مبینہ قتل کا ایک غیر حل شدہ کیس جو 74 برس بعد بھی اپنی دلچسپی قائم رکھے ہوئے ہے


’ تمام شد‘ کیس

یہ تجسس اور تحیر سے بھر پور، مبینہ قتل کا ایک ایسا غیر حل شدہ کیس ہے جو آج 74 برس بعد بھی اپنی دلچسپی قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کی شروعات یکم دسمبر 1948 کی صبح 6 : 30 بجے ہوئیں جب جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈی لیڈ کے قریب سمندر کے کنارے ایک نامعلوم شخص کی لاش پائی گئی۔ یہ کیس جلد ہی ”تمام شد“ کیس کے نام سے مشہور ہو گیا اور آج تک اسی نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتول کی پتلون کی اندرونی جیب میں کاغذ کا ایک ٹکڑا برآمد ہوا جس پر انگریزی حروف میں ’تمام شد‘ لکھا ہوا تھا۔

مقامی پولیس نے لائبریری سے ماہرین بلوائے تا کہ ترجمہ کروایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تو رباعیات عمر خیام کی کتاب کا آخری صفحہ ہے۔ جس کا واضح مطلب تھا، ’اب کہانی ختم‘ ۔ پولیس کی ان تھک بھاگ دوڑ بارآور ثابت ہوئی اور اس کتاب کا 1941 والا ایڈیشن دستیاب ہو گیا جس سے یہ صفحہ پھاڑا گیا تھا۔ اس پھٹے ہوئے صفحہ اور اس کتاب میں سے پھاڑی گئی جگہ کو خوردبین سے بغور دیکھنے سے ثابت ہو گیا کہ اسی کتاب سے صفحہ پھاڑا گیا تھا۔ سراغ رسانوں کو کتاب کے پچھلے کور کے اندر ونی جانب، ایک مقامی ٹیلی فون نمبر اور ہاتھ سے لکھے انگریزی کے کچھ مہمل حروف نظر آئے جن کو سر توڑ کوشش کے باوجود سمجھا نہ جا سکا۔

یہ ابتدا ہی سے آسٹریلیا کے چند پراسرار ترین کیسوں میں شامل ہو گیا۔ مرنے والے کی کوئی شناخت نہیں ہو سکی البتہ اس کی موت کے سبب اور پس منظر کے سلسلے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ اس کیس میں عوامی دلچسپی کے دو بڑے اسباب تھے : ایک یہ کہ اس زمانے میں بین الاقوامی سطح پر کشیدگی نقطۂ عروج پر تھی جس کے فوراً بعد سرد جنگ کا آغاز ہو گیا اور دوسرا تمام شد والا صفحہ او ر کتاب کے پر اسرار حروف۔

اس کیس کی شہرت آسٹریلیا سے نکل کر 1950 کے آغاز تک بین الاقوامی توجہ حاصل کر چکی تھی۔ مقامی پولیس نے سمندر پار پولیس سے اس سلسلے میں رابطہ اور صلاح مشورہ کیا اور متوفی کی تصاویر اور جو کچھ بھی اس کیس کی پیش رفت ہوئی تھی مختلف ممالک کی پولیس کو بھیج دیا۔ مگر تصویر اور انگلیوں کے نشانات سے اس کی شخصیت سے پردہ نہ اٹھ سکا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایف بی آئی نے ملک بھر کے جرائم پیشہ افراد کی انگلیوں کے نشانات سے ملا کر دیکھے لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ یارڈ والے بھی ان کی کوئی پرکھ نہ کر سکے۔ اس کے دانتوں کا ڈینٹل ریکارڈ بھی کوئی مدد نہیں دے سکا۔

لاش کی دریافت

جب پہلی مرتبہ پولیس موقع پر پہنچی تو اس نامعلوم شخص کی لاش، پیٹھ کے بل پڑی تھی۔ ابتدائی خیال تھا کہ وہ شخص سوتے میں موت

کی آغوش میں چلا گیا تھا۔ ایک بغیر سلگایا ہوا سگریٹ متوفی کے کوٹ کے کالر میں پایا گیا۔ جیبوں کی تلاشی لینے پر یہ اشیاء ملیں : درجہ دوم کا ایک غیر استعمال شدہ ٹرین کا ٹکٹ جو ایڈی لیڈ سے ہینلی کے لئے جاری ہوا تھا، ایک لوکل بس کا ٹکٹ جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکا کہ یہ استعمال بھی کیا گیا تھا، امریکہ کی بنی ہوئی ایلومینیم کی چھوٹے دندانوں والی کنگھی، آدھا استعمال شدہ چیونگم کا پیکٹ، ماچس کی ڈبیہ اور سگریٹ کا ایک پیکٹ۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ اس شخص جیسا آدمی انہوں نے 30 نومبر کی شام، اسی جگہ اور اسی حالت میں دیکھا تھا۔ ایک جوڑے کا کہنا تھا کہ انہوں نے شام 7 بجے اسی جگہ اس شخص کو اپنا دایاں بازو اوپر اٹھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایک اور جوڑے نے بتایا کہ 7:30 اور 8 بجے کے درمیان وہ ساحلی پشتے پر بیٹھے تھے جبکہ سڑکوں پر کافی روشنی تھی، انہیں مبہم سا شک ہے کہ شاید اس کے جسم نے ایک خفیف سی حرکت کی تھی۔ لیکن ان کو اس بات پر سخت حیرت تھی کہ مچھروں کی موجودگی میں وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔ پہلے وہ سمجھے کہ یہ مر چکا ہے، پھر دوسرا خیال یہ آیا کہ یا تو وہ نشہ میں ہے یا نیند میں ؛ لہٰذا انہوں نے پھر مزید کوئی تفتیش نہیں کی۔ ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ حفاظتی پشتے سے اس نے کئی مرتبہ شخص مذکورہ کو دیکھا اور یہی گمان کیا کہ اس میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں تھی۔

1959 میں ایک اور گواہ منظر عام پر آیا جس نے پولیس کو بتایا کہ اس نے دیکھا کہ ایک خوش لباس شخص اپنے کاندھے پر ایک دوسرے شخص کو اٹھائے اسی جگہ کی جانب جا رہا ہے جہاں بعد میں نا معلوم لاش پائی گئی۔ لیکن یہ بات لاش دریافت ہونے سے ایک رات پہلے کی ہے۔

نامعلوم شخص کی موت کی تحقیقات

موت کی تحقیقات سست رفتاری سے جاری تھیں۔ ڈاکٹروں اور بعض دوسرے ماہرین نے اس شخص کی لاش کا دوبارہ معائنہ کیا اور کچھ نئی باتیں سامنے آئیں۔ مثلاً یہ کہ اس کے جوتے بالکل تازہ پالش کیے ہوئے تھے جب کے مبینہ طور پر وہ گھنٹوں پیدل گھومتا رہا تھا

اور ساحل کی ریت کا بھی کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ اس سے اس نظریہ کو تقویت ملی کہ اس شخص کی موت کہیں اور ہوئی تھی اور اسے ساحل سمندر پر بعد میں مردہ حالت میں لایا گیا۔ تشنج اور متلی، زہر خوردنی کے کوئی اثرات اس کے پہنے ہوئے کپڑوں یا لاش کے قریب نظر نہیں آئے۔

چونکہ پولیس اس شخص کی شناخت اور موت کے اسباب معلوم نہیں کر سکی لہٰذا حکام نے اسے اپنے ملک کا ایک ’بے نظیر‘ کیس قرار دے دیا۔ خیال تھا کہ اس اسرار سے شاید اب کبھی پردہ نہ اٹھ سکے۔ تحقیقات کے دوران متوفی کے سر اور کاندھوں کا ایک سانچا پلاسٹر کی مدد سے بنوا کر محفوظ کر لیا۔

پیتھالوجسٹ نے متوفی کی عمر 40 سے 45 سال بتلائی جو جسمانی طور سے بالکل صحت مند دکھائی دیتا تھا۔ اس کا قد 5 فٹ 11 انچ تھا، آنکھوں کی رنگت بادامی اور سر کے بال کنپٹیوں پر کچھ کچھ سفید تھے۔ کاندھے کشادہ اور کمر پتلی۔ ہاتھوں اور ناخنوں کو دیکھ کر جسمانی مشقت کے نہ کیے جانے کا اندازہ ہوتا تھا۔ پیڈلیاں دوڑ لگانے والوں کی طرح سخت تھیں۔ وہ سفید شرٹ، بھوری پتلون اور لال و نیلے رنگ کی ٹائی لگائے ہوئے تھا۔ قاعدے کے موزے جوتے اور بھورے رنگ کا بنا ہوا سوئٹر اور ڈبل بریسٹ کوٹ۔ ملبوسات پر سے تمام لیبل پہلے ہی سے نکال لئے گئے تھے۔ متوفی کے پاس سے کوئی ہیٹ برآمد نہیں ہوا۔ یہ 1948 کے زمانے کے لحاظ سے ایک غیر معمولی بات تھی۔ لاش کے پاس کوئی بٹوا بھی موجود نہیں تھا۔ کسی قسم کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے پہلے پہل پولیس نے اس کو خود کشی قرار دینے کی کوشش کی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس نا معلوم شخص کی موت کا وقت یکم دسمبر، تقریباً 2 بجے صبح تھا۔ مرنے والے کا دل معمول کے مطابق تھا۔ حلق اور نرخرے میں السر یا ناسور کے ساتھ سفید رطوبت نظر آئی۔ پیٹ غیر معمولی طور پر بہت زیادہ سکڑا ہوا پایا گیا۔ چھوٹی آنت کے اگلے حصے میں کھائے گئے کھانے کے ساتھ ساتھ خون کی مقدار پائی گئی۔ دونوں گردے سکڑے ہوئے تھے۔ جگر کی وریدوں میں کافی زیادہ خون تھا۔ تلی نمایاں طور پر اپنی معمول کی جسامت سے تین گنا زیادہ بڑھی ہوئی نظر آئی۔

مختصر یہ کہ جگر، گردے اور دماغ بہت زیادہ سکڑے ہوئے تھے۔ پوسٹ مارٹم کے مطابق متوفی نے موت سے تین سے چار گھنٹے قبل آخری چیز پیسٹری کھائی تھی۔ ماہرین نے واضح طور پر کہا کہ یہ طبعی موت نہیں ہے لہٰذا کسی نامعلوم مہلک زہر کے استعمال کا شبہ کیا گیا کیوں کہ اس کے علاوہ تفتیش کے دوران موت کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آ سکی نہ ہی یہ ثابت ہو سکا کہ گواہوں نے ساحلی پشتے پر جس شخص کو دیکھا تھا وہ یہی شخص تھا، کیوں کہ کسی نے بھی بغور اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔

اسی سال یعنی 1948، دسمبر کی 10 تاریخ کو مقامی حکام نے وہ لاش حنوط کروا لی۔ یہ وہاں پر کسی لاش کے حنوط کیے جانے کا پہلا واقعہ تھا۔

سوٹ کیس کی دریافت

14 جنوری 1949 کو ایڈی لیڈ ریلوے اسٹیشن کے ملازمین کو مال گودام کے کمرے سے بھورے رنگ کا ایک لاوارث سوٹ کیس ملا جس سے ملکیت کے لیبل اتار لئے گئے تھے۔ چھان بین کرنے سے پتا لگا کہ یہ سوٹ کیس 30 نومبر 1948 کو دن کے 11:00 بجے کے بعد یہاں رکھوایا گیا تھا۔

اس سلسلے میں بھی قیاس کے گھوڑے دوڑائے اور اس کا تعلق ساحل سے ملنے والی نا معلوم لاش سے جوڑا گیا۔ سوٹ کیس میں ایک لال رنگ کا ڈریسنگ گون، پیر میں پہننے کے لئے لال رنگ کے سلیپروں کا جوڑا، سلیپنگ سوٹ، شیو کا سامان، ہلکے بھورے رنگ کی ایک پتلون جس پر ریت کے ذرات واضح نظر آ رہے تھے، کچھ ٹائیاں، الیکٹریشن کے استعمال والا اسکرو ڈرائیور، عام استعمال کی ایک چھوٹی چھری جس کی نوک کو خوب اچھی طرح تیز کیا گیا تھا۔ ایسی ہی تیز نوک والا معاملہ اس چھوٹی قینچی کے کونوں کا بھی تھا جو اس کے ساتھ ہی پائی گئی اور پانی کے جہازوں کے سامان پر مارکہ لگانے والا ایک اسٹینسل برش بھی تھا۔

گو کہ کپڑوں سے شناخت کے تمام نشانات ہٹا دیے گئے تھے پھر بھی پولیس کو T۔Kean کا نام ایک ٹائی سے مل گیا۔

یہی نام ایک بنیان پر بھی پایا گیا۔ اس کے علاوہ ڈرائی کلینر کے لگائے گئے تین نشان : 1171 / 7، 4393 / 7 اور 3053 / 7 بھی مل گئے۔ پولیس کا خیال تھا کہ جس کسی شخص نے کپڑوں سے شناختی لیبل اتارے تھے اس نے ارادتا یہ نشانات رہنے دیے تھے کیوں کہ یہ متوفی کا نام نہیں ہو سکتا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ پنسل کاغذ تو موجود تھا لیکن کسی بھی قسم کی کوئی خط کتابت نہیں پائی گئی۔

مقامی اور ملکی سطح پر کافی بھاگ دوڑ کے بعد بھی ٹی کین نام کے کسی شخص کی گم شد گی کی رپورٹ کا سراغ نہیں لگ سکا نہ ہی ڈرائی کلینر کے مخصوص نشانات سے کوئی مدد مل سکی۔ سوٹ کیس سے بس کام کی یہ بات معلوم ہوئی کہ سلیپنگ سوٹ پر سامنے کی جیب پر جو مشینی کشیدہ کاری کی گئی تھی وہ ان دنوں صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہی میں کی جاتی تھی، لہٰذا اغلب امکان تھا کہ یہ شخص امریکہ میں رہ چکا تھا یا وہ سوٹ اپنے ہی جیسے قد کاٹھ کے کسی شخص سے لیا گیا تھا جو حال ہی میں امریکہ سے آیا تھا۔

رباعیات عمر خیام سے لاش کا تعلق

اچانک موت کی اس تفتیش کے دوران جو چیز سب سے زیادہ مشہور ہوئی وہ اس شخص کی جیب سے نکلنے والا ’تمام شد‘ والا کاغذ کا ٹکڑا تھا۔ مقامی پولیس نے لائبریری سے ماہرین بلوائے تا کہ ترجمہ کروایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کی یہ تو رباعیات عمر خیام کی کتاب کا آخری صفحہ ہے۔ پولیس کی ان تھک بھاگ دوڑ بارآور ثابت ہوئی اور رباعیات عمر خیام کا وہ نسخہ دستیاب ہو گیا جس سے یہ صفحہ پھاڑا گیا تھا۔ ایک شخص نے پولیس کو رباعیات کا 1941 کا ایڈیشن دکھایا جو ایڈورڈ فٹز جیرالڈ نے انگریزی میں ترجمہ کیا تھا اور جسے نیوزی لینڈ کے ایک نامور ناشر نے شائع کیا تھا۔

سراغ رساں سارجنٹ لین نے اس کیس میں سامنے آنے والے گواہان کی اصل شناخت ہمیشہ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جہاں بہت ضروری ہوا وہاں فرضی نام استعمال کیے۔ اس کتاب رباعیات عمر خیام کے آخری اندرونی کور میں ہاتھ سے لکھی گئی تحریر کسی سے بھی پڑھی نہ جا سکی لہٰذا اسے ایک خفیہ پیغام سمجھا گیا۔ پولیس کے مطابق یہ کتاب ایک لاوارث کار کے اندرونی پائدان میں پائی گئی تھی۔

رباعیات عمر خیام کا موضوع ہے کہ انسان کو اپنی زندگی بھرپور گزارنا چاہیے اور اس کے خاتمہ پر قطعاً کوئی رنج نہیں کرنا چاہیے۔ اس موضوع کی وجہ سے پولیس نے خودکشی والا نظریہ قائم کیا حالاں کہ اس کو ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی واضح دلیل نہیں تھی۔

خفیہ پیغامات کے ماہرین کو بلویا گیاتا کہ اس پیغام کو پڑھا جا سکے لیکن وہ ناکام رہے۔ 1978 میں اے بی سی ٹیلی ویژن کے صحافی اسٹوئرٹ لٹل مور کی درخواست پر محکمۂ دفاع کے خفیہ پیغامات کے توڑ کے ماہرین نے اس ہاتھ سے لکھے حروف کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا کہ کسی ایک نتیجہ پر پہنچنا تقریبا ناممکن ہے۔

اس ٹیلی فون نمبر کی بابت معلوم ہوا کہ وہ جسکا ایلن نامی ایک نرس کے گھر کا ہے، یہ جو ٹامسن کہلاتی تھی ( 1921۔ 2007 ) ۔ اس خاتون کا گھر، لاش ملنے کے مقام سے محض 1,300 فٹ، شمال کی جانب واقع تھا۔ پولیس سے سوال جواب اور مرنے والے کی تصویر دیکھ کر اس نے بتایا کہ وہ متوفی کو نہیں جانتی۔ یہ اس کے لئے بھی معمہ ہے کہ اس کا ٹیلی فون نمبر متوفی تک کیسے پہنچا۔ سراغ رساں فیلٹس نے 2002 میں لکھی گئی اپنی کتاب میں اس کیس کا ذکر کیا ہے کہ پولیس کے سوال جواب میں وہ ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی اور بات کرنے سے گریزاں تھی۔ سراغ رساں کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ وہ اس شخص سے واقف تھی۔ نرس ٹامسن کی بیٹی کیٹ نے 2014 میں ٹیلی ویژن پروگرام 60 منٹس میں یہی بات کہی کہ اس کو اس بات کا یقین ہے کہ اس کی ماں اس مرنے والے شخص کو جانتی تھی۔

1949 میں جسکا ٹامسن نے پولیس سے درخواست کی کہ اس کیس سے اس کا نام نکال دیا جائے کیوں کہ آئے دن لوگ سوال جواب کے لئے آتے ہیں جو اس کے لئے پریشانی کا باعث ہوتا جا رہا ہے۔ پولیس نے یہ بات مان لی جس سے اس کیس میں تحقیقات کی پیش رفت متاثر ہو گئی۔ بہر حال، 2010 میں شائع شدہ اپنی کتاب میں سابقہ سراغ رسان فیلٹس نے فرضی نام ہی استعمال کیے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ نرس ٹامسن کے اہل خانہ، تمام شد والے شخص سے اس کے تعلق کو نہیں جانتے۔ جب نرس جسکا کو نامعلوم شخص کا پلاسٹر میں ڈھلا ہوا مجسمہ دکھایا گیا تو وہ مکمل طور پر دنگ رہ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ گویا وہ بے ہوش ہو گئی ہو؛ البتہ اس نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ اسی سے ملتی جلتی بات کئی سال بعد اس کاریگر پال لاسن نے بھی کہی جس نے وہ مجسمہ ڈھالا تھا اور اس کی موجودگی میں جیسکا ٹامسن کو وہ مجسمہ دکھلایا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ جیسکا نے جب اس مجسمہ کو دیکھا تو فوراً ہی اپنی نظریں وہاں سے ہٹا لیں اور پھر دوبارہ اس کو نہیں دیکھا۔

ایک موقع پر جسکا نے بتایا کہ دوسری جنگ عظیم کے ختم ہونے کے قریب سڈنی کے ایک اسپتال میں ملازمت کے دوران اس کے پاس رباعیات عمر خیام کا یہ نسخہ تھا جو اس نے فوج کے لفٹینٹ ایلف باکسل کو دے دیا۔ خاتون نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ جنگ کے اختتام پر وہ میلبورن نقل مکانی کر گئی اور وہیں شادی کر لی۔ ایک مرتبہ اسے باکسل کا خط بھی موصول ہوا جس کا اس نے جواب دیا۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اس نے غلط بیانی کی تھی کیوں کہ اس کی شادی 1950 کے وسط میں ہوئی تھی۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں مل سکا کہ باکسل نے 1945 کے بعد کبھی اس سے رابطہ کیا تھا۔

جیسکا ٹامسن سے گفتگو کے بعد پولیس نے اس تمام شد شخص پر باکسل ہونے کا شبہ ظاہر کیا، لیکن جولائی 1949 میں وہ شخص جیتا جاگتا سڈنی میں پایا گیا اور حیرت انگیز بات یہ کہ جیسکا ٹامسن کی دی ہوئی رباعیات عمر خیام بالکل صحیح و سالم دستیاب ہو گئی، یعنی ’تمام شد‘ والے صفحہ کے ساتھ۔ وہ وہاں قطعاً بے خبر، ایک بس کمپنی میں کام کر رہا تھا۔ رباعیات عمر خیام کی اس کی کتاب کے پہلے صفحہ پر جیسکا ہارک نیس کے دستخط بھی تھے۔

کیا ’تمام شد‘ کے نام سے مشہور ہونے والا شخص کوئی جاسوس تھا؟

جس پس منظر میں یہ نا معلوم لاش پائی گئی اس میں قیاس آرائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور اس شخص کو جاسوس سمجھا جانے لگا۔ ایلف باکسل بھی مبینہ طور پر جنگ عظیم دوئم میں انٹیلی جنس کا کام کرتا رہا تھا۔ 1978 میں اسٹوئرٹ لٹل مور کو دیے گئے اپنے ٹیلی وژن انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ ”کیا آپ نے نرس جیسکا کو اپنی اس ملازمت کا بتلایا تھا؟“ ، اس نے جواب دیا ”جی نہیں بتایا تھا“ ۔ جب پوچھا گیا کہ ”تمام شد والے شخص کا انجام، جاسوسی کا شاخسانہ تو نہیں؟“ ۔ تو اس نے جو اباً کہا کہ ”کسی ٹھوس ثبوت کی عدم موجودگی میں وہ اس بات کو نہیں مانتا“ ۔

تمام شد والے شخص کی تدفین

14 جون 1949 کو تمام شد سے مشہور ہونے والے شخص کو ایڈی لیڈ کے مقامی قبرستان میں قبر نمبر 106 اور قطار نمبر 12 دفن کر دیا گیا۔ اس کیس کی شہرت کو دیکھتے ہوئے جلد ہی قبرستان کے اس حصے کو ’پلان 3‘ کا نام دے دیا گیا۔

تدفین کے کچھ عرصہ کے بعد اس پراسرار شخص کی قبر پر پھول رکھے نظر آنے لگے۔ اب یہ کیا ماجرا تھا؟ پتا نہیں چل سکا۔ تقریباً اسی زمانے میں ایڈی لیڈ ریلوے اسٹیشن کے سامنے والے ہوٹل کے استقبالیہ میں ملازمت کر نے والی ایک خاتون نے پولیس کو بیان دیا کہ چند روز کے لئے ایک شخص کمرہ نمبر 21 یا 23 میں ٹھہرا تھا، جو 30 نومبر 1948 کو چیک آؤٹ کر گیا۔ خاتون نے کہا کہ اس شخص کے سامان میں صرف چھوٹا سا ایک سیاہ کیس تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کیس نہ تو ڈاکٹر اور نہ کسی سازندے کے کیس کی طرح کا تھا۔ ایک دوسرے ملازم نے بتایا کہ اس نے اس کیس میں ’سوئیاں‘ دیکھی تھیں۔

ان 74 سالوں میں کتاب کی اندرونی طرف ہاتھ سے لکھے گئے خفیہ پیغام کو پڑھنے کی کئی کوششیں کی گئیں جن میں نامور ماہر ریاضی دان اور فوج کی خفیہ ایجنسیاں بھی شامل رہیں مگر نتیجہ؟ ڈھاک کے تین پات۔

2004 میں سابقہ سراغ رساں جیری فلٹس نے ایک مقامی روزنامہ میں اپنے مضمون میں لکھا کہ خفیہ پیغام کی آخری سطر ITTMTSAMSTGA کا مطلب ”It ’s Time To Move To South Australia Moseley Street۔“ یعنی‘ جنوبی آسٹریلیا، موسلی اسٹریٹ جانے کا وقت آ گیا ہے۔ ’لیا جا سکتا ہے۔ خاتون نرس اسی جگہ رہتی تھی۔ لیکن یہ صرف قیاس ہی رہا۔ کیوں کہ 2014 میں کمپیوٹر اور ماہر لسانیات نے اس لکھے ہوئے حروف کو سرے سے کسی خفیہ پیغام ماننے سے انکار کر دیا اور یوں تمام شد کیس کے اس خفیہ پیغام کو پڑھے جانے کی جستجو بھی دم توڑ گئی۔

آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے 1978 میں تمام شد کیس پر ایک دستاویزی فلم Somerton Beach Mystery بھی بنائی۔ جس میں اسٹوئرٹ لٹل مور نے اپنا تجزیہ اور لوگوں سے تفتیشی سوال جواب کیے ۔ باکسل سے بھی سوالات کیے لیکن کوئی نئی بات نہیں بتائی گئی؛ جبکہ پال لاء سن جس نے تمام شد والے شخص کو پلاسٹر میں ڈھالا تھا، اس سوال کا جواب دینے سے ہی انکار کر دیا کہ کیا کبھی کسی نے اس شخص کی شناخت بھی کی؟

1994 میں جنوب مشرقی آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کے چیف جسٹس اور وکٹورین انسٹی ٹیوٹ آف فورینزک میڈیسن نے یہ مشہور زمانہ تمام شد کیس کا ایک دفعہ اور جائزہ لیا لیکن کوئی نئی بات سامنے نہ آ سکی۔ پولیس کے ایک سابقہ افسر لین براؤن، جس نے اس کیس پر کام بھی کیا تھا، کو یقین تھا کہ اس پر اسرار شخص کا تعلق روسی بلاک کے کسی یورپی ملک سے تھا۔ اسی لئے پولیس کو اس شخص کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہ ہو سکا۔ ادھر مبینہ طور پر ہوٹل والا لاوارث بھورا سوٹ کیس 1986 میں نامعلوم وجوہ کی بنا پر تلف ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس کی فائلوں میں سے کئی ایک قیمتی شہادتیں اور بیانات غائب ہو گئے یا کر دیے گئے۔

ان تمام برسوں میں اس پر اسرار شخص کی کئی ایک مرتبہ شناخت کیے جانے کے دعوے بھی سامنے آتے رہے جو ریاست وکٹوریا کے سراغ رسانوں نے مسترد کر دیئے۔ اس کیس کی گتھی سلجھانے کی کہاں کہاں کوششیں نہیں کی گئیں۔ امریکی نیشنل آرکائیوز، برطانوی نیشنل آرکائیوز اور آسٹریلین وار میموریل ریسرچ سینٹر وغیرہ سب بے بس نظر آئے۔ ساؤتھ آسٹریلیا میجر کرائم برانچ میں یہ کیس اب بھی لسٹ پر ہے جو اس بات پر دلیل ہے کہ اس کو بند نہیں کیا گیا۔

پروفیسر ڈیریک ایبیٹ

مارچ 2009 میں ایڈی لیڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیرک ایبٹ نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس اسرار سے پردہ اٹھانے کے لئے تمام شد والے شخص کی قبر کشائی کی اجازت مانگی تا کہ ڈی این اے کے لئے نمونے حاصل کیے جا سکیں۔ ایبٹ کی تحقیق و تفتیش نے معاملہ کو مزید الجھا دیا اور کئی ایک سوالات اٹھائے۔ مثلاً یہ کہ پولیس کی ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے لائی گئی تھی کہ دوسری عالمی جنگ کے پس منظر میں یہ ایک عام رواج تھا کہ عام لوگ قیمتی برانڈ کے سگریٹ کے پیکٹ میں کم قیمت سگریٹ رکھا کرتے تھے اور اس شخص کے پاس Kensitas برانڈ سیگریٹ ’آرمی کلب‘ برانڈ کے پیکٹ میں تھے۔ لیکن ایبٹ کی تحقیق نے ثابت کیا کہ اس وقت تو Kensitas مہنگا سگریٹ تھا۔ اب اس سے ایک نیا زاویہ بنا کہ کہیں سگریٹ کی مدد سے ارادتا ( خود کشی ) یا دھوکے سے زہر تو نہیں دیا گیا۔ اس پر کبھی سوچا ہی نہیں گیا تھا۔ اسی تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ 1948 اور 1949 کی پوسٹ مارٹم رپورٹیں اب موجود نہیں۔

مئی 2009 میں ڈیرک ایبٹ نے کانوں اور دانتوں کے ماہر ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر ثابت کیا کہ تمام شد شخص کے کانوں کی ایک مخصوص بناوٹ تھی جو وہاں کے لوگوں میں مشکل سے ایک سے دو فی صد دیکھنے میں آتی تھی۔ یہی حال دانتوں میں ایک بہت نایاب جینیاتی خرابی کا بھی تھا جو مقامی لوگوں میں محض 2 % ہے۔ جون 2010 میں ایبیٹ نے نرس جیسیکا ٹامسن کے بیٹے رابن کی تصویر حاصل کی۔ اس میں اس کے کانوں کی بناوٹ اس نا معلوم شخص کے کان کے جیسی تھی۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ موروثیت میں ہوتا ہے ورنہ کروڑوں میں ایک ہوتا ہے۔ میڈیا نے قیاس ظاہر کیا کہ رابن ٹامسن تمام شد والے شخص کا بیٹا ہو سکتا ہے کیوں کہ 1948 میں وہ 16 ماہ کا تھا۔ یہ 2009 میں انتقال کر گیا۔ یہ جھگڑا بھی ڈی این اے کے ٹیسٹ کی مدد سے حل ہو سکتا تھا لیکن اکتوبر 2011 میں وہاں کے اٹارنی جنرل نے قبر کشائی کی اجازت نہیں دی۔

تفتیش رہی ایک طرف، 7 جون 2015 کے کیلی فورنیا سنڈے میگزین نے تمام شد کیس پر تفصیلی فیچر شائع کیا جس میں ڈیرک ایبٹ اور ریشل کی 2010 میں شادی کا بھی ذکر تھا۔ یہ نرس ٹامسن کی پوتی تھی اور خود ایبٹ کی تحقیق کے مطابق نامعلوم تمام شد والے شخص کی پوتی بھی۔

نومبر 2013 میں ٹیلی وژن پروگرام 60 منٹس میں سابقہ نرس جیسکا ٹامسن کے عزیز و قارب کے انٹرویو نشر ہوئے۔ جیسکا کی بیٹی کیٹ ٹامسن نے کہا کہ خود اس کی ماں نے اسے بتایا کہ اس نا معلوم شخص کے بارے میں اس نے پولیس سے جھوٹ بولا تھا نیز یہ کہ وہ اس شخص کو جانتی تھی۔ اور یہ بھی کہ اعلیٰ حکام بھی تمام شد کی اصلیت جانتے تھے۔ کیٹ کا کہنا تھا کہ اس کی ماں اور یہ نامعلوم شخص جاسوس رہے تھے۔ اس کی ماں اشتراکیت میں بہت زیادہ دلچسپی لیتی، تارکین وطن کو انگریزی سکھلاتی اور فر فر روسی زبان بولتی تھی۔ کبھی پوچھنے پر بھی نہیں بتایا کہ اس نے یہ زبان کہاں سے اور کیوں سیکھی؟ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ٹامسن اشتراکی ممالک کے جاسوسوں کی نگران تھی۔

ڈیریک ایبٹ اور ریشل

کیٹ کی بھابی روما اور بیٹی ریشل نے بھی خیال ظاہر کیا کہ تمام شد کیس سے شہرت پانے والا رابن کا باپ تھا اور اس لحاظ سے اس کا دادا۔ اب انہوں نے پھر سے اٹارنی جنرل سے ڈی این اے کے لئے نامعلوم شخص کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹے رابن کی بھی قبر کشائی کی اجازت حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ شروع کی جبکہ کیٹ ٹامسن نے اپنے بھائی رابن کی قبر کشائی کو بے حرمتی قرار دیتے ہوئے سخت مخالفت کی۔

ڈیرک ایبٹ کو ان کے ناقدین جنونی کہتے ہیں کہ وہ اس کیس کو حل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ کسی چیز کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنا یا جان کو عذاب ہونا ان پر ختم ہے۔ یہ بات پولیس کے سابقہ سراغ رساں جیری فیلٹس نے کہی جو اس کیس میں ایک طرح سے ایبٹ کا حریف بھی تھا۔

2007 میں ایبٹ نے اس کیس میں دل چسپی لینا شروع کی۔ فیس بک نے بھی اس کی بہت مدد کی۔ مثال کے طور پر ٹائی۔ ا س زمانے میں برطانیہ اور نو آبادیوں میں ٹائی کی پٹیوں کے ڈیزائن اور امریکی ٹائی کی پٹیوں میں واضح فرق تھا۔ تمام شد والے شخص کی ٹائی امریکی طرز کی تھی جو اس زمانے میں آسٹریلیا میں نایاب تھیں۔ ایبٹ نے یہ بھی بتایا کہ رباعیات عمر خیام در اصل خفیہ پیغامات یا جاسوسوں کی خفیہ کتاب تھی۔ 1950 کی دہائی میں اس کیس کی ایک اہم شہادت، رباعیات، پولیس کے پاس سے گم ہو گئی۔ اس کا ناشر بھی عجب ہی تھا، ایک وقت میں صرف ایک نسخہ بنایا جاتا تھا۔

فیس بک سے علم ہوا کہ آسٹریلیا، سڈنی میں رباعیات عمر خیام کے ساتھ ایک اور پراسرار اور غیر فطری موت واقع ہوئی تھی۔ وہ ایک تارک وطن تھا جس نے ممسک ادویات زیادہ مقدار میں کھا کر خود کشی کر لی۔ اس کے پہلو میں یہی رباعیات عمر خیام کا نسخہ تھا۔ مگر اس سے بھی تمام شد والے کیس کو کوئی مدد نہ مل سکی۔

نرس جیسکا ٹامسن واحد شخصیت تھی جس پر شبہ تھا کہ وہ بہت کچھ جانتی ہے۔ مگر پوری زندگی اس نے لب کشائی نہیں کی۔ ایبٹ نے بھی اب اپنی زندگی کا مقصد تمام شد کیس بنا لیا۔ وہ سابقہ نرس ٹامسن کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کر کر سوال جواب کیا کرتا تھا کہ شاید کوئی کام کی بات سامنے آئے۔ اسی سلسلے میں ایبٹ نے جیسکا ٹامسن کے بیٹے رابن کی بیوہ روما کو تمام شد سے شہرت پانے والے نا معلوم شخص کی تصویر بھیجی کہ کیا وہ اس کو یا اس جیسے کسی شخص سے واقف ہے؟ روما نے فوراً جواب دیا کہ متوفی کی تصویر دیکھ کر اسے اپنا شوہر یاد آ گیا۔ نیز ایک اور کام کی بات معلوم ہوئی کہ اس کی ساس، یعنی سابقہ نرس جیسکا ٹامسن بہت ہی پراسرار تھی اور دواسازی یا علم الادویات میں عمل دخل رکھتی تھی۔

تمام شد کیس سے شہرت پانے والے شخص کی مبینہ پوتی ریشل سے پروفیسر ڈیئرک ایبٹ کی شادی سے متعلق عام خیال یہ ہے کہ ایبٹ نے یہ شادی بھی تمام شد کے کیس کی گتھی سلجھانے کے لئے کی ہے تا کہ خونی رشتے کے ناتے اس شخص کے محفوظ شدہ سر کے بالوں سے اس کی مبینہ پوتی کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے۔

اگر ڈی این اے کروا کر ایبٹ یہ ثابت بھی کر دے کہ وہ نا معلوم شخص اس کی بیوی کا دادا تھا تب بھی شاید ہم یہ کبھی نہ جان سکیں کہ تمام شد کیس سے مشہور ہونے والے کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ کیا اس کے قتل میں جیسکا کا کوئی ہاتھ تھا؟ خود ایبٹ کا کہنا ہے : ”۔ اگر جیسکا پولیس کو سچ بتاتی تو اسرار سے پردے اٹھانے کی یہ بھاگ دوڑ نہ ہوتی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ پھر ہماری شادی بھی نہ ہوتی۔ شاید اسی کو قسمت کا کھیل کہتے ہیں۔ ڈی این اے ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا، تمام شد والا شخص اب میرے بچوں کا پردادا ہے لہٰذا یہ معاملہ اب ختم سمجھا جائے۔

۔ ۔
تمام شد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).