سوشل میڈیا پر خواتین کے خلاف ٹرینڈ، ایف آئی اے تحقیق شروع


سوشل میڈیا
’برقعہ نہیں پہن رہی تھی، اسی لیے کفن پہنا دیا۔‘ مشہور سوشل میڈیا سائیٹ ٹِک ٹاک پر کہیں اندھیرے میں سگریٹ جلاتے ہوئے، مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے، تو کہیں بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ ویگو گاڑی میں آتے ہوئے، کئی لڑکوں نے یہ بات ’شاعرانہ انداز’ میں شئیر کی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ پچھلے دو دنوں سے یہ کئی مرتبہ شئیر ہوچکا ہے۔ اور پچھلے دو دنوں سے کئی جگہوں پر اس پریشان کن ٹرینڈ کی مذمت بھی کی گئی ہے۔

لیکن ایسا ٹرینڈ شروع ہی کیوں کیا گیا؟

اس ٹرینڈ کو شروع کرنے کے بارے میں اب تک نہیں پتا چل سکا ہے کہ یہ کیوں شروع کیا گیا۔ لیکن حیران کن طور پر ان ویڈیوز کو کئی ہزار لوگوں نے شیئر کیا ہے۔ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے دی نیوز اخبار کی اوپ ایڈ اڈیٹر زیب النساہ برکی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں عورتوں کے خلاف نفرت آمیز مواد بڑھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ ’اور ایک خاص قسم کا بیانیہ جو خواتین کے خلاف ہے، جدت کے خلاف ہے، وہ ان پلیٹ فارمز پر مشہور ہوتا جارہا ہے۔‘

31 اکتوبر کو ٹِک ٹاک ویڈیوز کا نوٹس لیتے ہوئے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی سلمان صوفی نے ٹوئیٹر پر جاری ایک بیان میں کہا کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم وِنگ ان پریشان کن ٹِک ٹاک ویڈیوز کے خلاف ایکشن لے رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جن صفحات کی نشاندی ہوچکی ہے ان کو رپورٹ کرکے ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

ابھی حال ہی میں امریکہ میں سیاہ فام ٹِک ٹاک پر ہیش ٹیگ کے ساتھ ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں نوجوان لڑکے بتا رہے تھے کہ ’اپنی گرل فرینڈ کو کیسے پنچ مارسکتے ہیں۔‘ یہ ویڈیوز بھی بغیر کسی وجہ کے وائرل ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ جس کے بعد اسی پلیٹ فارم پر ان ویڈیوز کے خلاف شکایات سامنے آنے پر یہ اچانک غائب ہوگئیں۔

زیب النسا نے کہا کہ ’آپ یہ بھی سمجھیں کہ اس وقت سب سے زیادہ آسان ٹارگٹ کون ہے؟ خواتین۔ جن کے جسم پر آپ باسانی حق جتا سکتے ہیں، انھیں خاص قسم کے کپڑے پہننے یا نہ پہننے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اور افسوس کے ساتھ عورتوں کے خلاف تشدد اب عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ تشدد کی شروعات اس قسم کی باتوں کے عام ہونے سے ہوتی ہیں۔ جس کا ذکر ان ٹِک ٹاک ویڈیوز میں کیا جارہا ہے۔‘

انٹرنیٹ کی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے کہا کہ ’یہ ٹرینڈ شاعری کے انداز میں شروع کیا گیا جس کے بعد باقی لوگوں نے بھی اسے اپناتے ہوئے ویڈیوز بنائیں۔‘

tiktok

انھوں نے کہا کہ ’یہ ہمارا سماجی مسئلہ ہے جہاں خواتین کی عزت زیادہ نہیں کی جاتی۔ اگر ہم اپنے اطراف میں دیکھیں تو اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے جو خواتین کو برقعہ پہننے پر مجبور کررہے ہیں۔ ایران میں خواتین احتجاج کررہی ہیں کہ انھیں حجاب نہیں پہننا۔ اس تناظر میں ایسی ویڈیوز یا ٹرینڈ بننا حیران کن نہیں لیکن پریشان کن ضرور ہیں۔‘

حکومت کی جانب سے ٹِک ٹاک صفحات سسپنڈ

31 اکتوبر کو ٹِک ٹاک ویڈیوز کا نوٹس لیتے ہوئے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی سلمان صوفی نے ٹوئیٹر پر جاری ایک بیان میں کہا کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم وِنگ ان پریشان کن ٹِک ٹاک ویڈیوز کے خلاف ایکشن لے رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جن صفحات کی نشاندی ہوچکی ہے ان کو رپورٹ کرکے ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

ساتھ ہی ایک سپیشل ٹیم بنائی جائے گی جو اس قسم کے ٹرینڈز کو مانیٹر کرے گی۔ لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس مانیٹرنگ ٹیم  میں کون ہوگا۔ اور سلمان صوفی سے رابطہ بھی نہیں ہوسکا۔

 وزیرِ اعظم آفس کی جانب سے اس معاملے کا نوٹس لینے اور اس قسم کے صفحات کو ٹِک ٹاک سے ہٹانے کو زیاد تر لوگوں نے سراہا ہے۔ اسامہ خلجی نے کہا کہ ’یہ ایک اچھا قدم اس لیےبھی ہے کہ اس سے پچھلی  حکومت میں دیکھا گیا کہ خواتین کے بارے میں خود سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے متنازعہ بیانات دیے ہیں۔ اور حال ہی میں صحافی غریدہ فاروقی کے بارے میں بھی ان کا ایک پریشان کن بیان سامنے آیا ہے۔ تو ہمیں سراہنا چاہیے اگر موجودہ حکومت خواتین کے لیے بنے قوانین پر سنجیدگی دکھا رہی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے:

’مجھے آن لائن ریپ اور قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں۔۔۔ مگر یہ سب روکا کیوں نہیں جا سکتا؟‘

غیر محفوظ سوشل میڈیا اور نو عمر صارفین: ’میرا بیٹا ایک خفیہ دنیا میں مختلف حملوں کی زد میں تھا‘ سوشل میڈیا پر معلومات کی افراتفری کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

https://twitter.com/SalmanSufi7/status/1586962463576162304

فیڈرل انویسٹیگییو ایجنسی

ایف آئی اے کن قوانین کے تحت کارروائی کرے گی؟

اکثر ایف آئی اے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اس ادارے میں اپنی شکایات کم و بیش ہی لے کر جاتے ہیں۔ ایف آئی اے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ’ٹِک ٹاک کی ان ویڈیوز پر پیکا قانون کا سیکشن 9 لگے گا۔ اس سیکشن کے تحت کسی جرم کو بڑھا چڑھا کر تعریفی انداز میں بیان کرنا غلط ہے جس کے تحت سزا ہوسکتی ہے۔‘ ترجمان نے بتایا کہ اس وقت متنازعہ ویڈیوز ہٹا دی گئی ہیں اور ’ادارے کو ویسے بھی ٹِک ٹاک پر نظر رکھنے کو کہا گیا ہے۔‘

اسامہ نے بتایا کہ ضابطہ فوجداری (تعزیراتِ پاکستان) کے تحت بھی سیکشن لگ سکتا ہے جو اس طرح کے نفرت آمیز مواد کے خلاف لگائے جاسکتے ہیں۔

’ایسے ٹرینڈز بنانے والے اس وقت خود خواتین کے لیے خطرہ ہیں۔ اور اس وقت پاکستان کے قانون کے مطابق آپ کسی خاتون کو کسی قسم کے کپڑے پہننے یا نہ پہننے پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اور ایک بار کارروائی کرنے سے بھی ایسے کیسز نہیں رکیں گے، بلکہ اس پر ہر وقت نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments