سعودی عرب میں ”حلال ہالووین“ کا انعقاد


موجودہ صدی کو ”آئکانو کلاسٹ“ بت شکن یا روایت شکن کہنا زیادہ موزوں لگتا ہے بہت سے نظریاتی بت جو پختہ عقیدے کے سانچے میں ڈھل چکے تھے وہ آہستہ آہستہ ٹوٹتے چلے جا رہے ہیں، اب اسے شعوری پختگی کہیں یا مزاحمت یا حالات کا جبر سمجھیں کہ جو کچھ بھی مذہبی تصورات کے نام پر عقیدہ کی صورت میں ہم سنتے یا مانتے آئے ہیں ان سب تصورات کی نفی ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا روحانی و دینی مرکز جہاں کروڑوں لوگ حج و عمرہ کی صورت میں تزکیہ نفس کے لئے حاضری دیتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں، جس سرزمین کے متعلق اہل ایمان کا یہ پختہ یقین رہا ہے کہ وہاں پر کسی بھی قسم کی بے ہودگی نہیں ہو سکتی مثلاً شراب اور جوئے کے اڈے، رقص و سرور کی محفلیں یا غیر مسلموں کے تہوار منانے جیسی خرافات اس سرزمین خاص کا حصہ نہیں بن سکتیں مگر آج یہ سب کچھ بڑی شان و شوکت سے وہاں ہو رہا ہے۔

آخر کب تک آپ دوسروں پر پہرہ دے سکتے ہیں یا دوسروں کی زندگیوں میں تانک جھانک کر سکتے ہیں؟ ایک وقت آتا ہے جب جبر ریت کی دیوار ثابت ہونے لگتا ہے اور لوگ آزادیاں مانگنے لگتے ہیں۔ ایران میں جبر کا نتیجہ بھی آج ہمارے سامنے ہے کہ کیسے جبر کے سایہ میں سسکتی خواتین حجاب اتار کر سڑکوں پر صدائے آ زادی بلند کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ ہالووین ایک مسیحی تہوار ہے جسے 31 اکتوبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن گلی کوچوں، مارکیٹوں اور دیگر مقامات پر ڈراؤنے چہرے اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں، گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو دکھائی دیتے ہیں جن پر ہیبت ناک قسم کی شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں، زیادہ تر گھروں کے باہر ڈراؤنے ڈھانچے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

اس تہوار کا مقصد اپنے پیاروں کی روحوں کا استقبال کرنا ہوتا ہے اور ڈراؤنے ماسک لگانے کا مقصد بد روحوں کو ڈرانے کا ایک طرح سے بندوبست ہوتا ہے۔ دراصل یہ کوئی بھوت پریت نہیں ہوتے بلکہ بڑے اور بچے ڈراؤنے ماسک پہن کر بھوت بنے ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس تہوار کو بھی سعودی عرب میں بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ہے اور اہل عرب نے بھی ڈراؤنے لباس و ماسک پہن کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بھی دنیا کا حصہ بن چکے ہیں اور انسانی خوشیوں کو ایک مخصوص خانے میں بند کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہوتی۔

ہمارے جذباتی مسلمان بھائی سعودی عرب میں ”حلال“ ہالووین ڈے منانے پر انتہائی غصے میں ہیں اور سعودی حکومت کو کوسنے دینے کے ساتھ ساتھ اس قسم کی خرافات کو انتہائی شرمناک عمل اور مقدس سرزمین پر انعقاد کرنے پر قیامت کی نشانیوں میں شمار فرما رہے ہیں۔ ویسے حیرت ہے کہ قرب قیامت کی ان واضح نشانیوں سے اہل عرب لاعلم و غافل کیوں ہیں؟ جب اہل عرب کو کوئی مسئلہ نہیں ہے تو ہم اتنا جذباتی کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہمارے لوگ ان سب خرافات کی جڑ ایم بی ایس کو قرار دے رہے ہیں کہ وہ اپنی حکمرانی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل ایمان کے جذبات کے ساتھ کھیل رہا ہے حالانکہ حالات قطعی طور پر مختلف ہیں، ہزاروں سالوں پر مشتمل جبری بندشوں کے نتائج دیکھنے کے بعد بالآخر انہیں یہ احساس ہوا کہ مخصوص فریم آف مائنڈ کے ساتھ ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے اگر دنیا کی تاریخ میں خود کو زندہ رکھنا ہے تو دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنا پڑے گا ورنہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے چلے جائیں گے اور ایک دن وقت کے عجائب گھر میں بطور نشانی پائے جائیں گے اس سے زیادہ ہماری حقیقت نہیں رہے گی۔ اسی لیے شہزادہ سلمان نے ویژن 2030 متعارف کروایا جو ایک طرح سے ممکنات و امکانات کا چارٹر ہے ہے جس میں روایتی دائروں سے باہر نکل کر دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانے کی کافی گنجائش نکالی گئی ہے۔ مگر ہمارے سوشل میڈیا پر کچھ اس قسم کی شہ سرخیاں چل رہی ہیں

استغفراللہ سرزمین خدا پر ہالووین جیسا بدکار فیسٹیول۔

سر زمین مقدس پر قیامت کی نشانیاں ظاہر ہوتی جا رہی ہیں۔ مذہبی شعائر کا مذاق بنایا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ویسے علمائے دین خاص طور پر طارق جمیل سے پوچھنا تو بنتا ہے کہ سعودی عرب میں تو ہالووین بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ہے کیا ہمیں بھی بلا خوف منانے کی اجازت ہے؟ اور کمال ہے کسی نے سعودی عرب پر بلاسفیمی کا الزام عائد کرنے کی بھی جرآت نہیں کی؟ ویسے مقام حیرت کہیں یا عبرت کہ جو ہماری نظر میں کفار ہیں اور جہنم کا الاؤ بھی ان کے جسموں سے سلگے گا وہ ظالم دنیا کے مالک کیسے بن گئے؟ حالانکہ ہمارا تو یہ نظریہ ہے کہ قادر مطلق نے آسمان و زمین ہمارے لئے مسخر کیے ہیں اور دن رات ہماری خدمت یا نوکری کرنے میں مصروف رہتے ہیں اتنے وسائل کے مالک ہونے کے باوجود بھی ہم دن بدن تنزلی کی طرف کیوں بڑھتے چلے جا رہے ہیں؟ امریکی مریخ پر جا لپکے، اسرائیلی دنیا کی 40 فیصد ایجادات کے موجد بن گئے، روس بکھر کر بھی یکجا ہو گیا، چائنا دنیا کی مضبوط ترین معیشت بننے کے سفر پر روانہ ہو چکا ہے اور ہم جذباتی پتلے ایک دوسرے سے اچھا مسلمان بننے یا ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مناظرے کر رہے ہیں۔

ہم آج بھی انہی چکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ یہود و نصاریٰ ہمارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments