بالی وڈ اور کولی وڈ: فلم انڈسٹری کے دو بڑے مراکز جو ایک دوسرے کے مد مقابل بھی ہیں


چنائی سے ممبئی جاتے ہوئے ریل گاڑی میں میری ملاقات بھارتی فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب سے ہوئی۔ میں نے ان صاحب سے فلم انڈسٹری بارے کچھ معلومات حاصل کیں۔ ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

سب میں سے پہلے فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے انبوہ صاحب سے ہونے والی گفتگو کا خلاصہ بیان کرتا ہوں۔ عام طور پر تامل لوگوں کے نام کافی طویل ہوتے ہیں۔ میں انھیں انبوہ کے نام سے پکارتا تھا جو ان کے نام کا ایک حصہ تھا۔

فلموں کے بارے میں میرا علم بہت ہی کم ہے لیکن مجھے اتنا معلوم تھا کہ بھارت میں فلم انڈسٹری کا ایک مرکز ممبئی اور دوسرا چنائی ہے جہاں تامل فلمیں بنتی ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ لگی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر تنقید بھی کرتے ہیں اور اس طرح ایک مقابلے کی فضا بھی بنی رہتی ہے۔ جب میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان میں سے کون زیادہ بہتر ہے تو پتہ چلا کہ نمبر ون کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایک غیر علانیہ جنگ کا سا سماں ہے۔

میں نے انبوہ صاحب سے کہا کہ مجھے بھارتی فلمی مراکز کا تعارف کروائیں اور یہ بتائیں کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے اور معاشرے پر ان کے کیا اثرات ہیں؟ میرے سوال کے جواب میں جو انھوں نے جو کچھ بتایا اس کا خلاصہ حاضر خدمت ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ایک کو بولی وڈ کہتے ہیں اور دوسرے کو کولی وڈ کہتے ہیں۔ جس طرح امریکہ میں بننے والی فلموں کو ہالی وڈ کہتے ہیں اور لاہور میں بننے والی فلموں کو لالی وڈ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کولی وڈ میں تامل اور تلگو زبان کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی فلمیں بنتی ہیں۔ ان کے دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ جب کہ بولی وڈ میں بننے والی فلمیں ہندی اور پنجابی کے علاوہ کئی دیگر زبانوں میں بھی بنتی ہے جن کے دیکھنے والوں کی تعداد کولی وڈ کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ان کے بقول ٹیکنالوجی میں خاص فرق نہیں ہے۔ فلم کا بجٹ دونوں طرف ہی بہت زیادہ ہوتا ہے اور فلمیں بھی بہت زیادہ بزنس کرتی ہیں۔

میرا سوال تھا کہ ٹیکنالوجی اور بجٹ کے علاوہ دونوں فلموں کی کہانیوں اور ان میں پیش کی گئی باتوں، مختلف کرداروں کے لباس اور مناظر میں کیا فرق ہے؟

ان کا جواب بہت دلچسپ تھا کہ کولی وڈ کی فلمیں اپنی کہانی کی بنیاد پر چلتی ہیں اور یہ کہانیاں بہت ہی دلچسپ ہوتی ہیں جبکہ بولی وڈ میں بننے والی فلمیں کسی ایک واقعہ کو لے کر چلتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو مناظر بولی وڈ کی فلم میں دکھائے جاتے ہیں یا جس طرح کے لباس بولی وڈ کے کردار پہنتے ہیں وہ کولی وڈ کی فلموں میں نہیں ہوتے۔ اگر ہم سادہ الفاظ میں کہیں تو کولی وڈ کی فلمیں بولی وڈ کی نسبت زیادہ با حیا ہوتی ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تامل ایک قدیم علاقہ ہے اور تامل زبان دنیا کی سب سے قدیم ترین زبان ہے جس کی عمر دو ہزار سال سے بھی زیادہ ہے۔ اس وجہ سے ہمارا میوزک، ڈانس اور اداکاری، بولی وڈ سے کہیں بہتر ہے۔ انھوں نے مجھے ایک اور دلچسپ بات بتائی کہ بولی وڈ بہت زیادہ میک اپ پر چلتا ہے جبکہ کولی وڈ میں حقیقت پسند کردار زیادہ پیش کیے جاتے ہیں۔ میں نے تامل فلموں کے معاشرے پر اثرات کے حوالے سے جاننا چاہا تو انھوں نے بتایا کہ کولی وڈ فلموں کے معاشرے پر اتنے منفی اثرات نہیں ہیں جتنے بولی وڈ کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بولی وڈ جو کلچر پیش کرتا ہے وہ معاشرے کی اصل تصویر سے کہیں دور ہوتا ہے جبکہ کولی وڈ میں ایسا کلچر پیش کیا جاتا ہے جو معاشرے کی اصل صورت سے بہت قریب ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جنوبی ریاستوں میں ابھی تک ہمارا کلچر جو صدیوں پرانا ہے بدستور قائم ہے جبکہ بولی وڈ کی فلموں کی وجہ سے نئی نسل نے غیرملکی کلچر کو پسند کرنا اور اس کے مطابق زندہ رہنا بھی شروع کر دیا ہے۔

جب میں نے یہ بات کچھ اور لوگوں سے بھی کی تو انھوں نے بھی اس بات کی تصدیق اور کہا کہ بولی وڈ اور کولی وڈ میں یہی بنیادی فرق ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔ البتہ میں ایک گواہی ضرور دے سکتا ہوں کہ بھارت کا جنوب اب تک اپنے کلچر سے جڑا ہوا ہے جبکہ شمال میں رہنے والے لوگوں نے اپنے کلچر سے دوری اختیار کر لی ہے۔

انبوہ صاحب نے بڑے شوق سے اے آر رحمن کا ذکر کیا جو اس وقت موسیقی کی دنیا میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ وہ ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں وہ مسلمان ہوئے۔ انھیں بھارت کا تیسرا بڑا سول ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔ ان کا اصل نام اللہ رکھا رحمان ہے اور وہ چنائی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ان کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے ان کی والدہ نے انھیں بہت ہی مشکل حالات میں پالا۔

اس وقت وہ بھارتی فلم انڈسٹری کے ایک بہت ہی مایہ ناز موسیقار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گانا بھی گاتے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ پاکستان بھی آئے تھے اور انھوں نے نصرت فتح علی خان صاحب کے ساتھ مل کر ایک گانا بھی ریکارڈ کروایا تھا۔ اے آر رحمن ہمارے نصرت فتح علی خان سے بہت متاثر تھے اور انھیں اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔ اسے Gurus of Peace کہا جاتا ہے۔ میں نے بھی اس نظم کو سنا ہے۔ مجھے موسیقی کے فن کے بارے میں تو کچھ زیادہ علم نہیں لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ گانا اپنے اندر کسی بھی شخص کو متاثر کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments