فرخ سہیل گوئندی کا جہان

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


خواتین و حضرات! کتاب پڑھنے کا بھی موسم ہوا کرتا ہے، کھڑکیوں پہ دھند جمی ہو، آتشدان میں آگ جل رہی ہو، نرگس کے پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی ہو اور اس موسم میں ایک کپ گرم کافی کے ساتھ ”میں ہوں جہاں گرد“ پڑھنے کو مل جائے تو سبحان اللہ!

قدرت مجھ پہ بہت مہربان ہے، میرا واسطہ ہمیشہ اچھے لوگوں، اچھی کتابوں اور اچھے شہروں سے رہا۔ جن میں ”میں ہوں جہاں گرد“ بھی شامل ہو گئی سبحان اللہ!

یہ سفر نامہ جو گوئندی صاحب نے چار دہائیوں تک مہر بند کر کے اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں تخمیر کے عمل سے گزرنے کے لیے رکھ دیا تھا جب ہمارے سامنے آتا ہے تو اس کی تاثیر وہی ہوتی ہے جو تیس برس پرانی انگور کی شراب کی ہوتی ہے، ایک بار پھر سبحان اللہ!

1983 ء میں کیے گئے، ایران، ترکی اور بلغاریہ کے ان اسفار پہ گوئندی صاحب نے اتنی دیر بعد قلم کیوں اٹھایا، اس کی ایک توجیہہ تو میں نے بیان کر دی باقی اصل حقیقت سے پردہ صاحب کتاب خود اٹھا دیں تو قاری کا تجسس کافی حد تک دور ہو جائے گا۔

سفرنامہ کیا ہوتا ہے اور سفر نامے کو کیا ہونا چاہیے؟ ان سوالات سے ہٹ کے میں صرف ایک بات جانتی ہوں کہ سفر نامے کو کسی بھی طرح سند باد جہازی کے سفر نامے سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ ”میں ہوں جہاں گرد ’پڑھتے ہوئے مجھے بالکل ایسا لگا کہ میں سند باد کے ساتھ سفر کر رہی ہوں یا پھر ایلیاڈ کے کسی باب سے گزر رہی ہوں۔ بظاہر ایران، ترکی اور بلغاریہ کے اسفار میں کوئی ایسا جہان حیرت پوشیدہ نہیں، لیکن مصنف کے اندر کے جہاں گرد نے ایک ایک قدم پہ جس طرح تاریخ، جغرافیہ، معاشرت اور تہذیب کے اتار چڑھاؤ کو محسوس کیا اور بغیر کسی لگی لپٹی کے ہمارے سامنے پیش کیا اور اس سفر نامے کو ایک الف لیلوی رنگ عطا کرتا ہے۔

گوئندی صاحب کے اسلوب میں جو تازگی اور بے ساختگی ہے اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہمارے زیادہ تر مصنف حضرات و خواتین، عام بول چال تو ’لاہوری لہجے‘ میں کرتے ہیں مگر کتاب لکھتے ہوئے جانے ان کے سر پہ کون سا جن کھیل رہا ہوتا ہے کہ ایسی گنجلک زبان لکھ جاتے ہیں جو کسی کے فرشتے خان کو بھی سمجھ نہ آئے۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، اس سفر نامے کا اسلوب ایسا ہے کہ لگتا ہے فرخ صاحب سامنے بیٹھے کہانی سنا رہے ہیں، وہی الفاظ، وہی انداز، ذرا جو تصنع، بناوٹ اور استادی چھو کر بھی گزری ہو۔ اس سچائی اور خلوص کے لئے بطور قاری بہت ممنون ہوں۔

ایک اور بہت اہم بات، بظاہر ایک انقلابی ہوتے ہوئے بھی فرخ صاحب اس کتاب میں سر تا سر ایک ’جہاں گرد‘ ہی نظر آتے ہیں۔ سنجے دت کی ایک فلم میں سنجے، کیمرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ڈپٹ کے کہتے ہیں ”جی ہاں، میں ہوں کھل نائیک“ اور وہاں سے سنجے دت کا بطور ولن فلمی سفر شروع ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح ہمارے انقلابی نظریاتی فرخ بھائی بھی اس سفر نامے کے ذریعے اپنے نئے ’اوتار‘ کا اعلان کرتے ہیں۔ کہ ”میں ہوں جہاں گرد“ انقلاب ایران سے متاثر ہونے کے باوجود، ایرانی بادشاہوں کی عظمت ان کے دور میں اٹھائے گئے مثبت اقدامات، انقلاب کی سختی سے بگڑے ہوئے چہروں کے عقب سے جھانکتے آزاد انسانوں کے خوبصورت لہجے، چادروں اور حجابوں تلے چھپے وجود، ہپیوں کے ٹولے، بین کیے ہوئے گیت، ویران پڑے ہوئے محلات، اجاڑ قلعے، انجیل مقدس میں بیان کیے گئے پہاڑوں کے دامن میں چرتی بھیڑوں اور مقدس صحیفوں میں مرقوم دریا بھی اس شخص کے لئے اسی محبت مستحق ہیں جس عقیدت سے وہ ارارات کے پار اپنی سرخ جنت کو تاکتے ہیں۔ اس توازن کے لئے مصنف یقیناً لائق تحسین ہیں۔

فرخ صاحب نے یہ سفر تب کیے جب آتش جوان تھا، ان کے سفری تھیلے میں ماوتھ آرگن، گانوں کے کیسٹس اور ایک بانسری بھی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ، سچائی، تہذیب اور علم کا بغچہ بھی تھا۔ اس سفر میں انہیں کئی ’پری چہرہ‘ بھی ملے لیکن ہمارا جہاں گرد، ان حسین چہروں کے اعتماد، ان کے لہجوں کی حلاوت، ان کے علم، ان کے تہذیبی رکھ رکھاؤ اور گفتگو کے رچاؤ کسی بھی ’ٹھرک‘ کے بغیر ایسے ہی دیکھتے ہوئے گزرتا ہے، جیسے شہر اصفہان کی کیاریوں میں کھلے گلابوں کو دیکھ کے گزرتا جاتا ہے۔ ایک سیر چشم سیاح ایسا ہی ہوتا ہے۔

فرخ صاحب کا سفرنامہ، ان تینوں ملکوں کی تاریخ، حال، نظریات، طرز تعمیر، معاشرت، تمدن، لباس، سماج، سیاسی حالات، بودوباش اور خوراک کا احاطہ کرتا ہے۔ لکھتے ہوئے جو سچائی اور بے ساختگی اختیار کی گئی ہے۔ اس سے پڑھنے والے والے کو بارہا لگتا ہے کہ یہ سفر فرخ آغا یا فاروق بے کر رہے ہیں، بلکہ قاری خود محو سفر ہے۔

سفر نامے کی کمزوری یہ ہی تھی کہ سات سو صفحات پہ محیط ہونے کہ باوجود یہ ختم ہو گیا۔ گو میری کوشش یہ ہی تھی کہ اسے بہت ٹھہر ٹھہر کے پڑھا جائے لیکن ریڈیبیلیٹی کا عنصر ہونے کی وجہ سے کتاب مسلسل مطالعے پہ اکساتی رہی اور چھہ روز میں یہ سفر بھی ختم ہوا۔

دیکھئے یہ اگلا سفر نامہ کب آتا ہے۔ ہم سب منتظر ہیں ’جہاں گرد کی واپسی‘ یا سند باد کے دوسرے سفر کے اور دیکھتے ہیں کہ جب وہ سفر نامہ آتا ہے تو اس جہاں گرد اس میں قاری کے لئے کیا لے کر آتا ہے، کلیاں کانٹے اور غبار یا پھر گلاب کے پھول۔

فرخ آغا! کتاب کی اشاعت پہ بہت مبارک باد قبول کیجئے، لکھتے رہیے کہ ’قحط الرجال‘ کے عہد میں آپ جیسے لوگوں کا لکھتے رہنا بھی غنیمت ہے، شکریہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments