ماحولیاتی بحران کے نئے سائنسی شواہد


ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی عالمی کانفرنس سی او پی 27 اس وقت پوری دنیا میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اس کانفرنس کو سیاسی سفارتی اور معاشی لحاظ سے اہم سمجھا جا رہا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اب صرف ماحولیاتی مسائل تک محدود نہیں رہے بلکہ آب و ہوا میں برپا ہونے والی تبدیلیاں عالمی معیشت، سیاست، سفارتکاری سمیت عالمی سماج کے تمام شعبہ جات کو متاثر کر رہی ہیں۔

خاص طور پر اس سال یورپ میں قحط کی صورتحال، پاکستان سمیت کئی ممالک میں غیر معمولی سیلاب، گرمی کی شدید لہروں، دنیا بھر کے جنگلات میں لگنے والی آگ اور حیاتیاتی تنوع کے خاتمے کے سائنسی شواہد سامنے آنے کی وجہ سے میڈیا اور دنیا بھر کی حکومتیں ماحولیاتی مسائل کو یکسر نظر انداز کرنے کی روش تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔

دوسری طرف اس کانفرنس کے حوالے سے پوری دنیا کے ماحولیاتی کارکن اور سائنسدانوں کی تنظیمیں کافی عرصے سے متحرک رہی ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران مختلف عالمی اداروں کی جانب سے کئی تحقیقی رپورٹس کا اجرا کیا گیا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ماحولیاتی بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے انسانیت کے پاس موجود وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور اس بحران کی وجہ سے انسانی تہذیب تباہی کی جانب گامزن ہے

اس حوالے سے ایک اہم رپورٹ ورلڈ میٹرولاجیکل آرگنائیزیشن کی جانب سے جاری کی گئی ہے جس کے مطابق فضا میں کاربن سمیت ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی تمام گرین ہاؤس گیسز کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 2021 میں یہ مقدار سب سے زیادہ رہی ہے۔ خاص طور پر میتھین گیس کی مقدار میں تشویشناک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے ورلڈ میٹرولاجیکل آرگنائیزیشن کے سیکریٹری پیٹری تالاس کا کہنا ہے کہ فضا میں گرمی کو ٹریپ کرنے والی گیسز کی مقدار میں غیر معمولی اضافہ ثابت کرتا ہے کہ ہم غلط سمت میں سفر کر رہے ہیں

اسی طرح یو این ایف سی سی کی تازہ ترین تجزیاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت عالمی درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری تک محدود رکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی قابل اعتبار منصوبہ موجود نہیں اور 2030 تک عالمی سطح پر کیے گئے تمام وعدوں پر عملدرآمد ہو بھی جائے پھر بھی عالمی حدت میں ڈھائی ڈگری اضافے کو روکنا مشکل ہو گا۔ جبکہ اس وقت صرف ایک ڈگری اضافے کی وجہ سے پاکستان سے لے کر پورٹو ریکو تک دنیا کے کئی ممالک غیر معمولی قدرتی آفات کا سامنا کر رہے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کو ڈیڑھ سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے تصور کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں 2030 تک گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں 50 فیصد تک کمی لانا ہوگی۔ اس حوالے سے حقیقت پسند ماہرین کا ماننا ہے کہ اتنے قلیل عرصے میں عالمی معیشت میں غیر معمولی تبدیلیاں لاکر اخراج میں 50 فیصد تک کمی لانا ناممکن سی بات لگتی ہے لیکن ہمیں فوسل فیولز کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ کمی کے لیے کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ماحولیاتی بحران کی زد میں رہنے والی انسانی آبادیوں اور ماحولیاتی نظاموں کے لیے عالمی حدت میں اضافے کی شرح میں ذرہ برابر کمی بھی اہم ہے۔

اسی طرح ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے لونگ پلانیٹ 2020 کے نام سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 1970 سے لے کر 2018 تک جنگلی حیات میں 69 فیصد کمی آ چکی ہے رپورٹ کے مطابق گہرے سمندروں سے لے کر برساتی جنگلات تک خشکی اور تری کے جانوروں، پرندوں، مچھلیوں، رینگنے والے کیڑے مکوڑوں کی بڑی تعداد جنگلات کی کٹائی، انسانوں کی جانب سے قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال اور سمندری آلودگی کی وجہ سے تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے کئی سائنسدان سمجھتے ہیں کہ ہم دھرتی کی تاریخ میں عالمی سطح پر حیاتیاتی تنوع کے خاتمے کے چھٹے بڑے سانحے کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو کہ ڈائنوسارز کے خاتمے کے بعد حیاتیاتی رنگا رنگی کی تباہی کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں

ساتھ ساتھ ڈبلیو ایم او کی تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ یورپ میں درجہ حرارت میں اضافے کی شرح باقی دنیا کے مقابلے میں دگنی ہے جس کی وجہ سے خطے کو شدید گرمی کی لہروں، جنگلی آگ، اور سیلابی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اکتوبر میں ہی کاربن ڈسکلوزر پراجیکٹ نامی ادارے کی جانب سے جاری ہونے والی رپوٹ کے مطابق پوری دنیا میں ہر پانچ میں سے چار شہر گرمی کی شدید لہروں، سیلاب، قحط سالی کے خطرات سے دوچار ہیں۔

رپوٹ میں کراچی کو بھی ایسے ہی شہروں میں شمار کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اگر معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو حال ہی میں شایع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے 1990 سے لے کر اب تک عالمی معیشت کو کئی ٹرلین ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے اور اس حوالے سے سب سے زیادہ نقصان ان غریب ملکوں کا ہوا ہے جن کی آلودگی پیدا کرنے میں سب سے کم حصہ داری ہے

اگرچہ ان تازہ ترین رپورٹس اور ماضی قریب میں سامنے آنے والی بے تحاشا سائنسی تحقیق نے دھرتی کو ماحولیاتی بحران سے لاحق خطرات کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن وبائی صورتحال، معاشی بحرانوں، بڑھتی ہوئی نظریاتی تقسیم، اور جنگ و جدل کے اثرات سے نبرد آزما آج کی دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مسئلہ پالیسی ترجیحات میں اب بھی نیچے ہی نظر آ رہا ہے اور پہلی دفعہ افریقہ میں منعقد ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس سے دنیا کے ماحول دوست لوگوں کی امیدوں پر کئی سوالیہ نشانوں کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments