سیاسی مذاکرات کا یادگار سفر


قیام پاکستان کے بعد حالات کچھ ایسا رخ اختیار کرتے جا رہے تھے جس میں مختلف الخیال شخصیتوں اور تنظیموں کے مابین مفاہمت کو فروغ دینا ضروری ہو گیا تھا۔ یہ کام سید ابوالاعلیٰ مودودی نہایت موثر انداز میں سرانجام دے سکتے تھے، کیونکہ وہ اردو دان، انگریزی دان اور عربی دان طبقوں تک اپنی بات پہنچانے کی صلاحیت کا ایک مدت سے مظاہرہ کرتے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو استدلال کی قوت عطا کی تھی اور اذہان کو مسخر کرنے والا اسلوب نگارش بخشا تھا، وہ تعلیم یافتہ طبقے میں بے حد پسند کیا جا رہا تھا۔

پھر ان کی دستوری حکومت اور جمہوری اقدار کے استحکام کی پرامن اور بامقصد جدوجہد میں ایک نظم تھا اور اس کی پشت پر اخلاقی طاقت کارفرما تھی۔ وہ متنازعات کو ہوا دینے کے بجائے ان کا مستقل حل تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے اور دانش مندی میں ان تمام عناصر کو یکجا کر لیتے جو آئینی حکومت پر یقین رکھتے تھے۔

’سول لبرٹی یونین‘ کے قیام اور ’اکتیس علما کے بائیس نکات‘ مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی عوام کے اندر اسلامی دستور کی مہم جاری رہی جس کے نتیجے میں 1956 ء کا دستور نافذ ہوا۔ صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا اور کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خاں نے مل کر دستور منسوخ اور مارشل لا نافذ کر دیا۔ اس ہونے والے حادثے کے بارے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بہت پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ 1962 ء کے اوائل میں معروف قانون دان جناب منظور قادر نے ایوب خاں کی ہدایات کے مطابق آئین کا مسودہ تیار کیا۔

نوائے وقت کے ایڈیٹر جناب حمید نظامی اسے پڑھ کر بہت سیخ پا ہوئے اور انہوں نے ایک تقریب میں دستوری مسودے کے خالق اور اپنے دیرینہ دوست منظور قادر سے مصافحہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس آئینی ڈھانچے کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کے لیے صحافیوں کو دعوت دی۔ ان میں جناب حمید نظامی بھی چلے آئے اور مولانا کے موقف پر تندوتیز سوالات کی بوچھاڑ کرتے رہے۔ مولانا کا موقف یہ تھا کہ اس دستوری خاکے میں بڑی خامیاں ہیں۔

ہم انہیں دور کرنے کے لیے سیاسی جدوجہد کریں گے جو مارشل لا اٹھ جانے کے بعد بارآور ثابت ہو سکے گی۔ جناب حسین شہید سہروردی مولانا سے ملنے آئے اور اس نکتے پر زور دیتے رہے کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں آمر کا دستور مسترد کر دیں، تو جنرل ایوب خاں کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ مودودی صاحب نے جماعت اسلامی کا نقطۂ نظر دہرایا کہ مارشل لا کے مقابلے میں دستور کا نفاذ بہتر ثابت ہو گا کہ اس میں عوامی دباؤ سے تبدیلیاں لائی جا سکیں گی۔ سہروردی صاحب نے تفصیلی گفتگو کے بعد مولانا سے اتفاق کیا اور ان دونوں سیاسی شخصیتوں کی قیادت میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی ہم خیال جماعتوں کا ’نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘ کے نام سے اتحاد قائم ہوا۔

اس اتحاد کا پہلا اجلاس کراچی میں سہروردی صاحب کی بیٹی اختر سلیمان کے گھر پر ہوا اور اس کی منظور شدہ قرارداد پریس کو بھیجی گئی، تو نو لیڈر بغاوت کے جرم میں گرفتار کر لیے گئے۔ ان میں جماعت کے سیکرٹری جنرل میاں طفیل محمد اور کراچی کے امیر جماعت اسلامی چودھری غلام محمد بھی شامل تھے۔ دستور کے نفاذ کے بعد جو اسمبلی وجود میں آئی، اس کے پہلے اجلاس ہی میں وہ تاریخی فتح سے ہمکنار ہوئی۔ پہلی دستور ساز اسمبلی جسے گورنر جنرل غلام محمد نے توڑ ڈالا تھا، اس کے صدر مولوی تمیزالدین خان آٹھ سال بعد پھر اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔

اس وقت ریٹائرڈ چیف جسٹس محمد منیر وزیر قانون تھے جنہوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی کی برطرفی کو جائز قرار دیا تھا۔ اب وہ اسمبلی میں اسپیکر جناب تمیزالدین خاں کے زیر کمان تھے اور ان کی وقفے وقفے سے سرزنش ہو رہی تھی جس پر انہیں یہ منصب چھوڑنا پڑا۔ اس اسمبلی نے پہلے ہی اجلاس میں وہ تحریفات ختم کر دیں جو ایوب خاں نے پاکستان کے نام اور قرارداد مقاصد کے متن میں کی تھیں۔ بعد ازاں سیاسی جماعتوں کے احیا کا قانون بھی منظور ہوا اور نئے وزیر قانون جناب خورشید احمد نے اسمبلی سے بنیادی حقوق بھی بحال کرا لیے۔ اس طرح دستور کا نفاذ مفید ثابت ہوا جس کی سید ابوالاعلیٰ مودودی پہلے ہی نوید دے رہے تھے۔

جنرل ایوب خاں کی حکومت نے جنوری 1964 ء میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا اور سید مودودی سمیت مجلس شوریٰ کے تمام ارکان گرفتار کر لیے گئے۔ اسی سال صدارتی انتخاب کا سخت مرحلہ درپیش آنے والا تھا، چنانچہ ایوب کی آمریت کے مقابلے اور محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے لیے ’کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز‘ (کوپ) کے نام سے تیسرا اتحاد وجود میں آیا۔ جماعت اسلامی بھی بحالی کے بعد اس میں شامل ہو گئی۔ انتخاب میں بے محابا سرکاری اثر و رسوخ کے استعمال سے ایوب خاں جیت گئے، مگر ملک میں شدید سیاسی بے چینی پھیلتی گئی۔ اسے مثبت رخ دینے کے لیے 27 ؍اپریل 1967 ء کو ڈھاکہ میں ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ (PDM) قائم ہوئی جو ڈیڑھ سال میں طوفان کی شکل اختیار کر گئی۔

نئے تقاضوں کے مطابق اتحاد میں توسیع کی گئی جو مسٹر بھٹو اور مولانا بھاشانی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھا۔ اس اتحاد کا نام ’ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی‘ (ڈیک) تجویز ہوا۔ اس کے دو بنیادی مطالبات تھے۔ ایک صدارتی نظام کے بجائے پارلیمانی نظام اختیار کیا جائے اور دوسرا انتخابات بنیادی جمہوریتوں کے بجائے بالغ رائے دہی کے اصول پر کروائے جائیں۔ ایوب خاں نے مذاکرات کے لیے گول میز کانفرنس بلائی۔ اسے کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کی مولانا مودودی نے بھرپور کوشش کی۔

انہوں نے لکھی ہوئی تقریر میں ایوب خاں کی ان غلط پالیسیوں کا گہرائی سے جائزہ لیا جنہوں نے پاکستان کو مسائلستان بنا دیا ہے اور اس امر پر زور دیا کہ اپوزیشن کے دو مطالبات تسلیم کر لینے سے حالات معمول پر آ سکتے ہیں۔ قائدین کی طرف سے بھی اس کی تائید ہوئی۔ ایوب خاں نے بھی اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔ اپوزیشن کے مطالبات منظور کر لیے اور ایوب خاں نے منصب صدارت سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ اس طرح برابری کی سطح پر اجتماعی کوششوں سے ایوبی آمریت کا عہد ختم ہوا، مگر وہ اقتدار جنرل یحییٰ خاں کے حوالے کر گئے جنہوں نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments