مقبول ترین انا پرست لیڈر


میں میں بس میں کی گردان کرنے والا لیڈر آج کل پاکستان کا مقبول ترین لیڈر ہے جس کو لاکھوں لوگوں پسند کرنے والے ہیں، اور اپنے لیڈر کی کہی ہوئی بات پر ایمان لے آتے ہیں۔ ان کا لیڈر جذباتی ہے اور پاکستانی کی بڑی تعداد بھی جذباتی ہے اسی وجہ سے جذباتی باتوں کو فوری طور پر پسند کیا جاتا ہے اور اسے سچ مان کر آگے بڑھادیا جاتا ہے۔

لیڈر ہر تقریر میں اپنی تعریف کرنے کو واجب اور مخالف کو گالی دینا ضروری سمجھتا ہے۔ لیڈر جن کے بل بوتے پر طاقت میں آیا انھیں اب جانور کہنا شروع کر دیا ہے اور گالیاں بھی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمارا ساتھ دو اور نیوٹرل نہ رہو۔ لیڈر جھوٹا بیانیہ بنانے میں ماہر ہے اور اور اس پر ڈھٹائی کے ساتھ کھڑا رہنا اس لیڈر کا کمال فن ہے۔

لیڈر امریکا امریکا للکارتا ہے مگر مدد بھی وہی کے لوگوں سے لیتا ہے، اسی طرح جن لوگوں کو دن کی روشنی میں للکارتا ہے رات کی تاریکی میں انھی سے ڈیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسلامی اصولوں کے خلاف بہت سے کام کرتا ہے مگر اپنی سیاست بیچنے کے لئے دین اسلام کا نام استعمال کرتا ہے۔

اس لیڈر کے مقلدین سب سے زیادہ گالیاں دینے والوں میں شامل ہیں اور یہ ہی نہیں اس لیڈر کی مقلدین دنیا کے کونے کونے میں طوفان بدتمیزی برپا کر کے رکھتے ہیں۔ نہ وہ مقدس زمین کا لحاظ رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کا، ہر جگہ اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کی خاطر شور و غوغا بلند کرتے ہیں اور فساد برپا کرتے ہیں۔

انا پسندی کی بلندیوں پر فائز یہ لیڈر بنیادی اخلاقی اور انسانی حقوق سے نا بلد نظر آتا ہے اور اکثر اوقات کمال ڈھٹائی کے ساتھ اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ حال ہی میں ایک صحافی جو اس لیڈر کے نزدیک سب سے سچا صحافی تھا اور ان کے بیانیہ کی وجہ سے ہی اسے شہید کیا گیا تھا اس کے جنازے میں شریک نہ ہوا، یہ ہی نہیں پارٹی کے دیرینہ کارکن کے جنازے میں بھی شرکت نہ کی۔

اسی طرح ماضی میں اس لیڈر نے سنگ دلی کا کمال مظاہرہ کیا تھا کہ جب کوئٹہ کے شہداء کے وارث انھیں آواز دے رہے تھے مگر یہ نہ پہنچا اور الٹا نہیں بلیک میلر کہہ دیا۔ سنگ دلی کا مظاہرہ جاری رہا اور پشاور میں بہت بڑا دھماکہ ہوا مگر اس لیڈر کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ شہداء کے وارثوں کے پاس تعزیت کے لئے پہنچا جائے۔

یہ لیڈر دن با دن دن خطرناک ہوتا رہا اور اس کا اقرار بارہا اپنے منہ سے بھی کرتا رہا۔ لیکن اس بار لیڈر سچ کہہ رہا تھا۔ اس لیڈر کو نشہ لگ گیا، اقتدار کا نشہ اور جب اقتدار اس سے چھین گیا تو یہ جذباتی ہو گیا اور پھر خطرناک لیڈر کا خطرناک انداز بڑھتا گیا۔ اقتدار ہاتھ سے چھوٹا تو اخلاقیات کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ بیٹھا۔

یہ لیڈر وہ باتیں کرنے لگا جس کا نقصان حکومت کو نہیں بلکہ ریاست کو ہونے لگا، لیڈر کہتا رہا یہ ملک سری لنکا بننے والا ہے، فیٹف کی کامیابی کو ناکام کرنے لگا، جوہری ہتھیار پر سوال اٹھایا گیا، شہداء وطن کے خلاف غلط زبان استعمال کی گئی، دوسرے ملکوں سے سفارتی تعلقات تباہ کیے گئے، ریاست کے مضبوط ستون کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی اور ان سب کے پیچھے مقصد تھا کہ کسی بھی طرح دوبارہ وزیراعظم بن جایا جائے اور اس کے لئے یہ خطرناک حربہ استعمال کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ آپ مقبول لیڈر ہو، آپ کے پاس عوامی طاقت بھی ہے، اپ کو اس ملک میں رہنا ہے، الیکشن بھی اگلے سال ہونے ہی ہے، اور اگر آپ کی اپنی مقبولیت کو کسی طرح سنبھال لیں تو مستقبل میں آپ دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں۔ لیکن لیڈ رکو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی اور وہ انتہائی بے چین و بے قرار ہے اور یہ ہی بے چینی اسے ریاست کے خلاف شور کروا رہی ہے۔ اس لیڈر کو اندازہ نہیں ہو رہا اور یہ ”میں“ کے نشے میں اس قدر کھو چکا ہے کہ اندازہ نہیں لگا پا رہا ہے کہ میں ریاست کے خلاف کھڑ اہو چکا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments