اپنی ذات کے اندر اک گاؤں بسانے والا؛ رحمت منڈیا والا


یہ کہانی ایک سادہ، دوراندیش اور عام کسان کے علم و فکر کی کہانی ہے جوان کے اپنے پوتے سے بڑھ کر ایک دوست کی زبانی ہے۔ اپنے چہرے سے ٹرینر اور موٹیویشنل اسپیکر کا ماسک تھوڑی دیر کے لئے اتار کر دیکھوں تو خود اپنی ذات کے اندر ایک ادیب چھپا ملتا ہے۔ جس کی جڑیں کہیں میرے اجداد اور مٹی سے جا ملتی ہیں۔ ویسے بھی انسان کو اپنی جڑوں تک پہنچنے کے لئے بہت سارے مصنوعی نقاب اتارنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی اصل شناخت کو دھندلا سا کر دیتے ہیں۔

میری زندگی میں بہت سارے لوگوں کا ہر موڑ پر اہم کردار رہا ہے جنہوں نے میں میری صلاحیتوں کو نکھارنے اور میرے ہنر کو بہتر بنانے میں میری معاونت کی ہے۔ لیکن اگر میں اپنی ذاتی، تعلیمی اور پروفیشنل زندگی میں دیکھوں تو ایک شخصیت کا کردار نمایاں ہے، بلکہ اتنا واضح ہے کہ وہ میری ذات کی حقیقی پہچان کا اصل ذریعہ ہے۔

یہ شخصیت میرے مرحوم دادا چوہدری رحمت مسیح منڈیا والا ہیں۔ آج کے اس آرٹیکل میں ان کی زندگی پر مختصر، جبکہ میری ذات پر ان کے اثرات، برائے راست زندگی کے تجربات اور باتوں کا کس قدر اثر ہوا، سب سے بڑھ کر دادا پوتے کے انمول اور خوبصورت رشتے کی ہمارے معاشرے بلکہ نوجوان نسل کو کتنی ضرورت ہے۔ پر بات کریں گے۔

میرے دادا رحمت مسیح نادرا کے موجودہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے مطابق 1924 کو سیالکوٹ کے قریب ایک گاؤں منڈیا والا میں پیدا ہوئے۔ وہ 9 بہنوں بھائیوں میں آٹھویں نمبر پر تھے۔ خاندان چمڑے کا کاروبار کرتا تھا، میرے دادا اپنے بڑے بھائی سردار مسیح کے کارخانے میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ دادا نے ابتدائی چند جماعت سکول میں پڑھیں لیکن وہ ایک ویڈیو انٹرویو میں بتاتے ہیں کیونکہ وہ دیگر کاموں میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے اس لئے پڑھائی پر ان کی توجہ بڑی کم رہی۔

ان کی شادی سرداراں بی بی سے ہوئی جن سے خدا نے انہیں 3 بیٹے اور ایک بیٹی دی۔ 1960 کی دہائی میں میرے دادا ہمارے موجودہ گاؤں چک نمبر 270، ٹی، ڈی، اے لیہ میں آ گئے۔ جہاں انہوں نے ایک مربع زمین خریدی اور یہاں خاندان کے ساتھ مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہ فیصلہ مشکل تھا کیونکہ ابھی گاؤں مکمل طور پر آباد نہیں ہوا تھا اس لئے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ خیر وقت اور حالات نے پانسہ پلٹا اور یہ زمین سونا اگلنے لگی اور ہمارے ڈیرا خوب آباد ہوا۔

جب میں نے ہوش سنبھالا تو ہمارے گھر میں بہت خوشحالی تھی۔ ڈیرے پر بھرپور فصل، باغ، جانور، بیل کی خوبصورت جوڑی، بیل گاڑی، ٹوکا مشین، ٹیوب ویل، پیٹر انجن اور گڑ بنانے کی مشین لگائی گئی تھی۔ کھیتوں میں کام کے لئے نوکر بھی موجود تھے اور اپنی زمین کے علاوہ مزید زمین ٹھیکے پر لی گئی تھی۔ گھر پر بکریوں، مرغیوں اور مختلف طرح کے پرندوں کا غول تھا۔

پورا خاندان دادا کی سربراہی میں ایک تھا۔ دادا کھیتوں کے کام کے علاوہ گاؤں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ گاؤں بلکہ اکثر رشتے داروں اور دیگر شہروں میں اکثر ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہماری دادی کا گھر پر دادا سے زیادہ رعب اور ڈر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں دادا سے نہیں دادی ضرور ڈر لگتا تھا۔ دادا ڈانٹے ضرور تھے لیکن کبھی مارا نہیں تھا بلکہ ان کی ڈانٹ میں بھی ایک تاثیر تھی جو مارنے کی نوبت نہیں آنے دیتی تھے۔

دادا کو قدرت نے بے شمار خوبیوں، نعمتوں اور صلاحیتوں سے مالا کر رکھا تھا۔ مالی طور پر بھی وہ بہت حد آسودہ تھے، گھر میں وہ تمام بنیادی سہولیات موجودہ تھیں جو انسان کو درکار ہوتی ہیں۔ اولاد کی نعمت سے بھی خدا نے نوازا تھا، بلکہ وہ اس قدر خوش قسمت کے ان نے اپنی وفات 1 نومبر 2021 تک اپنی چوتھی نسل کو جوان ہوتے دیکھا۔

صحت کے لحاظ سے بھی وہ بہت خوش نصیب رہے۔ ہمارے خاندانی ریکارڈ اور دیگر ذرائع کے مطابق انہوں نے 102 کی عمر پائی۔ آخری وقت تک وہ بالکل تندرست تھے۔ بولنے، سننے، دیکھنے اور کھانے کی صلاحیت بھی لاجواب تھی۔ وہ آخری وقت تک عملی طور پر سرگرم رہے، بلکہ ان کی وفات سے چند دن قبل انہیں ”نوجوانوں کا سفیر“ لائف ٹائم ایوارڈ دیا گیا جس پر وہ بہت خوش تھے۔ یادداشت تو کمال کی تھی ابھی تک ان کو سب باتیں یاد تھیں کسی کے متعلق بات کریں تو اس کی پوری تاریخ سے واقف ہوتے تھے۔

مجھے یاد ہے جب میں تیسری کلاس میں پڑھتا تھا جب ہمارے ساتھ والوں نے اپنے کھیتوں میں کماد (گنا) لگایا تو میں نے ان کا ایک گنا توڑا جس پر انہوں نے مجھے ڈانٹا، میں روتا ہوا دادا کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں ہم بھی اگلے سال اپنے کھیتوں میں اپنا کماد لگائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا اگلے سال ہمارا اپنا کماد اتنا زیادہ ہوا کہ ہمیں گڑ بنانے کے لئے اپنے ڈیرے پر مشین لگانی پڑی اور جب ہمارے پڑوسی بھی اپنا کماد ہمارے ڈیرے پر گڑ بنانے کے لئے لائے تو میں نے دادا سے کہا کہ آپ انہیں منع کریں کیونکہ انہیں نے مجھے منع کیا تھا، لیکن دادا نے سمجھایا بیٹا ایسے نہیں کرتے۔

کیونکہ میں پڑھائی میں اتنا اچھا نہیں تھا میرا زیادہ رجحان کھیتی باڑی اور دیگر کاموں میں تھا۔ اس لئے میرے دادا نے میرا نام ”ماسٹر“ رکھا دیا۔ اس نام نے میری زندگی کا نقشہ بدل کر رکھا دیا۔ مجھے میرا پورا خاندان اسی نام سے جانتا تھا۔ کراچی آیا تو کئی لوگوں نے کہا تمہیں ماسٹر کا مطلب پتا ہے؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے کہا کہ جو شخص ایم اے کرتا ہے۔ اسے ماسٹر کہتے ہیں۔ میں نے پڑھائی میں بہت مار کھائی، ایم اے تک ہر کلاس میں فیل ہوا۔ ہر دفعہ فیل ہونے کے بعد جو چیز ہمت دیتی تھی کہ مجھے اپنے دادا کا دیا ہوا نام، حقیقی طور پر ماسٹر بنانا ہے۔

میری دادا کے ساتھ شروع سے ہی دوستی تھی بلکہ ایک خاص لگاؤ تھا جو دوسروں کے ساتھ کم تھا۔ میں کراچی آیا تو انہیں بہت دکھ ہوا، ان سے بات ہوتی لیکن احساس کم ہوتا رہا، 2014 سے میرا ان سے دوبارہ رشتہ بحال ہوتا گیا۔ جیسے جیسے میرا علمی شعور وسیع ہوتا گیا مجھے ان کی قدر کا احساس ہونے لگا۔ مجھے اپنی ذات میں اپنی دادا کی خوبیوں کا ادراک ہونے لگا۔ میں نے ان سے گفتگو، تبادلہ خیال اور زندگی کے بارے میں مکالمہ شروع کر دیا، ٹریننگ کے شعبہ میں آیا تو ان کی باتیں عملی زندگی میں کام آنے لگیں۔ مجھے حیرت ہوتی جس چیز کے لئے اساتذہ اور مینٹور مجھے منع کرتے دادا وہ بات کرنے کو کہتے تو میں کامیاب ہوجاتا ہے، کسی مشکل اور مسئلے میں پھنس جاتا تو دادا سے بات کرتا وہ فوراً حل کر دیتے۔ 2016 میں نے نوکری چھوڑ کر ٹریننگ اور صحافت شروع کی تو سب سے زیادہ انہوں نے میری سپورٹ کی۔

میں اگر کہوں کہ وہ میرے، میرے کام اور خیالات کے سب سے بڑھے مداح تھے تو اس میں کوئی شک نہیں۔ آہستہ آہستہ ہماری یہ دوست بہت مضبوط ہو گئی بلکہ ہماری ہر روز فون پر بات ہوتی۔ میں جب بھی کراچی سے باہر ٹریننگ کے لئے کسی شہر جاتا تو واپسی گاؤں ضرور جاتا تھا۔ میرے گاؤں آنے پر وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلتے تھے بلکہ میرے ساتھ زیادہ وقت گزارتے تھے۔ وہ اکثر اپنی زندگی، خاندان اور گاؤں کے بارے میں ایسی باتیں، واقعات اور رازوں کے بارے میں مجھے بتاتے تو میں ان سے کہتا دادا یہ بات آپ صرف مجھے ہی کیوں بتاتے ہیں؟

وہ جواب دیتے کہ کیونکہ تم ان کو سمجھتے ہو اور یہ تمہیں زندگی میں کام آئیں گے۔ دادا کی دوستی ہر قسم کے انسان سے تھی۔ وہ ہمیشہ انسان کی خاص طور پر کسی فن کار کی خصوصی عزت کرتے تھے۔ وہ مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت پر یقین رکھتے تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ان کی دوستی ہر مذہب کے انسانوں، ہر عمر اور شعبہ زندگی کے افراد سے واسطہ تھے۔

دادا کی بہت ساری خوبیوں میں مجھے دو انتہائی پسند ہیں۔ ایک کمال خوبی بات کرنے کا فن اور لوگوں کے ساتھ تعلق بنانے کا ہنر، وہ اس فن کے عظیم آرٹسٹ تھے۔ ان کے حلقہ احباب میں ڈپٹی کمشنر سے لے کر عام کسان، عورتوں سے لے کر چھوٹی بچیاں، بزرگوں سے لے کر نوجوان لڑکے، سب ان کی شخصیت سے متاثر ہوتے تھے۔ اور ہر ملنے والا ان سے اپنائیت کا اظہار کرتا ہے۔ مجھے ان کی وفات پر کئی لوگوں نے یہ بات بتائی کہ وہ بابا جی کے بہت قریبی دوست تھے۔ میں اکثر حیران رہتا وہ یہ احساس اور تعلق اتنے سارے لوگوں کے ساتھ کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔

ان کی دوسری خوابی مسائل کو حل کرنا تھا، ہمارے خاندان اور گاؤں میں کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ ہمیشہ اپنے تجربات اور حکمت کی بنیاد پر اس کے حل کے لئے ایسے اقدامات پیش کرتے تو سب حیران رہ جاتے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی شخصیت کا خاص تھا کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہتے تھے۔ کسی نے ان کے بارے میں مجھے کہا کہ وہ سیاست میں نہیں بالکل فیصلہ سازی میں ہمیشہ شامل رہے۔ دادا سے بات کر کہ کبھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں بلکہ ان سے جب بھی بات ہوتی کچھ نیا سیکھنے کو ملتا۔

وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ انسان جب تک مرتا نہیں اسے بھرپور طریقے سے جینا چاہیے۔ ان کی زندگی کے بے شمار واقعات اور سنہرے قول ہیں جنہوں نے میری زندگی بدلی۔ میں ان سب کو کتابی شکل دینے کو کوشش کر رہا ہوں۔ دادا کی یاد ان کے جانے کے بعد بہت زیادہ آتی ہے بلکہ یوں لگتا ہے کہ وہ اس جہاں سے جانے کے بعد میری روح میں رچ بس گئے ہیں۔ ہر لحمہ ان کی موجودگی کا خوش گور احساس روح کو تازہ کر دیتا ہے۔ دادا پوتے کا رشتہ ویسے ہی بڑا انمول ہوتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں زندگی میں آج اس مقام پر نہ ہوتا اگر میرے دادا نہ ہوتے۔

مجھے اپنی ذات پر اعتماد، اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا حوصلہ اور سب سے بڑھ کر اپنی عزت کرنا میرے دادا نے سکھایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسے بزرگ ہمیں معاشرے اور خاندانوں میں موجود ہوں تو نوجوان نسل رشتوں کی قدر کرنے کا عملی نمونہ حاصل کر سکے گی۔ دادا اکثر کہا کرتے تھے کہ رشتے انسان نبھاتے ہیں فرشتے نہیں۔ مجھے خوشی اس بات کہ میں نے اپنے اس انمول رشتے کی اہمیت کو اپنی زندگی میں ہی محسوس کر لیا، پھر اس کا بھرپور اظہار بھی کر لیا۔

وہ اکثر فون کرتے اور کہتے یار گاؤں چکر تو لگا جاؤ۔ میں فوراً گاؤں چلا جاتا۔ 2020 کی دسمبر کو میں کرسمس کے لئے گاؤں میں موجود تھا، وہاں انہوں نے مجھے میڈیا سے بات کرتے ہوئے لائیو سنا تو شام کو گھر میں آ کر کہنے لگے، میں نے تمہارے بارے میں بہت سنا اور ویڈیو میں دیکھتا تھا لیکن آج اپنی آنکھوں سے دیکھ میں مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اب میری روح آسانی سے رخصت ہو سکتی ہے کیونکہ میرا نام رندہ رکھنے والا کوئی موجود ہے۔

1 نومبر کو دادا کی پہلی برسی ہے، ایک سال گزر گیا اور احساس بھی نہیں ہوا۔ میری آنکھوں میں وہ منظر اب بھی تازہ ہے جب ان کے جسد خاکی کو غسل دے کر سفید کفن میں رکھا گیا تو میں نے ان کے پاؤں کو چھوا اور چہرے کو غور سے دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے وہ نہا دھو کر سوئے ہوئے ہیں، دل کیا انہیں آواز دوں کہ دادا اٹھیں آپ کا ماسٹر آیا ہے، پھر خیال آیا میرے آنے کی خوشی میں وہ کہاں سوتے تھے بلکہ دروازے پر انتظار کرتے رہتے کہ میرا ماسٹر آ رہا ہے۔

لوگوں اکثر پوچھتے ہیں کہ آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں تو میرا جواب ہوتا ہے کہ میرے الفاظ میں میرا خون شامل ہوتا ہے، میرے الفاظ میں میرے دادا کی روح شامل ہوتی ہے اور میری سوچ میں میرے دادا کی جستجو شامل ہوتی ہے، جب جب یہ میرے ساتھ ہیں میں لکھتا رہوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments