توشہ خانہ کیس پر غالب کا اور ہمارا مشترکہ دکھ


مرزا نوشہ کی زندگی پر بنایا گیا ڈرامہ ایک تو بذات خود غالب جیسی شخصیت کی وجہ سے یادگار ہو گیا دوسرا نصیر الدین شاہ کی اداکاری نے بھی اس میں رنگ بھر دیے۔ ایک جگہ نصیر الدین شاہ مطلب مرزا نوشہ اپنے دوست سے فرنگیوں کی آمد کے بعد دلی کے اجڑنے پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

کہیں کوئی شہر بک رہا ہے
کہیں ریاست بک رہی ہے
یہ کیسے سوداگر آئے ہیں اس ملک میں
سارا ملک پنساری کی دکان بن گیا ہے
معلوم نا تھا کہ اتنا کچھ ہے
گھر میں بیچنے کے لیے
زمین سے لے کر ضمیر تک
سب بک رہا ہے سب بکتا جا رہا ہے

مرزا نوشہ جیسی شخصیت کا کرب سمجھ میں آتا ہے مگر ایک لمحے کو خیال آیا کہ اپنے گردوپیش بھی تو حالات کچھ اس طرح کے ہی چل رہے ہیں۔ دلی کو تو ایک امتیاز حاصل ہے کہ بارہا دلی اجڑ گئی اور پھر سے اسی آب و تاب کے ساتھ بس گئی۔ اور سات دہائیاں قبل ہمارے خوابوں کی دلی جو ہم نے بڑٰی قربانیوں کے بعد حاصل کی تھی بیوپاریوں کے ہاتھ لگ کے ایسی اجڑی کہ بسنے کا نام نہیں لے رہی۔

خدا جانے کیسے سوداگروں اور بیوپاریوں کے نرغے میں آ گئے ہیں کہ ہر چیز کے دام لگ رہے ہیں۔ زمینوں کے خریداروں کو مسند نشینوں کی خلوتیں میسر ہیں اور ضمیروں کے سوداگر تو تخت نشین ہی ہو گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے سارا ملک ہی پنساری کی دکان بن گیا ہو۔ اب امان ملے تو کہاں ملے اور کیونکر ملے۔ ہر شے کی قیمت لگ رہی ہے ہر چیز بازار میں دستیاب ہے دستار ہو کہ آنچل سب کی بولی لگ رہی ہے۔ جینے کے جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔ بد نصیبوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ہی مشکل ہو گیا ہے۔

پسے ہوئے طبقات کی ہزاروں سال کی تاریخ ایک جیسی ہے، بے بسی، لاچاری اور مجبور ترین زندگی ان کا مقدر ہے۔ ستم یہ کہ اس بار اشرافیہ سربازار رقصاں ہے۔ ضرورت نہیں ہے مگر زیادہ سے اور زیادہ کی ہوس نے اس اشرافیہ کو بھی بیچ چوراہے لا کھڑا کیا ہے۔ سات دہائیوں پر مشتمل اشرافیہ کی شرمناک تاریخ کو پڑھنے کا حوصلہ کس میں ہے۔ بالفرض اگر پڑھ بھی لیا جائے تو گھن آنے لگ جاتی ہے۔ سانس گھٹنے لگتی ہے کہ یہ کیسے لوگ تھے جو ہم پر مسلط رہے

ماضی کی راکھ کریدنے کی قطعی ضرورت نہیں موجودہ حالات بھی ماضی کا تسلسل ہیں کچھ بھی نہیں بدلا۔ جو ہاتھ لگا اس عہد خرابی میں بیچ دیا گیا اور حیلے بہانے سے خرید لیا گیا۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ تحفے ملے اور بیچ دیے گئے۔ سادہ سی اور چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا۔ بھلا یہ بھی کوئی الزام ہے جس پر شور و غوغا کیا جائے۔ طنز کیا جائے تضحیک کی جائے۔ کچھ غلط نہیں کیا وہی کچھ کیا جو اس سے قبل ہوتا رہا ہے تو پھر اس پر یہ تماشا کیوں

دبے لفظوں میں سنائی جانے والی اس رام لیلا کا جواب اگر با آواز بلند دیا جائے تو میرے عزیز مسئلہ تحائف کے فروخت کرنے کا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ کپتان نے اپنی گفتگو اور تقاریر سے حاکم وقت کے اخلاقی معیار کا جو ہمالیہ کھڑا کیا ہے اس پر خود پورا نہیں اترا۔ اس حمام میں سب کو ننگا کہنے والا بھول گیا کہ وہ بھی اسی حمام کے اندر کھڑا ہے۔ کوئی فرق نہیں ہے اس میں اور دوسروں میں۔ سب نے ہی موقع ملنے پر گنگا اشنان کیا ہے۔ سب کے سب پوتر ہیں اگر یقین نہیں آتا ان کے حامیوں سے پوچھ لیں مجال ہے کہ کوئی مان جائے یا خاموش ہو جائے۔ سب کے پاس دلیلیں ہیں، جواز ہیں۔ سب کو پارسائی کا دعویٰ ہے۔

اس سے زیادہ پستی، انحطاط اور زوال کیا ہو گا کہ ہم نے گزشتہ سات دہائیوں میں ادبی حلقوں کی بجائے، ذہنی آبیاری کرنے والے مکالمے، علمی مباحثوں اور فکری سطح پر سوچ و بچار کرنے کی بجائے اپنی اپنی نا اہلیوں اور نالائقیوں پر پردہ ڈالنے والے جتھے تیار کیے ہیں۔ سیاسی میدان میں وہ دھمال چوکڑی مچائی ہے کہ الامان الحفیظ۔ کسی بھی نظریے اور کسی بھی طرح کے سیاسی فلسفے سے قطع نظر آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے جیسے جذباتی نعرے لگانے والوں کی پرورش کی ہے جس کا نتیجہ یہ کہ ان سیاسی دولے شاہ کے چوہوں کے سبب حالیہ سیاسی قیادت ہم پر مسلط ہے

اب جبکہ موجودہ سیاسی قیادت ہماری مسلسل محنت اور جدوجہد کے بعد تخلیق پا چکی ہے تو پھر کس سے گلہ کریں اور کس سے منصفی چاہیں۔ اب کہاں کے آدرش اور کہاں کے اخلاقی معیار اور کہاں کی اخلاقی قدریں اب تو تحفے میں ملنے والی گھڑیاں بھی سربازار فروخت ہوں گی۔ جگ ہنسائی کی کس کو فکر ہے جب مطمح نظر ہی دولت اکٹھی کرنا ہو۔ دولت کا کسی بھی طرح سے حصول موجودہ عہد کا وہ کڑوا سچ اور تلخ حقیقت ہے کہ جس کو آج نہیں تو کل ماننا ہو گا۔

ایک لمحے کو خود کو سارے تعصبات سے الگ کر لیں ہر طرح کی پسند نا پسند سے دور کر لیں اور اپنی موجودہ دلی کی فصیل پر بیٹھ کر نظارہ کریں خاموشی سے مشاہدہ کریں مرزا نوشہ کی دلی کی طرح یہاں بھی ہر چیز بک رہی ہے ہر چیز کی بولی لگ رہی ہے۔ زمین سے لے کر ضمیر تک سب کچھ بک رہا ہے۔ اگر خریدار بہت ہیں تو بازار میں رسد کی بھی کمی نہیں ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ گویا ملک نہیں کسی پنساری کی دکان ہے ہر سودا سستے داموں اور باآسانی دستیاب ہے بس خریدنے کو جیب میں درہم، دینار اور ڈالر ہونے چاہیں۔ غالب کی دلی تو اجڑ اجڑ کر دوبارہ بستی رہی میری دلی ایسی اجڑی کہ دوبارہ بسنے کا نام نہیں لے رہی۔ دلی کے اجڑنے پر میرا اور مرزا نوشہ کا دکھ مشترکہ سہی تاہم مرزا نوشہ خوش قسمت تھے کہ ان کو بہتری کی امید تھی اور میں تو اب یہ امید بھی نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments