دیار غیر میں ارشد شریف کا قتل اور ماریوں کے منہ پر چڑھے ہوئے نقاب


شہید ارشد شریف کے قتل پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ارشد شریف کی جان کے دشمن بنے ہوئے لوگ افریقہ کے ملک کینیا تک بھی ان کا پیچھا کرتے ہوئے جائیں گے۔ بہرحال ارشد شریف کے ساتھ وہ ہی ہوا جو اس ملک میں سچی بات کرنے والوں کے ساتھ ازل سے ہوتا ہوا آ رہا ہے۔ اس ملک میں کسی طاقتور کے جھوٹ اور چوری یا بدعنوانی کا پردہ چاک کرنے کا مطلب اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بات شاید ارشد شریف کو بھی پتہ تھی لیکن وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنا فریضہ ادا کر رہا تھا۔ مجھے ارشد شریف کے مزاحمتی کردار کے تسلسل پر سندھ کے عظیم فکری اور روحانی رہبر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ایک نظم کے یہ جملے یاد آتے ہیں۔

لوڪ لھوارو وھی
تون اوچو وہ اوڀار
ترجمہ؛ پورا سماج نچلی سمت بہے تو تم اونچی طرف چلو ان سب کی ضد میں۔ مطلب ہوا کی مخالف سمت میں چلو۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ارشد شریف کے قتل کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا مل پائے گی؟

بصد افسوس ہمارے ملک میں نظام انصاف انتہائی گلا سڑا اور مایوس کن ہے۔ تاریخ اتنی تلخ ہے کہ اسے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید یہ کمیشن ارشد شریف کے قتل کو چھپانے کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں طاقتور اور کمزور کے لیے قانون کا معیار ہمیشہ سے امتیازی رہا ہے۔ کمزور خود کو قانون کے مطابق چلانے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ اسے خوف ہوتا ہے قانون کی گرفت کا۔ جبکہ طاقتور اپنی طاقت کے دائرے کے مطابق طے کرتا ہے کہ قانون کو کس طرح سے اپنے تابع بنا کر چلنا ہے اور پھر وہ طاقتور گھوڑے کی تیز دوڑ کی مانند بلاخوف و خطر اپنے جائز اور ناجائز عزائم کی تکمیل اپنی قوت اور زور بازو کی بنیاد پر کرتا ہے کیوں کہ اس ملک میں طاقتور طبقات کو سزا ملنا تو دور کی بات ہے انہیں بے نقاب تک نہیں کیا جاتا۔

ان کی عصمت بچانے کے لیے پردہ داری کی جاتی ہے۔ انکوائریز میں اگر کسی طاقتور کا ہاتھ کسی جرم میں ثابت بھی ہو جائے تو وہ رپورٹ سرے سے غائب ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے ذمہ داران کا آج تک تعین نہیں کیا جا سکا۔ سندھ کے شہید صحافیوں عزیز میمن، اجے لالوانی، امیر بخش بروہی سمیت دیگر صحافیوں کے قاتلوں کو آج تک سزا نہیں دی گئی کیوں کہ قاتل اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ حامد میر پر حملہ، وارث رضا، مطیع اللہ جان اور اسد طور کی جبری گمشدگیوں سمیت ماضی میں اس طرح کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ جن کے حوالے سے آج تک کوئی رپورٹ تک سامنے نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ارشد شریف کی والدہ حکومتی تحقیقاتی کمیشن کو مسترد کر چکی ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سمیت تمام صحافتی تنظیمیں ارشد شریف کے قتل کی عالمی سطح پر تحقیقات کرانے اور کمیشن میں پی ایف یو جے کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی رہنما لالہ اسد پٹھان نے ارشد شریف کی شہادت کے پہلے دن ایک بیان میں کہا تھا کہ حکمرانو اس خون ناحق کا جواب دو۔ ‏تم ہی نے ملک بھر میں ارشد شریف پر غداری کے مقدمات درج کیے جس کی وجہ سے اسے ملک چھوڑنا پڑا۔

ارشد شریف کے قتل کی اعلی سطحی تحقیقاتی کمیشن اقوام متحدہ آئی ایف جے اور پی ایف یو جے کے نمائندوں پر قائم ہونا چاہیے۔ ورنہ تم ہی قاتل ہو۔ یہ پی ایف یو جے کے ایک سینئر مرکزی رہنما کا موقف ہے۔ اب حکومتی تحقیقاتی کمیشن پر ورثاء سمیت کسی بھی صحافتی تنظیم کو اعتبار اس لیے نہیں ہے کہ حکومت وقت کا اپنا کردار مشکوک اور مرمت کے مستحق ہے۔

ارشد شریف کے قتل کے درد بھرے سانحہ کے پس منظر میں کچھ اہم سوالات بنتے ہیں جو جواب طلب ہیں۔ ارشد شریف کے لیے ملک بھر کی زمین تنگ کرنے والے کون تھے؟ وہ کون تھے جنہوں نے ارشد شریف کے خلاف ملک سے بغاوت اور انسداد دہشتگردی جیسے سنگین نوعیت کے مقدمات سمیت 16 سے زائد مقدمات درج کرائے؟ وہ کون تھے جنہوں نے ارشد شریف کے لیے پاکستان بھر میں جینا محال کر دیا؟ وہ کون تھے جنہوں نے پاکستان کے بعد ارشد شریف کے لیے دبئی میں بھی دھرتی تنگ کر دی اور دبئی حکومت کے اوپر دباؤ ڈالا گیا کہ ارشد شریف کو ڈی پورٹ کیا جائے بالآخر ارشد شریف کو دبئی بھی چھوڑنا پڑا؟

بدقسمتی سے ساتھ جن لوگوں کو ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے وہ فضول قسم کی باتیں کر کے قوم کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو سب سے پہلے خود کو بطور جوابدہ پوری قوم اور صحافی برادری کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور جواب دینا چاہیے کہ انہوں نے ارشد شریف کے خلاف اتنے مقدمات درج کیے کہ اسے ملک چھوڑنا پڑا تو اب کیونکر حکومتی انکوائری کمیشنز سے انصاف کی امید رکھی جائے؟ وزیر اعظم کے سوشل میڈیا کے فوکل پرسن احمد جواد نے استعفی دینے کے بعد کہا کہ ایک سچ کو کفن پہنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ وہ اس گناہ میں شامل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے وزیراعظم سے بھی اس گناہ میں شامل نہ ہونے کی اپیل کی ہے

دوسری جانب مریم نواز نے جو ارشد شریف کی جسد خاکی کے حوالے سے ری ٹویٹ کیا اسے کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ حکمران پارٹی کی مرکزی نائب صدر مریم نواز ارشد شریف کی بہیمانہ شہادت پر ہمدردی کے دو بول تو نہ بول سکی پر ارشد شریف کی میت بھی موصوفہ کے زبانی شر سے محفوظ نہ رہ پائی۔ جس پر بعد میں انہیں معذرت کرنی پڑی۔ ارشد شریف کی شہادت سے پہلے اور اس کے بعد حکمرانوں کے اپنے جارحانہ رویے ہی ہیں جنہوں نے ان کے کردار کو مشکوک اور ناقابل اعتبار بنا دیا ہے۔

ملک بھر کی صحافی برادری ارشد شریف کے قتل کے بعد خود کو مکمل طور پر غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ارشد شریف قتل پر بنائے جانے والے کمیشن ماضی کے کمیشنز کی طرح بے سود ثابت ہوں گے یا اس دفعہ ماریوں کے منہ سے نقاب اٹھائے جائیں گے؟ تمام قلمکار اس فکر میں مبتلا ہیں کہ کیا ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا؟

22 کروڑ لوگ اور پاکستان کے ہزاروں صحافیوں کی نظریں ارشد شریف قتل کی تحقیقات پر اس آس کے ساتھ مرکوز ہیں کہ راہ وفا کے اس شہید کے قاتلوں کو چھپایا نہیں جائے گا اور اس واقعے پر بننے والی کسی بھی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ ماضی کے انکوائری کمیشن رپورٹس کی طرح سینکڑوں بوسیدہ پرانی فائلوں تلے دب کر قصہ پارینہ نہیں بنے گی۔

اور آخر میں احمد فراز صاحب کی یہ نظم ان قوتوں کے نام جو صدیوں سے سچ کی صداؤں کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔
احمد فراز نے کیا خوب کہا تھا

مت قتل کرو آوازوں کو
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو

ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے

جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا
جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments