ کانسٹیبل گاڑی سے کچلا گیا اور شہید ہوا۔ سی سی ٹی وی میں ویڈیو ریکارڈ ہو گئی۔ مجید اچکزئی نے اپنا جرم قبول کیا لیکن پھر وہی ہوتا ہے جو اس، وطن عزیز میں ہوتا ہے اور جن کے لئے یہ وطن تخلیق کیا گیا تھا یعنی جاگیرداروں، وڈیروں اور امیروں کے لئے۔ عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر موصوف کو رہا کر دیا جس کے قتل کی ویڈیو پورے پاکستان نے دیکھی تھی۔ یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔

شاہ رخ جتوئی اسی کہانی کی دوسری قسط ہے۔ جاگیردار اور وڈیرے باپ کا بگڑا ہوا، بدتمیز اور وحشی بیٹا۔ کراچی کے علاقے کلفٹن میں شاہ رخ جتوئی کے ملازمین نے مقتول شاہ زیب کی بہن کو جو شادی سے واپس آ رہی تھی، تنگ کیا اور جملے کسے۔ شاہ زیب نے اپنی بہن کو بچانے کے لئے ان سے معمولی تلخ کلامی کی۔ بات بگڑ گئی اور پھر شاہ رخ جتوئی نے صرف اپنے ملازمین سے تلخ کلامی پر شاہ زیب کو گولیوں سے بھون دیا۔ اس واقعے نے پوری کراچی بلکہ پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ لوگ خوف اور دہشت کا شکار ہونے لگے۔ بعض خبروں کے مطابق ڈاکوؤں کو پالنے والا شاہ رخ جتوئی کا باپ مقتول شاہ زیب کے والد کو مبینہ طور پر ڈراتا رہا کہ تمھارا بیٹا تو چلا گیا لیکن ابھی تمھاری دو جوان بیٹیاں باقی ہیں، ان کا سوچو۔

مقدمہ چلا۔ پہلے سزائے موت ہوئی، پھر سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہوئی۔ اور ابھی کچھ دن پہلے شاہ رخ جتوئی عدالت سے رہا ہو گیا ہے۔ جو عرصہ وہ قید میں رہا، اس نے زیادہ تر وقت جیل سے باہر گزارا۔ جیل میں پیکجز بنے ہوئے ہیں جہاں تیس ہزار مہینے سے لے کر اور پانچ لاکھ مہینے تک دے کر آپ ساری سہولیات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، اے سی، بہترین کھانا جس میں چائنیز کھانا بھی شامل ہے، سب پیکج ڈیل میں ملتا ہے۔ رات کو جیل سے نکلنا اور فجر سے پہلے واپس آ جانا بھی اس میں شامل ہے۔ سزائے موت کا مجرم شاہ رخ جتوئی اسی طرح کی جیل کاٹ کر وکٹری کا نشان بنا کر باہر نکلا۔

یہ وکٹری کا نشان نہیں، غریبوں اور متوسط ایماندار طبقے کے لوگوں پر طمانچہ ہے جو اس بگڑے ہوئے امیر زادے نے مارا ہے۔ اس وکٹری کے نشان سے وہ رئیس زادہ بتا رہا پے کہ قانون بھی اس کا، عدالت بھی اس کی، پولیس بھی اس کی اور یہ سر زمین بھی اسی کی ہے۔ اس سرزمین پر وہ کسی ماں کے جوان بیٹے کو گولیاں مارے یا کسی پولیس کانسٹیبل کو کچلے، وہ کسی لڑکی سے زیادتی کرے یا کسی لڑکی کو قتل کرے، وہ رئیس زادہ اس کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

ابھی اس فلم کی دو قسطیں اور باقی ہیں۔ شاہ رخ جتوئی کے بعد اب ظاہر جعفر کچھ سالوں بعد رہا ہو گا جس نے دولت اور طاقت کے نشے میں نور مقدم کا سفاکانہ قتل کیا تھا۔ عدالت اس کو بھی شاہ رخ جتوئی کی طرح سزائے موت سنا چکی ہے۔ اب کچھ سال کے بعد یہ سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہو گی اور کچھ سال بعد یہ امیر قاتل بھی وکٹری کا نشان بنا کر رہا ہو جائے گا۔ ایک اور وکٹری کا نشان اور اس کرپٹ ملک کے سسٹم پر ایک اور طمانچہ۔

اس فلم کی چوتھی قسط آپ کچھ سالوں کے بعد دیکھیں گے جب شاہنواز امیر جو کہ ایک اور چودھری خاندان سے ہے وکٹری کا نشان بنا کر جیل سے رہا ہو گا۔

مجھے حیرت ہے کہ ایک مشہور باپ ایسے بگڑے ہوئے بیٹے کو پیسے بھیجتا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے سارے پیسے اس کا بیٹا نشے اور ہیروئن پی کر اڑا دیتا ہے اور اسی نشے کے عالم میں اس نے اپنی انتہائی تعلیم یافتہ بیوی کو قتل کر دیا۔ شادی کو صرف دو ماہ ہوئے تھے۔ شاہنواز امیر نے اس کو سر پر ایکسرسائز کرنے کا ڈمبل مارا اور لاش کو غسل خانے میں پھینک دیا۔

اس قتل کا مقدمہ ابھی چلنا باقی ہے لیکن آپ اس مقدمے کی ساری تفصیلات مجھ سے ابھی سن لیں۔ مقدمہ چلے گا، موت کی سزا سنائی جائے گی۔ قاتل اپیل کرے گا۔ کچھ سال اپیل میں نکل جائیں گے۔ پھر چپکے سے سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہو جائے گی۔ کچھ سال بعد یہ بگڑا ہوا عیاش امیر زادہ وکٹری کا نشان بنا کر عدالت سے عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہو جائے گا۔ ایک اور وکٹری کا نشان! مرنے والے کے خاندان اور اس کی دکھی ماں اور بے سہارا باپ کے منہ پر ایک اور طمانچہ!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments