اقبال بھی اقبال سے


ایک روز بیٹھے، بیٹھے عالم محویت میں چلا گیا، کہ اچانک احساس ہوا کہ حضرت اقبالؒ میرے بالکل سامنے ہیں میں نے دیکھا کہ وہ سفید کپڑوں اور کالے کوٹ میں ملبوس نہایت پرکشش لگ رہے تھے، حسن اتفاق سے میں نے بھی سفید لباس پہننا ہوا تھا، میرے لباس کو دیکھتے ہی مسکرا کر کہا، تمھارے سفید لباس کی پاکیزگی کا اکثر ذکر رہتا ہے زاغ و زغن کی ناپاک ”چونچوں“ کو خاطر میں نہ لایا کرو، میں نے کہا کہ یہ آپ کی عنایت اور ذرہ نوازی ہے،

میں نے استفسار کیا حضور والا! یہ آپ نے کیا قسم کھا کر ان کے سامنے یہ اتنی بڑی بات کہہ دی کہ:
نہ با ملا نہ با صوفی نشینم
تو می دانی کہ من آنم، نہ اینم
نویس ”اللہ“ بر لوح دل من
کہ ہم خود را ہم او رافاش بینم
یا رسول ﷺ، میں نہ ملا کی محفل میں بیٹھتا ہوں اور نہ صوفی کی خانقاہ پر بیٹھتا ہوں،
آپ تو جانتے ہیں کہ میرا تعلق نہ ملا سے ہے اور نہ صوفی سے ہے، میرے آقا آپ خود

میرے دل کی تختی پر لفظ ”اللہ“ لکھ دیں۔ تاکہ میں خود کو بھی اور اس (اللہ تعالیٰ) کو بھی بغیر حجاب کے دیکھ سکوں۔

حالانکہ میں خود آپ کو صوفی و ملا کے قریب سمجھتا رہا۔

اقبالؒ نے کہا:کملے اگر صوفی و ملا کی بارگاہ میں تلاش کرو گے تو ”خودی“ کا جام کہاں سے پیو گے، ساری زندگی صحراء میں تشنہ بھٹکتے رہو گے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

میں نے کہا سچ پوچھیں تو مجھے آپ کی سمجھ نہیں آتی اور نہ ہی خود ساختہ اقبال شناس اور نہ ہی آپ کے عشاق مجھے سمجھا سکے آپ تھوڑا سا مجھے اپنے بارے میں بتا تو دیں۔

اس پر اقبالؒ مسکرا کر فرمانے لگے

میں تمہیں آج ایک مولوی صاحب کی کہانی سناتا ہوں۔ میں یہ کہانی پہلے بھی کئی لوگوں کو سنا چکا ہوں، شاید تم نے بھی سنی ہو لیکن مجھ سے سنتے ہوئے لطف آئے گا۔ میرا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ میں محض اپنی خود نمائی کروں بلکہ کچھ ایسے حقائق ہیں جن کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔

جن مولوی صاحب کا ذکر کر رہا ہوں ان کے بارے میں یہی شہرت تھی کہ وہ تصوف کے فلسفہ سے پوری طرح آگاہ ہیں اس وجہ سے ہر چھوٹا بڑا موصوف کا بہت احترام کرتا تھا۔

ان مولوی صاحب کا عقیدہ یہ تھا کہ تصوف کے فلسفے میں شریعت اس طرح پوشیدہ ہے جیسے کہ الفاظ میں معانی چھپے ہوئے ہیں۔

ان کا دل بھی کہا جاتا ہے کہ زہد سے لبریز تھا یوں بھی وہ خود بہت حیر و عاقل تصور کرتے تھے اور کسی دوسرے کو خاطر میں بھی نہیں لاتے تھے۔ اپنی کرامات کا خود سے بہت چرچا کرتے تھے۔ ان کے اس رویے کا بنیادی مقصد فی الواقع اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ اپنے مریدوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ یہ مولوی صاحب عرصہ دراز سے میری پڑوس میں رہتے تھے۔ میں تو خیر رند ہی تھا لیکن زہد کے ان دعویدار سے پڑوسی ہونے کے ناتے میری پرانی واقفیت تھی۔ ایک روز انھوں نے میری بجائے میرے ایک واقف کار سے پوچھا کہ یہ شخص اقبال جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلند پایہ شاعر ہے۔

گو کہ اس کی شاعری ابوطالب کلیم کی طرح رشک آمیز ہے ذرا یہ تو بتاؤ احکام شرعی کا بھی پابند ہے یا نہیں

اس کے متعلق سنا ہے کہ ہندو کو کافر نہیں کہتا اس نوع کا عقیدہ تو محض ایسے شخص کا ہو سکتا ہے جو صرف فلسفے پر یقین رکھتا ہو۔

اس کے علاوہ یہ بھی مشہور ہے کہ اقبال کی فطرت میں شیعت کے عقیدے کا بھی کچھ عمل دخل ہے۔ اس لیے اس جے دل میں حب حضرت علیؓ بھی ہے۔

وہ راگ رنگ کو بھی زندگی کا ایک حصہ خیال کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو طواءفیت کو بھی برا نہیں کہتا۔ مگر محض اقبال سے ہی یہ شکایت نہ ہونی چاہیے اس لیے کہ ہمیشہ سے ہمارے شعراء کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ حقیقت حال سمجھ میں نہ آنا وہ یہی تو کرتے ہیں کہ رات کو گانے سے محظوظ ہونا اور صبح دم قرآن کریم کی تلاوت کرنا! یہ صورت حال بحر حال ایک ایسا راز ہے جس کی تعبیر سے کم از کم ہم ابھی تک آگاہ نہیں ہیں۔

اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے مریدوں سے یہ بھی سنا ہے وہ عالم شباب میں بھی بے داغ کردار کا مالک ہے۔

مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبال تضادات کا مجموعہ ہے یعنی اس کا دل تو حکمت و دانش کا خزینہ ہے جب کہ طبیعت میں قدرے جنون کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔

اقبال تو رندی سے بھی آگاہ ہے اور شریعت سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہے اگر اس سے تصوف کے بارے میں پوچھو تو منصور حلاج کا ثانی لگتا ہے۔

مولوی صاحب استفسارات کو جاری رکھتے ہوئے کہتے رہے کہ مجھ پر اس شخص کی حقیقت واضح نہیں ہوتی کیا وہ کسی نئے فرقے کا بانی تو نہیں ہے۔

مختصر یہ کہ مولوی صاحب نے اپنے وعظ کو بہت طول دیا اور ان کی لمبی چوڑی تقریر کافی دیر تک جاری رہی۔ چونکہ اس شہر میں کوئی بات چھپی نہیں رہتی اس لیے مولوی صاحب کے ارشادات کا ہر طرف جو چرچا ہوا اس کی داستان مجھ تک بھی پہنچی۔ ایک روز مولوی صاحب سر راہ اچانک مل گئے تو آپس میں وہی پرانی بات چھڑ گئی۔

وہ باتیں جو تم تک پہنچیں دراصل وہ تو محبت کے سبب کہی گئیں تھیں۔ میرا مقصد تو تمہیں محض شریعت کی راہ سے آگاہ کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اس مرحلے پر میں نے جواباً کہا کہ پڑوسی ہونے کے ناتے آپ نے جو کچھ فرمایا وہ یقیناً آپ کا حق تھا مجھے اس پر کوئی گلہ اور شکایت نہیں۔

مولانا! میں تو آپ کا نیاز مند ہوں۔ ویسے بھی آپ میرے بزرگ ہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ اگر آپ میری حقیقت سے آگاہ نہیں تو اس پر حیران ہونے والی کوئی بات نہیں بھی نہیں اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی دانش کا عمل دخل ہے۔

اس لیے کہ میں تو خود بھی اپنی حقیقت سے واقفیت نہیں رکھتا میرے خیالات میں جو گہرائی ہے اس کا علم تو مجھے بھی نہیں میری بھی یہی خواہش ہے کہ اقبال کو خود بھی دیکھوں۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیا شے ہوں۔ واللہ میں خود اپنی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوں اور اس معاملے میں کسی طرح کا بھی مذاق نہیں کر رہا ہوں۔

اقبالؒ کی یہ باتیں سننے کے بعد میری آواز بھرا گئی میں نے اقبالؒ سے پھر سوال کیا:
ایک بات پوچھوں۔
کہا : ”ہاں پوچھو“
تو پھر یہ جو اقبالؒ شناسی کے دعویدار ہیں، یہ کیا ہیں؟
زور کا قہقہہ لگاتے ہوئے
ان میں سے تو کئی ایسے ہیں جنہیں اپنی خبر نہیں۔
میں نے پھر کہا:

آپ کو پتہ ہے میں پچھلے دنوں آپ کے مزار پر گیا تھا، ”ذوق و شوق“ کا آخری بند بھی اونچی آواز میں پڑھا تھا۔

اقبالؒ: ”ہاں معلوم ہے“
اقبالؒ ”ہاں مجھے معلوم ہے، مگر تم اپنا کام جاری رکھنا
جو آج سے چوبیس سال پہلے تمھارے ذمے لگایا تھا، دوسرا

میرے ساتھ دوستی قائم رکھنا کہیں دوسرے کی طرح میرا عاشق نہ بن جانا، میں نے کہا وہ کیوں؟ اتنے عاشق تو عشق کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں، کہا عاشقی میں بہت سی چیزیں نہاں ہو جاتی ہیں عقیدت کی کینچی حقائق کو کتر دیتی ہے اور دوستی میں بہت سے باتیں عیاں ہو جاتی ہیں، بس تم کبھی

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ کرنا

ان تمام چیزوں سے بالا تر ہو کر سوچنا اور وہ تمھارے زمانے کا ہی ایک شاعر ہے نا اس کا یہ شعر تو تم پلے باندھ لو:

میرے جیسا کوئی بنیاد میں کام آتا ہے
گھر کی تختی پہ کسی اور کا نام آتا ہے۔
میں نے کہا مجھے کوئی ایسا کام بتائیں جس کے کرنے سے آپ کو خوشی محسوس ہو۔

کہا کوئی نہیں بس مجھے میری نام نہاد عاشقوں، پیغام سے دور رہنے والے، نت نئے القابات دینے والوں، قوالوں جمود کا شکار صوفیوں اور ملاؤں سے جان چھڑا دو، تو میرا پیغام خود بخود عام ہو جائے گا۔

میں نے کہا۔ کیسے کہنے لگے میں نے ابلیس کے ایک مشیر کی زبان سے بھی کہلوایا تھا کہ۔
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ ’قوالی‘ سے کچھ کم تر نہیں ’علم کلام‘ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments