یہ سوٹ لے لو


وہ ایک ٹھیٹھ قبائلی علاقے کے ایک سخت گیر انسان کے ہاں پیدا ہوا، اور پھر اس کی پرورش بھی مقامی روایات کے مطابق کی گئی، جس میں مرد کو ایک ایسی مخلوق بنا کر بڑا کیا جاتا ہے، جو مافوق الفطرت اور جذبات سے عاری ہوتا ہے۔ جو محبت نامی ایک لطیف جذبے سے نا آشنا اور عورت کے وجود سے انکاری ہوتا ہے۔ وہ جیسے جیسے دیوار پہ چڑھتی بیل کی مانند برگ و بار لا رہا تھا، اس کے اندر بلوغت کی تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی تھیں، لیکن کنواری عورت کی طرح وہ کسی سے اس بابت کوئی بات کرنے سے شرماتا تھا۔ گھر میں اگرچہ بڑا بھائی، دو بہنیں اور ماں باپ موجود تھے، لیکن روایات کے اس قدر پابند کہ ہر کوئی اپنے حصار میں سختی سے قید۔ یہ قید جو بظاہر نظر نہیں آتی تھی، لیکن دیکھنے والی آنکھ اسے دیکھ سکتی تھی اور شعور کی نظر سے اس کو محسوس بھی کیا جاسکتا تھا۔

ویسے تو اس کے گھر میں پرائی عورت کا آنا، یوں ہی حرام تھا جیسے مسلمانوں کے ہاں سور کا کھانا۔ تاہم ایک لڑکی اس کی اماں سے قرآن مجید کا سبق پڑھنے اس وقت آتی تھی، جب گھر میں کسی مرد نامی شے کا وجود نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک دن جب وہ لڑکی جس کا نام گل بانو تھا، خالہ کے پاس بیٹھ کر سبق یاد کر رہی تھی، کہ وہ کسی ضروری کام سے گھر میں آ دھمکا۔ اس کو یوں اچانک دیکھ کر گل بانو نے اپنا منہ دوپٹے سے ڈھانپنے کی کوشش کی، لیکن اس سے پہلے ہی گل بانو کے حسن کا تیر، اس قبائلی شیر کو شکار کرچکا تھا۔ وہ اس کے حسن اور سراپے سے اپنے ہوش اس قدر گنوا بیٹھا، کہ وہ یہ بھی بھول گیا کہ گھر کس کام سے آیا تھا۔

” کیا بات ہے نور اللہ بچے! تم یہاں اس وقت کیوں آیا ہے؟“ ماں نے چارپائی پہ بیٹھے بیٹھے نور اللہ سے سوال کیا، جس کے دل کی دھڑکن اب بے قابو ہو چکی تھی۔

” مورے! وہ۔ وہ۔ اصل میں خوچہ۔ وہ۔“ نور اللہ الجھن کے انداز میں سر کھجا کر بات یاد کرنے کی جب کوشش کر رہا تھا، تو گل بانو اسے کنکھیوں سے دیکھ کر میسنے انداز میں ہنس رہی تھی۔ خیر جب بہت ذہن پر دباؤ ڈالنے کے باوجود بھی، اسے کچھ یاد نہ آیا تو وہ باہر واپس چلا گیا۔

” کمال ہے۔ یہ اس نور اللہ کو آج کیا ہوا ہے؟ پہلے تو کبھی اس نے ایسا نہیں کیا“ ماں نے حیرانی کے عالم میں خود کلامی کی، اور پھر گل بانو کی جانب دوبارہ متوجہ ہو گئی۔

نور اللہ جب گھر سے باہر نکل کر گلی میں آیا، تو اس کی حالت خراب ہو چکی تھی۔ اس نے گل بانو کو گلی میں کئی بار گزرتے دیکھا تھا، مگر وہ ہمیشہ میں نقاب اوڑھے چپ چاپ اس کے پاس سے گزر جاتی تھی۔ آج پہلی مرتبہ جب اس نے گل بانو کو یوں بے حجاب دیکھا تو اپنا سب کچھ دل ہی دل میں اس پر فدا کر بیٹھا۔ وہ محلے سے باہر نکل کر باہر کھیت کی جانب گیا، جہاں کناروں پر جنگلی پھول پوری آب و تاب کے ساتھ کائنات کے حسن و جمال میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔

اس نے گلابی رنگ کے ایک جنگلی پھول کو توڑا، اور پھر اس کو ہاتھوں میں لے کر اس کی پنکھڑیوں کی بناوٹ، اس کی رنگت، اس کے جمال اور خوشبو سبھی میں گل بانو کا عکس تلاش کرنے میں محو ہو گیا۔ وہ اس قدر غور سے پھول کو دیکھ رہا تھا کہ اسے گویا پھول کی ہر پتی کے اندر گل بانو کا دمکتا چہرہ، اس کی مسکراہٹ اور دلنشیں آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔

کیونکہ وہ قبائلی علاقے میں پیدا ہوا تھا، جہاں بچوں کی شادی جلدی کرنے کا رواج ہے، لہذا ایک دن اسے یہ خبر ملی کہ ابا نے اس کا رشتہ اپنی بھتیجی کے ساتھ کر دیا ہے۔

” مورے! میں یہ شادی نہیں کر سکتا“ اس نے ماں کے پاؤں دباتے ہوئے جب یہ بات کی تو ماں کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ ”مگر کیوں؟ آخر وہ بچپن سے تمہاری منگ ہے۔ وہ تمہارے نام پہ بیٹھی ہوئی ہے۔ اور تم انکار کر رہے ہو“ ماں نے اس کے ہاتھ روک لیے اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ”مورے! میں گل بانو کو پسند کرتا ہوں، اور اسی سے شادی کروں گا“ نور اللہ نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔ ”تم نے ایسا سوچا بھی کیوں؟ میں تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔

سمجھے تم“ باپ کی دروازے سے ایک گرج دار آواز آئی اور دونوں ماں بیٹا چارپائی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ”مگر بابا! مجھے گل بانو پسند ہے۔ چچا کی بیٹی نہیں۔“ نور اللہ نے اپنی محبت کو افشا کر دیا۔ ”محبت! تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ تم کسی اور سے محبت کرو گے۔ ہمارے خاندان میں مرد کی ایک شان ہے اور وہ کسی عورت سے محبت کرنا اپنی مردانگی کے خلاف سمجھتا ہے۔ سمجھے تم۔ تمہیں گل بانو پسند ہوگی، مگر میں نے تمہارے لئے اپنے بھائی کی بیٹی کو پسند کیا ہے“ باپ کی گرج دار آواز میں یہ الفاظ، اس کے دل پر چھید پہ چھید کیے جا رہے تھے۔

نور اللہ نے اپنی روایات کے خلاف اگرچہ ممکنہ حد تک بغاوت کی، لیکن وہ اپنی محبت کو پانے میں کامیاب نہ ہوسکا اور اس کی شادی اپنی کزن سے ہو کر ہی رہی۔ اس کی کزن بھی یہ جانتی تھی کہ اس کا شوہر کسی اور کی زلفوں کا اسیر ہے، مگر وہ بھی اپنی روایات کے آگے بے بس تھی۔

نور اللہ کی شادی کو چار ماہ جب گزر گئے تو وہ پشاور روزگار کی تلاش کا بہانہ کر کے، گھر سے نکل گیا، کیونکہ وہاں گل بانو کی یادیں اسے بے چین کیے رکھتی تھیں اور اس نے محبت کی حسین یادوں سے فرار حاصل کرنے کا سوچ کر، گاؤں کو چھوڑا اور پشاور میں آ بسا۔ پشاور میں آ کر اس نے روزگار حاصل کرنے کے بعد ، گھر والوں اور بیوی سے قطع تعلق کر لیا اور پھر پانچ برس تک واپس گاؤں نہ گیا۔

اگرچہ وہ فون پر گھر والوں سے رابطہ رکھے ہوئے تھا، لیکن اس نے گاؤں کو اپنے تئیں مکمل خیر باد کہہ دیا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں تنہا گل بانو کی یادوں کے سہارے زندگی گزار رہا تھا، کہ ایک دن اس کا باپ اور بڑا بھائی اس کے پاس جا پہنچے۔ باپ اور بھائی نے جب پانچ برس کے بعد ، نور اللہ کو دیکھا، تو اس کو پہچان بھی نہ سکے۔ وہ نور اللہ جو ایک تنو مند اور ہنستا مسکراتا نوجوان تھا، اس کی جگہ ایک صدیوں کا بیمار اور کسی روگ میں مبتلا ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ان کے سامنے کھڑا تھا۔ باپ اور بھائی نے یہ حال دیکھا تو آنکھیں بھر آئیں، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔

” نور اللہ بچے! کیا بات ہے؟ تم پانچ سال ہو گئے گھر سے یوں نکلے کہ پھر واپس نہیں آئے۔ تمہاری بیوی تمہارا راستہ دیکھ رہی ہے“ بابا نے گلے ملتے ہوئے بیٹے سے شکوہ کیا۔ ”بابا! میں نے اس عورت کا کیا کرنا ہے۔ وہ میری نہیں آپ کی پسند تھی۔“ نور اللہ نے افسردگی کے ساتھ جب جواب دیا، تو باپ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ”مگر بچے پسند نا پسند سے کیا ہوتا ہے۔ مرد کو ایک بیوی چاہیے، جو کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ گل بانو نہ سہی یہ سہی۔“ بابا نے کھڑکی سے باہر روڈ کو دیکھتے ہوئے بات کی۔

نور اللہ بازار گیا اور وہاں سے کھانا لے کر آیا۔ پھر باپ اور دونوں بھائی کھانا کھانے لگے۔

” بابا! کل ہم بازار جائیں گے“ نور اللہ نے روٹی کھاتے ہوئے بات کی۔ ”مگر کیوں؟“ بابا نے پوچھا۔ ”آپ کو نئے کپڑے لے کر دوں گا“ اس نے جواب دیا۔ ”نور اللہ بچیا! میں نے کیا کرنا ہے نئے کپڑوں کا“ بابا نے نہ جانے کا بہانہ بنایا، لیکن نور اللہ نہ مانا۔ چنانچہ اگلے دن وہ تینوں بازار میں ایک کپڑے کی دکان پر گئے، جہاں نور اللہ نے ایک بھڑکیلا پیلے رنگ کا سوٹ بابا کے لئے پسند کیا۔

” بابا! یہ سوٹ میں نے آپ کے لئے پسند کیا ہے۔ لے لو“ نور اللہ نے جب بابا کو سوٹ دکھایا تو بابا کو ایک دم غصہ آ گیا۔ ”شرم کرو۔ میں اس عمر میں یہ رنگ پہنوں گا۔ مجھے یہ سوٹ نہیں پسند ہے۔ میں وہ سفید رنگ کا سوٹ لوں گا، کیونکہ مجھے وہ پسند ہے“ بابا نے ایک سفید رنگ کے تھان کی طرف اشارہ کیا۔ ”مگر بابا! آپ کو تو میں سوٹ لے کر دے رہا ہوں۔ اور مجھے یہ رنگ پسند ہے۔ آپ کو یہ لینا ہو گا۔ کیوں نہیں لیتے ہو؟“ نور اللہ نے بھگتی آنکھوں کے ساتھ باپ کو بس اتنا کہا اور روتا ہوا باہر نکل گیا۔ اور اسی لمحے باپ کو ماضی میں کہے گئے اپنے وہ الفاظ یاد آ گئے کہ ”تمہیں گل بانو پسند ہوگی، مگر میں نے تمہارے لئے اپنے بھائی کی بیٹی کو پسند کیا ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments