گولی اور گالی کا تعلق


مشرقی اقوام میں یہ ایک عام دستور ہے کہ طاقتور تھپڑ ڈنڈے یا گولی کا استعمال کرتا ہے جواب میں کمزور گالیاں اور بد دعائیں دیتا ہے کیونکہ قانون نام کی کوئی ایسی چیز تو یہاں موجود نہیں جو ظالم کے ظلم سے مظلوم کو انصاف دینا تو درکنار بچا بھی سکے۔ یہ سلسلہ انفرادی سے اجتماعی اور ذاتی سے سرکاری اداروں تک وسیع ہو گیا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کسی معاشرے میں کوئی بھی کام طویل عرصے تک جاری و ساری رہے عوام میں اسے پہچان اور قبولیت ملے یہی رواج بن جاتا ہے۔

پاکستان میں اداروں کو گالیاں دینا بھی اب رواج بن گیا ہے ۔ لیکن بد قسمتی سے اس رواج کے پیچھے دہائیوں کی غفلت ناکامیاں ظلم اور من مانیاں ہمارے اداروں کا منہ چڑا رہی ہے۔ کمیشن کرپشن اقربا پروری چوری اور کام چوری تو اب پاکستانی عوام کے لئے قابل قبول اصطلاحات بن گئی ہیں۔ اس کے ساتھ تو کسی نہ کسی شکل میں گزارہ کیا جا رہا ہے مگر جب بات جان اور عزت تک آ جائے تو پھر گزارہ کرنا ممکن نہیں رہتا، پھر دو ہی راستے بچ جاتے ہیں کمزور ہو تو گالیاں اور بد دعائیں دے کر وطن سے بھاگ جاؤ، یا خود کشی کرلو۔ ہمت ہے تو سامنے کھڑے ہو کر انقلاب لے آؤ۔

بد قسمتی سے پاکستان میں یہ رواج دہائیوں پر محیط ہے اس دوران ہزاروں لوگ بیرون ملک جاکر گالیوں اور بددعاؤں پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ لاکھوں لوگ سینیٹر اعظم سواتی کی طرح روز جیتے روز مرتے ہیں اور کسی انقلاب کی آس پر خون کے آنسو بہاتے زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔ میں یہاں محکمہ واپڈا، تعلیم صحت یا کسی دوسرے محکمے کا ذکر اس لئے نہیں کرتا ہوں کہ ان کو اپنا کردار اور کارکردگی معلوم ہے اور وہ گالیوں اور بددعاؤں کا برا بھی نہیں مناتے۔

میں آج پاکستان کے مایہ ناز اور ذمہ دار انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ وہ اب تک عوام کے گالیوں اور بد دعاؤں کے نہیں بلکہ دعاؤں اور تعریفوں کے عادی تھے۔ چند سال پہلے تک اگر دو چار فیصد لوگ انہیں برا بھلا بھی کہتے تو باقی نوے پچانوے فیصد لوگ ان کو ملک و قوم کی بقاء کے ضامن سمجھتے ہوئے ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے مگر اب صورتحال بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ اور تعریفوں کا تناسب بہت تیزی سے گھٹ کر گالیوں میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے ففتھ جنریشن وار کی تاویلیں بھی دی جا سکتی ہے مگر اس خاکسار کی دانست میں ان اداروں کو بھی اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی کارکردگی اور کردار پر فوری اور از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

جس غریب ملک میں عوام کے ٹیکس منی سے ایک درجن سے زیادہ انٹیلی جنس ادارے ملک و قوم کی حفاظت پر مامور ہو اور وہاں روزانہ درجنوں اموات کا سراغ نہ لگتا ہوں، تو لوگ بد دعائیں نہیں تو کیا دیں گے؟ جہاں ان کی موجودگی میں صحافی، سماجی کارکن اور کاروباری شخصیات اغوا اور ٹارگٹ کیے جاتے ہو۔ مگر تمام متعلقہ ادارے ملزمان کو پکڑنے ثبوت سامنے لانے کی بجائے صرف اپنی صفائی دینے میں مصروف ہو کہ ہم نے کیا ہے یا نہیں کیا ہے۔ تو لوگ گالیاں اور بد دعائیں ہی دیں گے۔

جہاں ان کی موجودگی میں سیاست دانوں، ججز، بیوروکریٹس اور صحافیوں سمیت اعلی افسران کو بے ہودہ ویڈیوز اور آڈیوز سے بلیک میل اور بدنام کیا جاتا ہو۔ اور اکثر واقعات کا کھرا انہی کی طرف جاتا ہو اور یہ خاموش تماشائی بنے ہو تو لوگ انہیں سر کا تاج نہیں بنائیں گے۔ جہاں سینکڑوں لاپتہ افراد کے ہزاروں اہل خاندان احتجاج پر مجبور ہو، عدالتیں ان متاثرین کو خالی خولی تسلیاں دینے کے سوا بے بس ہو۔ وہاں گالیوں اور بد دعاؤں کے سوا کون سے الفاظ زبان پر آسکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہیں کہ شاید ان لاپتہ افراد میں ایک محدود تعداد مجرموں یا غداروں کی بھی ہو۔ مگر ہماری عدالتوں میں تو کہا جاتا ہے کہ دس گناہ گار اگر سزا سے بچ جائے تو کوئی بات نہیں مگر ایک بے گناہ کو بھی سزا نہیں ہونی چاہیے۔ کیا ان لاپتہ بے گناہ افراد کی آہیں بلا واسطہ عرش معلا پر نہیں جائے گی۔

ہمیں معلوم ہے کہ ان اداروں کا کام ملک دشمنوں اور مجرموں کا سراغ لگانا ہے مگر بد قسمتی سے غریب کی ٹیکس منی سے تنخواہیں لینے والے ہزاروں افراد کو غیر ضروری کاموں کی رپورٹنگ پر مامور کیا گیا ہے جس میں پریس کانفرنسز، سیمینارز، ورکشاپس، جلسے جلوس جیسے بے ضرر کام شامل ہیں اور جو مقامی صحافی ویسے ہی اپنے اپنے نشریاتی اداروں کے لئے رپورٹ کرتے ہیں۔ ان کی تمام تفصیلات سوشل میڈیا سمیت ٹی وی اور اخبارات پر موجود ہوتی ہے۔

کیا ان افراد کو عوام کی حفاظت اور مفاد کے لئے اس سے زیادہ ضروری کاموں پر مامور نہیں کیا جانا چاہیے۔ جس ملک کا ذمہ دار ادارہ ایف آئی اے وزیر اعظم ہاؤس کی خفیہ گفتگو منظر عام پر آنے کے بعد ایک مہینے تک چپ کا روزہ رکھے مگر اعظم سواتی کی ویڈیو کا چار گھنٹے میں عالمی سطح کی فرانزک کا دعوی کر کے اسے فیک قرار دے۔ تو اس کے کردار پر شک کا اظہار ہی کیا جائے گا۔ اس لئے اس کالم کے ذریعے ملک کی تمام مقتدر قوتوں اور ذمہ دار اداروں سے گزارش ہے کہ خدارا، ملک کی حفاظت کے نام پر عوام کی جان و مال اور عزت سے کھیلنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ کیونکہ قانون کی عملداری کے لئے کسی بھی غیر قانونی کام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی ہے

اگر آپ کے ساتھی اس میں ملوث نہیں تو ذمہ دار افراد کو میڈیا کے سامنے لائے عدالتوں میں پیش کریں۔ کیونکہ یہی آپ سب کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھیے کہ قومی اداروں کی کامیابی کا انحصار عوامی حمایت پر ہوتا ہے جب کوئی ادارہ عوام کی حمایت اور اعتماد کی بجائے اس کی نفرت کا حقدار ٹھہر جائے تو خدانخواستہ اس کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے مہربانی کر کے گولی اور گالی کا رواج ختم کر کے عوام سے دوستی کا طریقہ اپنائیں۔ نام نہاد قومی مفاد کی بجائے عوامی مفاد کے لئے کام کریں۔ پھر دیکھئے کہ عوام آپ لوگوں کو سروں پر بٹھاتے اور ہار پہناتے ہیں کہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments