چین کی سرحد کے قریب واقع انڈیا کا وہ شہر جو رفتہ رفتہ زمین میں دھنس رہا ہے


سنینا سکلانی پہلے اپنی بہنوں کے ساتھ اسی کمرے میں رہتی تھیں
سنینا سکلانی پہلے اپنی بہنوں کے ساتھ اسی کمرے میں رہتی تھیں
ہر سال لاکھوں لوگ ہندو عقیدت مند بدری ناتھ، اولی، پھولوں کی وادی، ہیم کنڈ جیسے مقامات کی سیر کرنے کے لیے انڈیا اور چین کی سرحد کے قریب واقع شہر جوشی مٹھ پہنچتے ہیں۔

لیکن کچھ عرصے سے جوشی مٹھ کے لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے گھر زمین میں دھنس رہے ہیں، ان میں دراڑیں آ رہی ہیں۔ یہ علاقہ انڈیا کی شمالی پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں آتا ہے۔

زلزلے کی درجہ بندی کے لحاظ سے یہ زون-5 میں آتا ہے اور اس طرح جوشی مٹھ انڈیا میں سب سے زیادہ زلزلے آنے والے علاقوں میں شامل ہے۔

سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق یہاں تقریباً 4 ہزار گھروں میں 17 ہزار لوگ رہتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر پر انسانی بوجھ بھی بڑھتا گیا ہے۔

جوشی مٹھ کے مرکز سے تھوڑی دور نشیب میں واقع ایک گاؤں سنیل ہے۔ نشیب سے نیچے آتے ہی انجو سکلانی ہمیں اپنے گھر کا ایک کمرہ دکھانے لے گئیں۔

نیلے رنگ کے کمرے کی دیواریں ٹوٹی پھوٹی ہیں اور ان میں بڑے شگاف نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اس چھت کے نیچے کھڑا ہونا بھی شاید محفوظ نہ ہو۔

ایک وقت تھا جب سنینہ اپنی بہنوں کے ساتھ اسی کمرے میں رہتی تھیں۔ پہلے یہاں دو بستر ہوا کرتے تھے۔ ایک طرف مندر تھا۔ یہیں ان کی کتابیں رکھی ہوتی تھیں لیکن اب یہ کمرہ بند ہے۔ سب بہنیں ساتھ والے کمرے میں شفٹ ہو گئی ہیں۔

انجو سکلانی اپنے گھر کا حال بتاتی ہیں

انجو سکلانی اپنے گھر کا حال بتاتی ہیں

پڑوس کے گھر میں رہنے والی ان کی چچی کے گھر کے حالات بھی مختلف نہیں ہیں۔ وہ فرش، دیواروں اور چھت میں شگاف سے خوفزدہ ہیں۔

چچا مزدوری کا کام کرتے ہیں اور وہ اس گھر میں 20 سال سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں۔

سنینہ کی چچی انجو سکلانی کہتی ہیں: ‘کمرے رہنے کے قابل نہیں ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں۔ جا کر دیکھیں کہ ہم کیسے رہ رہے ہیں۔ ہمیں یہاں سے کہاں جانا ہے، لوگ کہہ رہے ہیں یہاں جاؤ وہاں جاؤ، یہاں بناؤ، وہاں بناؤ، ہم کہاں بنائیں گھر؟ بے روزگاری ہے، ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے، ہم نے قرض لے کر اپنا گھر بنایا تھا، ہم نے ابھی تک قرض بھی نہیں ادا کیا ہے، تو ہم دوسرا گھر کہاں سے بنائیں گے؟’

انجو سکلانی کے مطابق ان کے خاندان نے انتظامیہ سے مدد مانگی، صحافیوں کو اپنا درد بتایا، لیکن کہیں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

موسم سرما شروع ہو چکا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ دیواریں یا چھتیں کتنی اور کتنی دیر تک برف کا بوجھ برداشت کر سکیں گی۔

 ڈاکٹر رنجیت کمار سنہا

اتراکھنڈ میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سیکرٹری ڈاکٹر رنجیت کمار سنہا

جوشی مٹھ گاؤں میں بہت سے لوگ یکے بعد دیگرے ہمیں اپنے گھروں کی حالت دکھانے لے گئے، اس امید پر کہ ان کی بات مزید آگے تک پہنچے گی۔ ان کی شکایت یہ تھی کہ کوئی ان کی آواز نہیں سن رہا ہے۔

لیکن اتراکھنڈ میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سیکریٹری ڈاکٹر رنجیت کمار سنہا کہتے ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے۔ ہم سب سن رہے ہیں، حکومت سن رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ اس کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔‘

ڈاکٹر سنہا متاثرہ خاندانوں کے لیے متبادل انتظامات کا یقین دلاتے ہوئے کہتے ہیں: ’اس کے لیے ہم نے ڈی ایم (ضلع مجسٹریٹ) کو زمین کی نشاندہی کرنے کے لیے کہا ہے کہ آیا آس پاس کہیں کوئی مناسب جگہ ہے یا نہیں۔ دوسری بات، زیادہ نقصان نہ ہو۔ زمین مزید نہ دھنسے۔ کوئی بھی تباہی ہو ہم اس کے لیے کام کریں گے۔‘

’ریاست کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ فنڈ میں تقریباً 1,800 کروڑ روپے ہیں اور دسمبر میں تقریباً 400 کروڑ روپے مزید آنے والے ہیں۔ اس لیے پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایک بار جب ہم یہ طے کر لیں کہ ہمیں کون سے کام کرنے ہیں تو پھر ہم اس پر اپنے پورے دل سے کام کرائیں گے۔‘

فرش میں شگاف

فرش میں شگاف

زمین آخر کیوں دھنس رہی ہے؟

قریبی گاؤں روی گرام کی سومیدھا بھٹ 10 سال پہلے اپنے گھر میں شفٹ ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنے گھر کی تعمیر پر 20 لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کیا ہے۔ دیواروں میں سانپوں اور بچھووں کے داخل ہونے کے خوف سے انھوں نے گھر کی مرمت کروائی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

فرش پر، کچن کی دیواروں اور گھر کے کمروں میں شگاف پڑے ہیں۔ ایک بل سے سانپ کے بچوں کو رینگتے ہوئے دیکھا تو گھر سے فینائل لے کر آ گئیں۔

وہ کہتی ہیں: ’زمین دھنس رہی ہے تو دروازے بھی فطری طور پر دھنسیں گے۔ دروازے بند نہیں ہو رہے، چٹخنیاں نہیں لگ رہی ہیں۔ بارش ہو رہی ہے تو مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ چھوٹے بچے ہیں، رات کو کہاں جائیں گے؟‘

گھر گرنے کے خدشے کے پیش نظر لوگوں نے بلیاں (موٹی لکڑیاں یا شہتیر) ڈال رکھی ہیں۔ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ ’لوگ کسی ناخوشگوار واقعے کے ڈر سے گھر چھوڑ رہے ہیں۔‘

سکلانی خاندان کے مطابق گذشتہ سال اکتوبر میں ہونے والی شدید بارشوں کے باعث گھروں میں شگاف پڑنا شروع ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

دلت نوجوان اور ’اونچی ذات‘ کی لڑکی کی محبت اور شادی کے خونی انجام کی کہانی

یوم جمہوریہ پر وزیراعظم کی ٹوپی زیربحث: ‘ہمارا میڈیا مودی جی کی ٹوپی کو سمجھنے میں پھنس گیا‘

17-19 اکتوبر کے سیلاب کی وجہ سے اتراکھنڈ میں شدید تباہی ہوئی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال 18 اکتوبر کی صبح 8.30 بجے سے اگلے 24 گھنٹوں کے دوران جوشی مٹھ میں 190 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

جوشی مٹھ میں زمین کا دھنسنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سنہ 1976 کی مشرا کمیٹی کی رپورٹ میں بھی شہر کے دھنسنے کا ذکر ہے۔

مقامی کارکن اتل ستی کا دعویٰ ہے کہ پچھلی دہائیوں میں ایسے مواقع آئے جب جوشی مٹھ کا زمین میں دھنسنا رک گیا، اور پچھلے سال فروری اور اکتوبر کی تباہی کے بعد جوشی مٹھ میں پھر سے ایسے واقعات ہونے لگے۔ لیکن ان دعوؤں کی سائنسی طور پر تصدیق ہونا باقی ہے۔

سومیدھا بھٹ

سومیدھا بھٹ

بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیاں

بڑھتی ہوئی آبادی اور عمارتوں کی بڑھتی ہوئی تعمیر کے دوران سنہ 1970 کی دہائی میں بھی لوگوں نے لینڈ سلائیڈنگ کی شکایت کی تھی جس کے بعد مشرا کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔

کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق جوشی مٹھ قدیم لینڈ سلائیڈ ایریا میں قائم ہے اور یہ شہر مٹی کے غیر مستحکم ڈھیر اور پہاڑ سے ٹوٹے ہوئے بڑے ٹکڑوں پر واقع ہے۔

ایک مفروضہ ہے کہ گذشتہ سال فروری میں ٹوٹے ہوئے گلیشیئر کے ملبے نے اس جگہ کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ بہر حال اس دعوے کی سائنسی طور پر تصدیق ہونا باقی ہے۔

ماہرین کے مطابق تعمیراتی کام اور آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ، بارش، گلیشیئر یا سیوریج کے پانی کا زمین میں جانا اور مٹی کو ہٹانے کی وجہ سے چٹانوں کا حرکت میں آنا، نکاسی کا نظام نہ ہونا وغیرہ ایسے عوامل ہیں جنھوں نے جوشی مٹھ کے دھنسنے کے عمل میں اضافہ کیا ہے۔

سنہ 1976 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’کئی ایجنسیوں نے جوشی مٹھ کے علاقے میں قدرتی جنگل کو بے رحمی سے تباہ کر دیا ہے۔ پتھریلی ڈھلانیں سپاٹ اور درختوں سے خالی ہیں۔ جوشی مٹھ تقریباً 6,000 میٹر کی بلندی پر ہے لیکن درختوں کو 8,000 فیٹ تک پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ درختوں کی کمی کے نتیجے میں مٹی کا کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے۔ ننگی چوٹیاں موسم کے حملوں کے لیے کھلی ہوئی ہیں۔ بڑے پتھروں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں رہا ہے۔‘

اتراکھنڈ میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سکریٹری ڈاکٹر رنجیت کمار سنہا کے مطابق زمین کے دھنسنے کا مسئلہ اتراکھنڈ اور ہمالیہ سے متصل تمام ریاستوں کا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’میں ابھی ابھی سکم سے آیا ہوں، وہاں تمام ہمالیائی ریاستوں کا ایک کنکلیو تھا۔ پورے گینگٹوک کو لینڈ سلائیڈنگ اور گرنے کا ایک سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ پورا شہر ڈوب رہا ہے۔ یہ صرف اتراکھنڈ ہی نہیں ہے، یہ سب کے لیے ہے۔ پوری ہمالیائی ریاستوں کا ایک مسئلہ ہے۔‘

شہر کاری

تو پھر سنہ 1976 کی رپورٹس کی سفارشات کا کیا ہوا؟

مقامی کارکن اتل ستی کہتے ہیں: ’کسی نے (رپورٹ کی) تجاویز اور وارننگ پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آپ کو پتھروں کو نہیں چھیڑنا ہے۔ یہاں دھماکوں سے تمام بڑے پتھر توڑے گئے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں: ’جوشی مٹھ مسلسل پھیل رہا ہے، لوگ جوشی مٹھ میں آ رہے ہیں، لیکن اس کے مطابق یہاں کوئی شہری سہولیات نہیں، نکاسی کا نظام نہیں ہے، سیوریج کا نظام نہیں ہے، ان وجوہات نے دھنسنے کے عمل کو مزید تیز کر دیا ہے۔‘

ماہرین ارضیات اور دوسرے ماہرین کی ستمبر سنہ 2022 کی ایک اور رپورٹ میں بھی ’کنٹرولڈ ڈویلپمنٹ‘ کی بات کی گئی۔

ان کے مطابق جوشی مٹھ میں 100 سے زیادہ ہوٹل، ریزورٹس اور ہوم اسٹے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ’پچھلے 31 دسمبر کو اولی کے بعد جوشی مٹھ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ لوگ جوشی مٹھ میں کار کے اندر سوتے تھے۔ لوگ رات کے 11-12 بجے ہمارے پاس سونے کے لیے آئے تھے۔ ایک سیاح لڑکی میری بیٹی کے ساتھ اوپر والے کمرے میں سو رہی تھی۔‘

اتل ستی

اتل ستی

جوشی مٹھ کتنا دھنس رہا ہے؟

مشرا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جوشی مٹھ میں بھاری عمارتوں کی تعمیر کا کام سنہ 1962 سے شروع ہوا تھا۔

اتل ستی کے مطابق چین کے خلاف 1962 کی جنگ کے بعد ’سڑک تیزی سے تیار ہوئی، فوج نے علاقے میں آباد ہونا شروع کیا۔ ہیلی پیڈ بنائے گئے۔ ان کے لیے عمارتیں، بیرکیں بننا شروع ہو گئیں۔‘

لیکن آج یہ دھنسنا کس قدر ہو رہا ہے؟

دہرادون میں قائم واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالین جیولوجی کی ماہر ارضیات ڈاکٹر سپنمیتا ویدیسورن پرانی سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے  یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کس حد تک زمین دھنسی ہے۔

انھوں نے جوشی مٹھ کی ڈھلوان زمین پر ہزاروں پوائنٹس پر نشان لگائے۔ سیٹلائٹ کی مدد سے انھوں نے ان پوائنٹس کو دو سال سے زیادہ عرصے تک ٹریک کیا، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ پوائنٹس شروع سے آخر تک کتنے دور گئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’مکمل نقل مکانی کا مطلب پہلے دن سے آخری دن تک ہے۔ اور رفتار کا حساب سال کے لحاظ سے ملی میٹر میں کیا جاتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ رویگرام گاؤں ہر سال 85 ملی میٹر کی رفتار سے دھنس رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لینڈ سلائیڈنگ کا اثر نہیں بلکہ یہ ہر سال 85 ملی میٹر کی رفتار سے دھنس رہا ہے، جو بہت زیادہ ہے۔‘

جوشی مٹھ کے نقشے میں کچھ ایسے مقامات بھی ہیں جو مستحکم تھے۔

ڈاکٹر سپنمیتا ان ماہرین میں شامل ہیں جنھوں نے ستمبر 2022 کی رپورٹ لکھی ہے۔

سپنمیتا

ماہر ارضیات سپنمیتا ویدیسورن

ماہرین ارضیات بار بار یاد دلاتے رہتے ہیں کہ یہ پہاڑ نازک ہیں اور یہ صرف ایک حد تک ہی بوجھ برداشت کر سکتے ہیں۔

اتراکھنڈ میں روحانی سمارٹ سٹی بنانے یا ہر موسم کے لیے سڑکیں بنانے کی بات ہوتی رہی ہے۔

ڈاکٹر سپنمیتا ویدیسورن کہتی ہیں: ’آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ پہاڑوں پر بڑے شہروں کو کیسے فروغ دے رہے ہیں۔ اس کے لیے مناسب قوانین ہونے چاہئیں۔ چھوٹے گاؤں ہوں یا شہر، آپ کو ان میں اضافے کو کنٹرول کرنا ہوگا۔‘

ڈاکٹر ویدیسورن کے مطابق، ضروری ہے کہ لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور پہاڑوں کے لیے کچھ ٹاؤن پلانرز کو کام پر لگایا جائے۔ وہ مناسب منصوبہ بندی کے بغیر تعمیراتی کام کو فوری طور پر روکنے پر بھی زور دیتی ہیں۔

جبکہ اتل ستی چاہتے ہیں کہ حکومت سروے کرے کہ کتنے گھروں میں دراڑیں ہیں، کون سے مکانات خراب حالت میں ہیں، کون سے مکانات ہیں جہاں سے لوگوں کو فوری طور پر نکالنے کی ضرورت ہے وغیرہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments