لیجنڈ آف رولا جٹ


کائنات کی وسعت تخیل کی حدود سے ماورا ہے۔ عام ذہن اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ کوانٹم فزکس کی رو سے بہت سی دنیائیں وجود رکھتی ہیں جن میں ہر طرح کے ممکنات ہیں۔ روحانیت واحد رستہ ہے جس کے ذریعے ان دنیاؤں تک رسائی ممکن ہے۔ اس درجے تک پہنچنا بہت کٹھن ریاضت کا متقاضی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس رستے کے ذریعے مختلف دنیاؤں میں سفر کر کے وہاں کی خبریں لا سکتے ہیں۔

دنیا میں خیر و شر کی کشمکش ازل سے جاری ہے اور اس کا فیصلہ قیامت کے دن تک مؤخر ہے۔ اس جنگ کا موجودہ میدان ٹیکنالوجی ہے۔ دجالی قوتوں کے پاس روحانیت کے متضاد یعنی کالے جادو کے بعد اب ٹیکنالوجی کی طاقت بھی آ چکی ہے۔ یہ ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ عام انسان کے لئے ان کا تصور بھی ممکن نہیں۔ تمہید طویل ہو چکی لیکن قصہ ایسا محیر العقول ہے کہ سیاق و سباق لازم تھا۔

پہلے کسی مضمون میں بیان کیا جا چکا ہے کہ عالمی وبا کو کیسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہوئی اور ماضی میں جا کے کیسے کپتان کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا جو روحانی اقتدار اعلٰی کی بروقت مداخلت سے ناکام بنایا گیا۔ کپتان روحانی طاقتوں کا نمائندہ ہے جو بدی کی طاقتوں کے خلاف میدان میں اتارا گیا۔ کپتان کے ذریعے ہم اس عظیم معرکہ تک پہنچیں گے جسے انسانی شعور ہرمجدون* کے نام سے جانتا ہے۔

کپتان کی جوانی خراب کرنے کی کوششیں ناکام بنائی گئیں۔ اس کے بعد کپتان کے بچپن کو نشانہ بنایا گیا۔ اس منصوبہ کو بھی خاک چٹائی گئی۔ 2018 وہ ڈیڈ لائن تھی جس کے بعد کپتان کو لانا ناممکن ہو جاتا۔ اس سال پوری روحانی دنیا کمر کس کے کپتان کی حمایت میں سامنے آئی اور وہ عظیم منصوبہ شروع ہوا جس کے اختتام پر ہرمجدون برپا ہو گا۔ خیر کی ساری طاقتیں کپتانی جھنڈے تلے اکٹھی ہونی شروع ہوئیں۔ ایک عظیم مسلم ریاست جس کا خواب نور الدین زنگی، صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، جمال الدین افغانی، علامہ اقبال اور خلیل الرحمن قمر نے دیکھا تھا، اس کی بنیاد پڑی۔

اس ریاست کے خلاف سازشیں پہلے دن سے شروع ہو گئیں۔ شیطانی طاقتوں کے نمائندے کپتان کی کردار کشی سے لے کر اس کی کرپشن کے قصوں تک ہر طرح کا حربہ استعمال کرنے لگے۔

اعلی عہدوں پر موجود کچھ لوگ روحانیت سے نابلد ہونے کی وجہ سے اس منصوبے کو نہ سمجھ سکے اور شیطانی طاقتوں کے نمائندوں پر یقین کر لیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ کپتان کو بظاہر اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ اس پر وہ الزام عائد کیے گئے جو بدترین دشمن بھی اس پر عائد نہ کر سکے تھے۔

ایک دفعہ کلائیو لائیڈ سے پوچھا گیا کہ کیا کپتان میچ فکسنگ کرتا ہے؟ ان کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا کہ میں اپنی ولدیت پر شک کر سکتا ہوں لیکن یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ کپتان کرپٹ ہے۔ ایلن لیمب جو کپتان کا جانی دشمن تھا، اس سے عدالت میں سوال ہوا کہ کیا کپتان نے کبھی ریورس سوئنگ کرنے کے لیے گیند پر ڈھکن لگایا؟ اپنے ہی کیس میں لیمب جیسا دشمن بھی نہ چاہتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ مجھے لالچ دے کے یہ کیس کرنے پر مجبور کیا گیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ کپتان کلین ہے۔ اس نے آج تک کسی گیند پر ڈھکن نہیں لگایا۔ اسی کے ساتھ ہی جج نے کیس کا فیصلہ کپتان کے حق میں کر دیا۔

ریکھا سے کسی نے پوچھا کہ کیا کپتان کے ساتھ تمہارا کوئی ناجائز تعلق تھا تو وہ آہ بھر کے کہنے لگیں کہ میری بڑی خواہش تھی لیکن ایسا لنگوٹ کا پکا مرد میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ میں ایک رات اس کے ہوٹل کے کمرے میں ویٹرس کے روپ میں دھوکے سے چلی گئی۔ وہاں کیا دیکھتی ہوں کہ کپتان مصلے پر سجدے میں پڑا ہچکیوں سے رو رو کے دعائیں کر رہا ہے کہ یا اللہ پاکستان کو ہندوستان کے خلاف فتح عطا فرما۔ ریکھا کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میری گھگھی بندھ گئی۔ میں نے اسی وقت کپتان کو سجدے سے اٹھا کر اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور اس کی بہن بن گئی۔

روحانی طاقتیں کپتان کی اس بے وقعتی پر خاموش نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔ خیر اور شر کی فیصلہ کن جنگ کا سپہ سالار اگر سیشن ججز کی عدالتوں میں دھکے کھاتا پھرے گا تو ہرمجدون کیسے برپا ہو گا۔ فیصلہ کن وار کے لئے کپتان کو آخری معرکہ کا گرین سگنل دے دیا گیا۔ کپتان نے ماؤزے تنگ کے طریق پر ایسا لانگ مارچ تشکیل دیا جس کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کروڑوں لوگ جب کپتانی کنٹینر کے ساتھ ”امر بالمعروف“ کے نعرے لگاتے نکلے تو شیطانی طاقتوں کی سٹی گم ہو گئی۔ سیٹلائٹس سے حاصل ہونے والی تصاویر نے شیطانی قائدین کے حواس گم کر دیے۔ دیوار چین کے بعد واحد چیز جو واضح نظر آ رہی تھی وہ انسانوں کی دیوارِ کپتان تھی جو لحظہ بہ لحظہ دارالحکومت کی طرف بڑھ رہی تھی۔

اگر کپتان منزل تک پہنچ جاتا تو یہ شیطانی قوتوں کی بدترین ہزیمت ہوتی۔ کپتان کو روکنے کے لیے ایسا منصوبہ بنایا گیا جس کی مثال کسی فکشن، فلم یا خواب میں بھی نہیں مل سکتی۔ ایک مجہول سے نوجوان کی برین واشنگ کی گئی۔ اسے دیسی ساختہ معمولی سا پستول دیا گیا تاکہ منصوبے کو حقیقت کا رنگ دیا جا سکے۔ ”سٹرینجر تھنگز“ کی ایول ورلڈ جو بعینہ ہماری دنیا جیسے ہوتی ہے لیکن بالکل الٹی سمت میں۔ اس دنیا میں سنائپر کو بھیجا گیا۔ تاکہ وہاں سے کپتان کے سر کا نشانہ لے سکے۔ جس وقت سنائپر فائر کرتا اسی وقت مجہول نوجوان سے بھی فائرنگ کروائی جاتی تاکہ کسی روحانی دنیا والے کو خبر نہ ہو سکے کہ کیا گیم ڈالی گئی ہے۔

شیطانیت کے پجاری اب تک یہ سمجھتے رہے کہ کپتان کو صرف روحانی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے اور کپتان کو روحانیت کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں۔ یہاں وہ مار کھا گئے۔ کپتان کے روحانی درجات اتنے بلند ہیں کہ روحانی مدارس میں کپتان پر لکھی کتاب نصاب میں شامل ہے جس کا عنوان ”کپتان پاک کی روحانی عظمتیں“ ہے۔ کوئی بھی طالبعلم اس کو پڑھے بغیر امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

جیسے ہی ایول ورلڈ میں سنائپر گوجرانوالہ کے باہر پہنچا اس وقت کپتان کنٹینر کی چھت پر کھڑا تھا۔ سنائپر نے رائفل سیدھی اوپر کی طرف کی۔ ہماری دنیا اسے اپنے سر کے اوپر الٹی نظر آ رہی تھی۔ کپتان کا سر سامنے سے گھنے بالوں اور پیچھے ایک کیوٹ سے گنج سے سجا تھا۔ سنائپر نے نشانہ لیا۔ بلٹ لوڈ کی اور ٹریگر دبا دیا۔ جیسے ہی گولی ایول ورلڈ گوجرانوالہ سے ہمارے گوجرانوالہ میں داخل ہوئی۔ کپتان کی روحانیت نے اسے خطرے کا سگنل دیا۔ کپتان نے ایک سیکنڈ کے دس اربویں حصے میں الٹی فلائنگ کک لگا کر گولی کو ہزاروں ٹکڑوں میں بدل دیا۔ یہ ٹکڑے واپس ایول ورلڈ میں گئے اور سنائپر کو چشم زدن میں گوشت کے لوتھڑوں میں بدل دیا۔ یہی خون ایول ورلڈ الٹی ہونے کی وجہ سے کنٹینر پر آ گرا اور سینیٹر فیصل جاوید لہو میں لت پت ہو گئے۔ سنائپر کی ران کی ہڈی کا ایک ٹکڑا بھی ان کے گال پر لگا جس سے گہرا زخم آیا۔

وہاں موجود کروڑوں لوگ، کیمرے، موبائل بھی اتنی تیز حرکت کو کیپچر نہ کرسکے۔ یہ سب انسانی اور ڈیجیٹل آنکھ کی رفتار سے کہیں زیادہ تھا۔ یہ روحانیت کی رفتار تھی۔ سب کو یہ لگا کہ کپتان کو گولی لگی ہے اور وہ گر گیا ہے۔ الٹی قلابازی لگانے کی وجہ سے کپتان کنٹینر کے فرش پر آ گرا تھا۔ اپنا راز محفوظ رکھنے کے لیے کپتان نے کنٹینر کی تیز دھار دھات سے پنڈلیوں پر زخم لگا لیے۔ آگے جو ہوا اس سے ہم سب واقف ہیں۔

اس طرح حق و باطل کی جنگ کا ایک اور معرکہ کپتان کے نام ہوا۔ روحانی طاقتوں کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ کپتان ہی امت مسلمہ کا رہنما ہے اور وہی اس جنگ میں ہماری قیادت کرے گا۔
Armageddon*

جعفر حسین
Latest posts by جعفر حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جعفر حسین

جعفر حسین ایک معروف طنز نگار ہیں۔ وہ کالم نگاروں کی پیروڈی کرنے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سنجیدہ انداز میں تاریخ گھڑتے ہیں

jafar-hussain has 113 posts and counting.See all posts by jafar-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments