کر گیا سرمست مُجھ کو…


’’بالِ جبریل ‘‘کی ورق گردانی کرتے ہوئے کل اِس مصرعے پر پہنچا، ’’کر گیا سر مست مُجھ کو ٹوٹ کر میرا سبُو‘‘ تو نظر وہیں ٹھہر گئی۔ حافظے کے توشہ خانے سے، ماضی کا ایک واقعہ یاد آیا جو قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گا۔ ڈی ایم جی گروپ میں چنائو کے بعد، راقم مارچ 1977ء کے دوران، جوڈیشل اور ریونیو ٹریننگ کے لیے سیالکوٹ تعینات ہوا۔ اُن دنوں تنخواہ چھ سو روپے تھی۔ خوش قسمتی سے ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کے ریسٹ ہائوس میں جگہ مل گئی۔ دن میں محکمۂ مال کے اسرارورموز سمجھتا۔ پٹواریوں کے ساتھ بیٹھ کر کھیوٹ، کھاتہ، کھتونی اور خسرہ نمبر کی گتھیاں سمجھنے کی کوشش ہوتی اور شام سروسز کلب میں گزرتی۔ بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک عروج پر تھی۔ ایک دفعہ ضیاء الحق، آرمی چیف کی حیثیت سے سیالکوٹ آئے اور افسران سے خطاب کیا۔ اُسی شام برج رُوم میں، ایک افسر نے توقع سے لبریز لہجے میں بتایا کہ مارشل لا کا نفاذ قریب ہے۔ اِس خیال کی وجہ ضیاء الحق کی تقریر تھی۔ اُنہوں نے بتایا کہ ضیاء الحق کی بیوی کے مطابق حالات اتنے خراب ہیں کہ مارشل لا لگ جانا چاہیے۔ مگر چیف سمجھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن اِس مسئلے کا حل تلاش کر لیں گے۔

مارشل لا نافذ ہونے کے چند دن بعد، حکم ملا کہ ریسٹ ہائوس کا کمرہ خالی کر دوں۔ وجہ بتائی گئی کہ پیپلز ورکس پروگرام پر کیے گئے اخراجات کی انکوائری کے لیے فوجی افسروں کی ٹیم کو پورا ریسٹ ہائوس درکار ہے۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ ڈپٹی کمشنر نے کسی مدد کی بجائے تجویز دی کہ آبائی گھر جا کر آرام کروں، ٹریننگ کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ مجھے اور غصہ آیا کیونکہ میں ٹریننگ بہت سنجیدگی سے مکمل کر رہا تھا۔ خوش گمانی تھی کہ حکومت اپنے افسروں کا خیال رکھے گی۔ یہ توقع ٹوٹ گئی تو پریشانی کے عالم میں نوکری سے استعفیٰ ٹائپ کروایا۔ حکومت کو بھیجنے سے پہلے، سیالکوٹ کے اسٹیشن کمانڈر سے ملاقات کا وقت مانگا۔ اُنہوں نے فوراً بلوا لیا۔ اسٹیشن کمانڈر ایک فل کرنل تھے، نام ہدایت اللہ تھا۔ مزے کے آدمی تھے۔ خوش مزاج طبیعت کے باعث، چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ موجود رہتی۔ میرا اندرونی کرب چہرے پر نمایاں تھا۔ مجھے پریشان دیکھ کر اُنہوں نے گھنٹی بجائی اور کسی فائل کے ورق الٹنے لگے۔ اردلی، گلاس میں ٹھنڈا مشروب لے آیا۔ ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں میرے حواس بحال ہو رہے تھے۔ مشروب ختم ہوا تو اُنہوں نے میری طرف دیکھا۔ کچھ کہنے سے پہلے، میں نے اپنا استعفیٰ اُن کی طرف سرکا دیا۔ اُنہوں نے ایک نظر دیکھنے کے بعد پوچھا، ’’کیا مارشل لا کے نفاذ سے پریشان ہو؟‘‘ میں کشتیاں جلا کر آیا تھا،بغیر کسی توقف کے کہا۔ ’’یہ بھی ایک وجہ ہے۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’تمہیں کیا تکلیف پہنچی ہے؟‘‘ میرا جواب تھا ’’جب سویلین حکومت کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو انٹرنل سیکورٹی کے لیے جو افسران ڈیوٹی دیتے تھے، اُنہیں پچاس روپے روزانہ کا اعزازیہ ڈسٹرکٹ آفس سے ملتا تھا۔‘‘ وہ توجہ سے سُن رہے تھے۔ میں نے بات جاری رکھی، ’’یہ معاوضہ سویلین حکومت کی مدد کے لیے ڈیوٹی دینے والے فوجی افسروں کو ملتا تھا۔ اب ملک میں مارشل لا نافذ ہے اور ہم سویلین افسر، ملٹری حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں پچاس روپے روزانہ نہیں ملنے چاہئیں؟ ‘‘اُن کے چہرے پر پہلے حیرت بھرے تاثرات نمودار ہوئے۔ پھر اُنہوں نے زور دار قہقہہ لگایا ۔ کہنے لگے ’’Very interesting point‘‘ میرے اندر کا غصہ باہر آگیا۔ تیکھے لہجے میں کہا ’’سر! آپ کو میری بات دلچسپ لگی، مگر اعزازیہ تو درکنار مجھے تو ریسٹ ہائوس سے بھی نکلنے کا حکم مل چکا ہے۔‘‘ مزید چند جملوں کے تبادلے میں وہ ساری بات سمجھ گئے۔ پوچھا ’’یہ شکوہ کرنے میرے پاس کیوں آئے ہو؟‘‘ میرا جواب تھا کہ فوج کا میس اور ریسٹ ہائوس آپ کے کنٹرول میں ہے۔ کیا ایک سویلین آفیسر کو آرمی میس میں جگہ نہیں مل سکتی؟‘‘ میری بات اُن کے لیے حیرت انگیز حد تک اچھوتی تھی۔ کہنے لگے، ’’یہ آرمی کے میس ہیں، سویلین آفیسرز کے لیے نہیں۔ آپ کو یہاں جگہ لینے کا خیال کیسے آیا؟‘‘ میرا جواب تھا۔ ’’ اگر مارشل لا لگنے پر فوج کی انکوائری کمیٹی سویلین ریسٹ ہائوس پر قابض ہو سکتی ہے تو ایک سویلین افسر کو بھی آرمی میس میں جگہ ملنی چاہیے۔‘‘ وہ ہنسنے لگے۔ استعفیٰ واپس میری طرف سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’اور اگر آرمی میس میں جگہ نہ ملی تو مستعفی ہو جائو گے؟ اِس نوکری اور ڈی ایم جی گروپ کے لیے لوگ بہت محنت کرتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ اگر نوکری کے شروع میں یہ سلوک ہو رہا ہے تو بعد میں کیا ہو گا؟‘‘ وہ غور سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے۔ ’’استعفیٰ تو بہت بڑا قدم ہے۔ کیا سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے؟‘‘ میرا آئیڈل ازم پاش پاش ہو چکا تھا۔ یکایک عنوان میں لکھا ہوا مصرع یاد آیا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا، ’’کر گیا سر مست مُجھ کو ٹوٹ کر میرا سبُو۔‘‘ مجھے علم نہ تھا کہ کرنل صاحب کا شعری ذوق بہت اچھا ہے۔ میرے جواب سے پھڑک اُٹھے۔ کہا، ’’واہ، واہ۔ کیا شانِ بے نیازی ہے۔‘‘ چونکہ اُنہوں نے آرمی میس میں جگہ دینے کی ہامی نہیں بھری تھی، میں نے مایوسی کے عالم میں کرسی پیچھے سرکاتے ہوئے کہا، ’’سر! میری بات سننے اور ٹھنڈا پلانے کا شکریہ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے،میں کرسی سے اُٹھا، ’’سر! آپ نے استعفے کو میری شانِ بے نیازی سمجھا ہے تو شانِ بے نیازی کے بارے ،ایک شعر عرض کرتا ہوں۔ ’’فقیر مے کدہ کی شانِ بے نیازی دیکھ۔ پہنچ کے چشمۂ حیواں پہ توڑتا ہے سبُو۔‘‘ یہ شعر سُن کر کرنل ہدایت اللہ کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ میز سے استعفیٰ اُٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اُنہوں نے مصنوعی خفگی سے کہا، ’’میں نے آپ کو جانے کی اجازت نہیں دی۔‘‘

قصہ مختصر، کرنل ہدایت اللہ کے خصوصی حکم پر مجھے ایک بریگیڈ کے میس میں کمرہ مل گیا۔ چند برس پہلے، مجھے اُن کے بیٹے سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ آرمی میں ایک سینئر افسر ہیں۔ اُنہیں محبت سے یہ قصہ سُنایا ۔ خوئے دل نوازی کے حامل ، وہ افراد قابل قدر ہیں جن کا حسن سلوک اور ہمدردانہ طرز عمل اُن کے اداروں کے لیے، دل میں دائمی احترام پیدا کر دیتا ہے۔

بشکریہ: جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments