بائیڈن کے بیان کا مقصد کیا تھا؟ خارجہ تعلقات میں دیگر مواقع


یہ گمان کرنا کہ امریکی صدر نے پاکستان کے حوالے سے بیان بغیر سوچے سمجھے یا روا روی میں داغ دیا ہے امریکی خارجہ پالیسی اور اس کے اقدامات کا درست تجزیہ نہیں ہے۔ جب صدر ریگن ذہنی بیماری میں مبتلا تھے اور دنیا ان کی اس ذہنی کیفیت سے ناآشنا تھی ان کے اس وقت کے بیانات، تقاریر تک اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو کہیں بھی امریکی پالیسی سے ہٹ کر کچھ مل پائے گا۔ وہاں پر جرمنی اور جاپان کی سرحد ملا دینے جیسے معاملات نہیں پائے جاتے ہیں بلکہ تفصیلی غوروخوض ہر اقدام کی بنیاد ہوتا ہے۔

امریکہ نے اس بیان پر ایک اور بیان جاری کر دیا تاکہ پاکستان کو جتنا دباؤ میں لانا تھا کہیں پاکستان اس سے زیادہ دباؤ کا شکار نہ ہو جائے۔ امریکہ نے ان دونوں بیانات سے یہ واضح کر دیا ہے کہ کمزور معیشت رکھنے والے ایٹمی پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے اور اس کو دوبارہ ایف اے ٹی ایف جیسے معاملات میں پریشان کرنے کے لیے یہ حربہ ابھی تک کارگر ہے اور امریکہ ہی اس دباؤ سے پاکستان کو محفوظ رکھنے والا ملک ہے۔

خیال رہے کہ اسی دوران پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکل گیا امریکہ نے ایسا کچوکا اس وقت کیوں لگایا تو اس کا تجزیہ کرنے کی غرض سے ہمارے سامنے پاک امریکا تعلقات اور پاکستان سے متعلق خطوں، ممالک میں امریکی ترجیحات اور ان ممالک کے داخلی حالات کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو اپنے سے ایک خاص حد سے دور نہیں جانے دینا چاہتا اور یہ پاکستان کے لیے بھی کسی طور مناسب نہیں ہے کہ وہ امریکہ سے کٹی کر لے۔

اس لئے مستقل طور پر ایسا راستہ تلاش کر لینا چاہیے کہ جو کہ ہمارے اور امریکہ کے تعلقات کو مستقبل میں بھی کسی نوعیت کی خرابی سے محفوظ رکھ سکے۔ ہم بہت سارے معاملات سے جڑے ہوئے ہیں مثال کے طور پر موجودہ حکومت نے سی پیک کو دوبارہ سے فعال کرنے کے لیے زبردست کوششیں شروع کر دیں ہیں۔ امریکہ میں سی پیک کے حوالے سے ایک تحفظات کا رویہ پہلے بھی پایا جاتا تھا اور امریکہ اس کو اب کیسے دیکھ رہا ہے اور ہمیں اس سے اس پر کیا بات کرنی چاہیے نہایت اہم سوال ہے۔

پھر امریکہ اور سعودی عرب کا تیل کی پیداوار بڑھانے پر اختلاف اور پاکستان کی سعودی عرب کے لئے حمایت، یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور پاکستان کو کس حد تک متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے نہایت غور طلب موضوع ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر تادم تحریر افغانستان پاکستان کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ وہاں کی ہر حکومت آخر پاکستان سے چاہتی کیا ہے؟ تازہ ترین مثال پاکستان اور افغان طالبان کی جھڑپوں کی خبر ہے اس صورتحال کا دنیا میں کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور پاکستان کو اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا مدد فراہم کی جا سکتی ہے؟ سوچنے کی بات ہے۔

پھر پاکستان کے تعلقات مختلف امور پر ایران سے بھی آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں ایرانی قونصل جنرل نے دو چار روز قبل کچھ دوستوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ ان سے پاک ایران تعلقات اور ایران میں جاری حالیہ صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور ایران دونوں مل کر افغانستان کے معاملات کو سدھارنے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ بہت خوش کن خبر ہے کیونکہ ماضی میں دیکھا یہ گیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان افغانستان کے معاملات ایک تلخی کا باعث بن گئے تھے مگر اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تہران میں موجود ہو کر اس حوالے سے مصروف ہے کہ پاکستان اور ایران افغانستان کے معاملات پر ایک صفحہ پر ہو اور مستقبل میں بھی موجود رہیں۔

لیکن امریکہ اس صورتحال کو کیسے دیکھ رہا ہے بذات خود نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ امریکہ سے تعلقات کو بہتر رکھنے کے لئے جہاں امریکا سے دو طرفہ تعلقات کی اہمیت ہے وہیں پر پاکستان کے لئے اس کی بھی بہت اہمیت ہے کہ جو ملک دنیا میں اہمیت کے حامل ہیں اور امریکہ بھی ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے ان کا رویہ پاکستان کے حوالے سے کیا ہے؟ ایف اے ٹی ایف کا ذکر ہوا انہی صفحات پر راقم الحروف نے تحریر کیا تھا کہ اٹلی اس تنظیم کا شریک چیئرمین بن گیا ہے اور پاکستان کو اس مصیبت سے نکالنے کے لیے متحرک ہونا چاہتا ہے جو وہ ہو بھی گیا۔

اسی طرح بار بار خوشگوار ہوا کا جھونکا جرمنی کی جانب سے آ رہا ہے۔ جرمن وزیرخارجہ نے پہلے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا اور با الفاظ دیگر پاکستان میں کھڑے ہو کر اس بھارتی دعوے کی نفی کی کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اب یہی بیان انہوں نے برلن میں دیا ہے۔ ایسے دوستوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔

بھارت سے یاد آیا کہ وہاں پر آج کل 2024 کے انتخابات کے حوالے سے کانگریس تیاریوں میں مصروف ہے۔ راہول گاندھی بھارت جوڑو یاترا پر گاؤں گاؤں جا رہے ہیں جبکہ کانگریس کا دلت صدر بھی چن لیا گیا ہے۔ بھارت کی اس صورتحال پر گفتگو کرنے کا موقع ڈاکٹر امبیدکر سوسائٹی کے زیر اہتمام سیمینار منعقدہ پنجاب یونیورسٹی میں ملا۔ ڈاکٹر امبیدکر سوسائٹی کے ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا ڈاکٹر حسن شاہین اور بھارت سے آئے ہوئے چاروں مہمان جو اچھوت تھے اور جن میں سے تین اپنے اپنے شعبہ جات کے یونیورسٹیوں میں سربراہ تھے اور ان میں سے ایک معروف سماجی کارکن تھے نے پاک بھارت تعلقات پر موثر گفتگو کیں۔ کاش اس کا اثر بھارتی پالیسی ساز بھی لیں تاکہ جنوبی ایشیا ایک مستقل تصادم کی کیفیت سے نجات حاصل کر لے اور ہزاروں میل دور کے ممالک کا اس خطے پر اثر کم ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments