آستین (افسانچہ)۔


حکیموں نامی شخص کے گاؤں میں خشک سالی کے باعث قحط پڑ گیا۔ حکومتی و فلاحی تنظیموں کی امداد آتی رہتی لیکن پوری نہ پڑتی۔ حکیموں کے باپ نے کہا، شہر جا کر کوئی نوکری کر لے، یہاں تو اب یہی حالات رہیں گے، جب تک بارش نہ ہو، آخر گاؤں کے دوسرے لڑکے بھی تو شہر جا کر نوکریاں کرتے ہیں۔

حکیموں شہر نہیں جانا چاہتا تھا، گاؤں میں اس کی عم زاد اور منگیتر سموں تھی، اس کی ماں تھی، اور زمین تھی، چاہے تھوڑی ہی سہی، وہ اسی پر محنت کر کے خوش تھا۔

لیکن وہ قحط سالی کے باعث ہونے والی تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر شہر پہنچ گیا، جہاں اس کے گاؤں کے ایک آدمی نے اس کو ایک گھر میں ملازمت کے لئے رکھوا دیا، اس وسیع و عریض گھر میں حکیموں کا کام صرف اس مالی کی مدد کرنا تھا، جو کانوں میں ہر وقت ہیڈ فونز لگائے موسیقی سے لطف اندوز ہوتا اور ساتھ ہی ساتھ گھر کے اندر ہی سینکڑوں گز پھیلے باغ کی دیکھ ریکھ بہت جانفشانی سے کرتا تھا۔

کام اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا، حکیموں نے کوئی اور ملازمت ڈھونڈنی چاہی، تو اس کے گاؤں کے آدمی نے اسے گھرکا کہ ناشکری نہ کرو، چھوٹے موٹے کام کرنے کے اتنے پیسے مل رہے ہیں، چپ چاپ کام کرتے رہو۔

حکیموں دل ہی دل میں مالی کے ہر وقت گانے سننے اور تھرکنے کی عادت پر کڑھتا رہتا۔
جب سے اس کو یہ معلوم ہوا تھا کہ مالی غیر مسلم بھی ہے تو اس کو اور بھی کراہت آنے لگی، وہ اس کے ساتھ کھانے پینے سے گریز کرتا اور طنزاً مالی کو ڈسکو مالی اور ڈانس والا مالی کہتا، مالی اپنے یہ نئے نام سن کر بہت ہنسا، وہ اس کی کراہت و حقارت کو بھی خوش اسلوبی سے برداشت کرتا اور کبھی بھی پلٹ کر حکیموں کو جواب نہ دیتا۔

گھر کے مکینوں سے بھی اسے شکایات رہتیں، کہ اتنا بڑا گھر کیوں بنایا جہاں صرف چار افراد رہتے ہیں، آخر یہ کاروباری لوگ اتنے بڑے گھر کیوں بناتے ہیں، اس گھر کے اردگرد تمام گھر بڑے اور عالیشان تھے۔

حکیموں کو سب سے زیادہ غصہ اس گھر کی عورتوں پر آتا تھا، جو چھوٹے چھوٹے اور بغیر آستینوں کے کپڑے پہنتی تھیں، ان کی سہیلیاں بھی ایسے ہی کپڑے پہن کر ان کے گھر آتیں تھیں۔ حکیموں کے دل میں ان عورتوں کے خلاف نفرت پروان چڑھ رہی تھی، وہ دل ہی دل میں کہتا تھا، بے حیا عورتیں، میں تو کبھی بھی اپنی سموں کو ایسے کپڑے نہ پہننے دوں۔

کئی ماہ گزر گئے، ساون کا مہینہ شروع ہو گیا، ملک بھر میں بارشیں شروع ہو گئیں۔ کہاں تو بارشیں ہو نہ رہی تھی اور پھر اچانک اتنی ہوئیں کہ ملک کے نشیبی و دریائی علاقوں میں سیلاب آ گیا۔

حکیموں نے ٹی وی پر خبروں میں اپنے گاؤں کے حالات دیکھے جہاں سیلابی ریلا پہنچ چکا تھا، وہ گاؤں جانا چاہتا تھا، لیکن راستے بند تھے۔ ڈسکو مالی اور دیگر ملازمین حکیموں کو تسلی دیتے لیکن حکیموں کو سکون کہاں تھا، وہ بے چین ہو کر رونے لگتا۔

ایک دن مالک نے اس سے کہا، رونا دھونا بند کرو، ہم تمھارے گاؤں امدادی سامان لے کر جا رہے ہیں، چلو ہمارے ساتھ اور راستے کی رہنمائی کرو، حکیموں فوراً تیار ہو گیا۔

کئی ٹرکوں پر امدادی سامان لاد کر گھر کا مالک، اس کے دو دوست اس کی بیگم اور اس کی تین چار سہیلیاں ساتھ ہو لیں۔ حکیموں نے دل میں کہا، ان عورتوں کو ساتھ جانے کی کیا ضرورت ہے، لیکن مصلحتاً چپ رہا۔

راستے کی مشکلات اور جگہ جگہ کھڑے پانی سے بچتے بچاتے وہ لوگ حکیموں کے گاؤں پہنچ گئے جہاں گاؤں کا نام و نشان نہ تھا، صرف پانی تھا، ایک مندر اور ایک مسجد کی چھت پر گاؤں کے لوگ نہ جانے کب سے بھوکے پیاسے بیٹھے تھے، بہ مشکل تمام لوگوں کو خشک خوراک دی گئی، حکیموں اپنے والدین سے مل کر زار زار رویا، بیگم صاحبہ نے کہا، شکر کرو، یہ لوگ زندہ سلامت مل گئے ہیں۔

حکیموں کے چچا چچی بالکل چپ تھے، حکیموں کو سموں نظر نہ آئی، اس نے اپنے چچا چچی سے پوچھا، چچی رونے لگی، حکیموں چیخا، کہاں ہے میری سموں؟

اسکے باپ نے بتایا، سموں نہیں مل رہی ہے نہ جانے پانی میں کب بہہ گئی، حکیموں دھاڑیں مار کر رونے لگا۔
بیگم صاحبہ اور صاحب نے اسے تسلی دی، کہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دو دن کے بعد ایک فلاحی تنظیم کے کارکنان گاؤں پہنچے اور لاپتہ لوگوں کو ڈھونڈ نے لگے، وہ مختلف مقامات پر پانی میں اترتے اور نعشیں نکالتے، ایک ٹیلے پر اگی کانٹے دار جھاڑیوں میں پھنسی سموں کی نعش بھی مل گئی۔ حکیموں اور اس کی چچی صدمے سے بے ہوش ہو گئے۔

ہوش میں آنے کے بعد حکیموں نے دیکھا، بیگم صاحبہ اور اس کی سہیلی سموں کے مردہ بدن پر موجود کپڑوں کی دھجیاں الگ کر کے اس کو نیا کفن پہنا رہی تھیں، اور ٹیلے پر موجود کانٹے دار جھاڑی میں سموں کے ملبوس کی کترنیں اور آستین اٹکی ہوئی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments