ناروے: یہاں کپڑے پہننا منع ہے


ایتھنز (یونان) کے بازاروں میں گھومتے ہوئے مجھے ایک شخص ملا جو دیکھنے میں میرا ہم عمر ہی لگتا تھا۔ میں نے اس سے ایک جگہ پہنچنے کے لیے راستہ پوچھا۔ وہ کہنے لگا میں بھی اسی طرف جا رہا ہوں اور میرے ساتھ چل پڑا۔ باتیں کرتا رہا کہ کس ملک سے آئے ہو کیا کرتے ہو وغیرہ۔ میں ان دنوں کافی چالاک تھا لہٰذا اسے سب کچھ غلط بتاتا گیا۔ راستے میں ایک مشروب غیر طہورا کی چھوٹی سی دکان تھی تو وہاں رک گیا۔ کہنے لگا پیتے ہو؟ چوں کہ میں جھوٹ بولتا آ رہا تھا تو یہاں بھی غلط بیانی کر گیا۔ اندر پہنچے تو وہ بھائی تو تیار تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ آرڈر دیتا میں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ آج کا کوٹہ پورا ہو چکا ہے لہذا میں صرف کوک پینا پسند کروں گا۔

لیکن اس کا مقصد مجھے یہاں لانے کا اس وقت ظاہر ہوا جب میں کاؤنٹر سے اپنا گلاس اٹھانے کے لیے مڑا تو ایک دوشیزہ مہ جمال، پری تمثال، لٹ جائیں جس پر گھر بار اور قربان جس پر لیل و نہار نے ایک ادائے کافرانہ سے دل پر کیا وار۔ گیسو اس کے دراز اور پیچ دار۔ دل کو اس کے حسن نے کیا بے قرار۔ سکندر کی راج دھانی میں دعوت گناہ کی راہ تھی مکمل ہموار۔ لیکن میں نے اپنی ”ادا شکن“ ڈھال سے کام خوب لیا اور اپنے دانت خود ہی کھٹے کر کے وہاں سے نکلنے کا سامان کرنے لگا۔ ظاہر سی بات ہے بعد میں اپنے آپ کو میں نے ملامتی تمغہ برائے ”رد حسن“ کارکردگی سے نوازا۔

مانچسٹر میں ایک ساتھی کے ساتھ ڈسکو جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں اس کے کافی اقتصادی رشتے دار اور احباب موجود تھے لہٰذا پیسے کی فراوانی تھی۔ ایک ناچ خانے میں داخل ہوئے تو سب دھواں دھواں۔ مجھے تو اپنی تربیت یاد آ گئی۔ آپ بھی یاد رکھیں کہ جہاز میں اگر دھواں بھر جائے تو زمینی سطح سے قریب رہیں کیوں کہ دھواں ہلکا ہوتا ہے اور اوپر کو اٹھتا ہے۔ گیلا کپڑا ناک اور منہ پر رکھ لیا جائے تو اور بچت ہو جائے گی۔ باقی راستہ دکھانے کو جہاز کے فرش پر خودکار بتیاں لگی ہوتی ہیں جو جہاز کے دروازے تک رہنمائی کر دیتی ہیں۔ بس جہاز اس وقت زمین پر ہونا چاہیے۔

خیر میں نے سوچا کہ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے کیا زمینی سطح پر جانا مناسب ہے جب کہ عوام ناچ بھی رہے ہیں تو میرا ساتھی فوراً بھانپ گیا اور کہنے لگا

”اینج تھلے نوں نہ ہو جائیں جے منی اسکرٹ آلی کڑیاں نے شیکیت لا دتی تے تینوں وڈ دین گے تے سانوں ایدروں کڈ دین گے“

ترجمہ یہ کہ اگر جامہ مختصر میں ملبوس حسیناؤں نے یہ دیکھا کہ ایک شخص ان کو زمینی سطح سے جانچنے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ بہت برا منائیں گی اور ناچ خانے کے رکھوالے اس شخص اور اس کے ساتھ آنے والوں کو نکال باہر کریں گے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ مسئلہ صرف زمینی سطح سے جانچنے کا ہے۔ چنانچہ میں نے کھڑے ہو کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک پرنالہ بہتا نظر آیا۔ ڈسکو میں پرنالہ دیکھ کر کافی عجیب لگا کہ شاید نکاسی آب کی یہ کوئی نئی قسم ہے۔ دوست کے ساتھ آئے ہوئے اس کے انکل سے اس بارے معلومات لیں تو انھوں نے کہا کہ بیٹا یہ نکاسی آب نہیں، نکاسی شراب ہے۔ میں نے دل میں توبہ کی اور آرائشی شراب کے پرنالے کے پاس کھڑے ہو کر ”حالات“ کی جانچ پڑتال کرنے لگا۔ مجھ پر بہت سے راز منکشف ہوئے۔ بڑا مزہ آیا۔

ناچے بغیر چھٹی نہیں ملنے والی تھی لہٰذا خاندان کی شادیوں میں کیے گئے کچھ مخصوص سٹیپس کا اعادہ کیا اور جان کو ہلکان کیا۔ اچھی خاصی ورزش ہو گئی۔ یہ راز بھی اس دن افشا ہوا کہ ناچ ناچ کر بھی وزن کم کیا جا سکتا ہے۔

پیاس لگ رہی تھی۔ دوست سے کہا کہ پانی مل جائے گا یہاں۔ کہنے لگا اس اجتماع میں کالا پانی ہی ملے گا یعنی کہ کوک۔ بس پھر دیکھا تو کاؤنٹر کے سامنے لمبی قطار تھی۔ میرے آگے ایک مہ جبیں اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے کھڑی تھی۔ رش بڑھتا جا رہا تھا۔ جلد ہی میرے پیچھے بھی بھیڑ جمع ہو گئی۔ میرا ساتھی مجھ سے دو حسینائیں پیچھے کھڑا تھا۔ تیز موسیقی میں قریباً چیختے ہوئے کہنے لگا، کے جے! قائم ہے؟ میں نے بھی چلا کر ہاں ہاں جواب دیا۔

دھکم پیل شروع ہو چکی تھی۔ زیادہ دھکم کے باوجود میں ”پیل“ کا دباؤ آگے جانے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بے سود۔ ہم دونوں دو ڈبل روٹیوں کے درمیان رکھے گوشت کے پارچے کی مانند سینڈوچ بن چکے تھے۔ میں اگلی دوشیزہ سے معذرت کی مسلسل اپیل کر رہا تھا اور پچھلی دوشیزہ کے بارے میں خدا سے دعا کہ وہ دوشیزہ ہی ہو۔ دعائیں رنگ لائیں، میں نے محسوس کیا کہ میرے پیچھے دوشیزہ ہی ہے۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ناروے قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اوسلو بہت پسند ہے۔ گرمیوں میں جانا ہوا تو وہاں کے ساحلوں کے بارے میں ”روح افزا“ رپورٹ ملی۔ بیان کرنے والے نے ”قدرتی حسن“ کے ایسے نظاروں کا تذکرہ کیا کہ خوشی سے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ہر شے میں قدرتی حسن یعنی مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ یوں سمجھیے کہ

”قدرتی“ ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا

چناں چہ چار پانچ ساتھیوں کی ٹیم تشکیل دی گئی اور موٹر بوٹ کرائے پر حاصل کر کے ایک جزیرے پر پہنچے۔ ہم اب تک مذاق سمجھ رہے تھے مگر وہاں واقعی یہ لکھا تھا کہ ”کپڑے پہننا منع ہے“ ۔ چوں کہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت ہم لوگوں کو پچپن سے تھی لہٰذا سب کو معلوم تھا کہ کون کتنے پانی میں ہے اس لیے زیادہ تر پانی میں ہی رہنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا۔ مکمل شباب اس ساحل پر کسی بم دھماکے کے بعد پھیلے ہوئے ملبے کی مانند پھیلا ہوا تھا۔ یعنی کوئی کونا کھدرا خالی نہ تھا۔

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک پتھر کی اوٹ سے ”کار خیر“ میں مبتلا ایک حسینہ کو دیکھ کر ساتھیوں میں سے ایک دل ہار بیٹھا۔ ابھی پیش رفت کے بارے میں فیصلہ بھی نہ ہو پایا تھا اور گفت و شنید جاری تھی کہ اسی اثناء میں اس دوشیزہ کے پاسبان کو تیغ بے نیام لیے ہم نے اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا۔ عاشقی کی گئی بھینس پانی میں اور ساتھ میں ہم سب نے بھی غوطہ لگایا اور دوسری جانب نکلے جہاں ایک پتھر پر اپنا مال متاع چھوڑ کر مشن پر نکلے تھے۔ غور کیا تو وہ جوان محض غسل آب کو نکلا تھا لیکن ہمارا جو ”تراہ“ نکلا تھا اس کے بعد ہم نے واپس لوٹنا مناسب سمجھا۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 41 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments