اکادمی ادبیات کی کانفرنس بچوں کا ادب، ماضی حال اور مستقبل


ارسطو نے ایک روز کمرہ جماعت میں اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس ایک ایسا کلیہ ہے جس کو اپلائی کیا جائے تو انسان پوری دنیا پر حکومت کر سکتا ہے، ارسطو کی یہ بات سن کر سکندر اعظم نے کھڑے ہو کر سوال کیا

استاد محترم کیا آپ کا جی نہیں چاہتا کہ آپ پوری دنیا پر حکومت کریں؟
ارسطو نے جواب دیا:
بیٹا یہ کلیہ میری سمجھ میں اس وقت آیا جب میں حکومت کرنے کی عمر سے گزر چکا تھا۔

خیر کلیہ کیا تھا۔ وہ اس نے بتا دیا اور سکندر اس پر عمل پیرا ہوا اور فتوحات کرتا ہوا آگے سے آگے بڑھتا گیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا گیا پیچھے نئی صوبے داریاں قائم ہوتی گئیں اور سکندر اعظم کے خلاف بغاوت شروع ہونے لگی۔ سکندر اس صورتحال سے پریشان ہوا اور اس کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنے ایک سالار کو ارسطو کے پاس بھیجا کہ استاد محترم سے اس کا حل لے کر آؤ اور جب تک وہ حل نہ بتائیں واپس نہیں آنا۔

سکندر کا وہ سپاہی گھوڑے کو بھگاتا ہوا، ارسطو کے پاس پہنچا۔ ارسطو کو احوال سے آگاہ کیا۔ اور سکندر کا پیغام پہنچایا لیکن ارسطو نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ غرض کئی ہفتے گزر گئے لیکن ارسطو نے سکندر کے سوال کا حل نہیں بتایا۔ وہ اپنی اکیڈمی جاتا۔ طلبہ سے بات چیت کرتا۔ شام کو آ کر اپنے باغ میں پودوں کی کاٹ چھانٹ کرتا، پانی دیتا اور کچھ لکھنے میں مشغول ہو جاتا۔ سکندر کا وہ سپاہی مایوس ہو کر واپس چلا آیا اور سکندر کو اس کی بے التفاتی کا سارا قصہ سنایا، سکندر نے اس سے پوچھا آخر تم کیا جواب لائے ہو۔ اس نے کہا:

ارسطو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سکندر کو بڑا تعجب ہوا کہ آپ جواب لیے بغیر واپس آ گئے۔ پھر پوچھا کہ آخر استاد کر کیا رہا تھا۔ سپاہی نے جواب دیا وہ جب بھی شام کے وقت باغ میں جاتا میں اس کے ساتھ ہو جاتا اور جب میں آپ کا سوال دہراتا تو ارسطو بڑے درختوں کی کانٹ چھانٹ کرتا اور چھوٹے پودوں کو مسکرا مسکرا کر پانی دیتا۔

سکندر اعظم یہ سن کر سمجھ گیا اسے پیغام مل چکا تھا کہ اگر تم نے اپنی ریاست کے اندر بہترین افراد درکار ہوں تو نئی پود کی بہترین ذہن سازی کرو۔ تمہیں کہیں بھی مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔

31 تا 2۔ نومبر 2022 ءاکادمی ادبیات پاکستان نے جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس ”بچوں کا ادب، ماضی، حال اور مستقبل“ کا انعقاد کیا۔ یہ کانفرنس اپنی نوعیت کی منفرد کانفرنس تھی۔ اس میں مصنفین، محققین اور بچوں کے ادب سے متعلق سب لوگ شامل تھے۔ اس کانفرنس میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا کہ پاکستان اور عالمی دنیا میں اس سے پہلے بچوں کے لیے کیسا ادب تخلیق کیا گیا، موجودہ دور میں کس طرح کا ادب تخلیق کیا جا رہا ہے اور آئندہ کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ہمارے بچوں کا ادب کیسا ہونا چاہیے علاوہ ازیں اس کے ابلاغ کے لیے کن ذرائع کا سہارا لینا ہو گا۔

اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے تقریباً ستائیس اجلاس منعقد ہوئے اور اس کا ہر اجلاس بھرپور تھا۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ کانفرنسز میں افتتاحی تقریب کے بعد لوگ غائب ہو جاتے ہیں لیکن ”اکادمی ادبیات کی اس کانفرنس کا کوئی اجلاس دلچسپی سے خالی نہیں تھا۔ ہر اجلاس میں بہترین مکالمہ ہوا، مقالات پڑھے گئے۔ سفارشات پیش کی گئیں اور اپنی نئی پود کی کردار سازی کے لیے بہترین ادب تخلیق کرنے کے لیے ہر پہلو سے جائزہ لیا گیا۔

کانفرنس کے انتظامات، مہمان نوازی، قیام و طعام کا ہر لحاظ سے بھرپور اور مثالی تھا۔ امید ہے کہ یہ کانفرنس ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہترین سنگ میل ثابت ہو گی۔

یاد رکھئے ادارے قائم ہو جاتے ہیں لیکن ان اداروں کو چلانے کے لیے مستعد اور اعلیٰ صلاحیتوں کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔

اکادمی ادبیات اور پاکستانی قوم کے لیے 4 مارچ 2020 ء کا دن بہت اہم تھا۔ اس روز ڈاکٹر یوسف خشک نے اکادمی ادبیات کا انتظام سنبھالا، یوں سمجھئے کہ پاکستانی قوم کی قسمت پلٹ گئی۔ اکثر لوگوں کا گماں ہے کہ لفظ خشک کی وجہ سے یہ شخصیت بہت خشک مزاج ہو گی تو عرض کرتا چلوں کہ ناموں کے اثرات شخصیات پر بہت کم ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر یوسف خشک کی شخصیت اسم با مسمیٰ ہے۔

لفظ یوسف عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوبصورتیاں جمع کرنے والا اور خشک ان کا قبیلہ ہے جو بلوچی زبان میں ”کشک“ کہلاتا ہے اور سندھ میں کثرت استعمال کے باعث ”خشک“ بولا جانے لگا۔ بلوچی زبان میں کشک کے معنی ایسے ہیرے کے ہیں جو دوسرے ہیروں کو تراشنے کے کام آتا ہے۔

ڈاکٹر یوسف خشک نے دنیا بھر کی تمام خوبصورتیاں اپنی شخصیت میں جمع کیں۔ پھر ان کو دوسروں میں تقسیم کیا۔ آپ نے زندگی کے جس شعبے میں بھی قدم رکھا اسے مثالی بنا دیا۔ جب سے اکادمی ادبیات کا انتظام سنبھالا ہے یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی بہتر ( 72 ) گونگی زبانوں کو قوت گویائی مل گئی ہے۔ آپ کے توسل سے پورے ملک کی ادبیات کی سرگرمیوں میں تحریک پیدا ہوئی۔ بہت سی زبانیں معدومیت کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ آپ نے ان علاقوں میں جا کر تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی اور ان میں ادب کی تخلیق کا عمل شروع ہوا۔ لوگ ان زبانوں کے ناموں سے ناآشنا ہو چکے تھے۔ آپ نے ان کا ادب متعارف کروایا۔

کوئی بھی زبان اگر ادبی جمود کا شکار ہو جائے تو اس کے معدوم ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ آپ کی کاوشوں سے اب یہ تمام زبانیں زندگی کی تمام رعنائیوں سے بہرہ ور ہو رہی ہیں۔

ڈاکٹر یوسف خشک نے بطور چئیر مین اکادمی ادبیات پاکستان چارج سنبھالا۔ آپ نے ملک کے دور دراز علاقوں کا دورہ کر کے بہت سی زبانوں کو جمود سے نکالا اور اب نہ صرف وہ زبانیں قوت گویائی سے بہر ور ہوئی ہیں بلکہ وہ اب بہترین شاعری کی صورت میں گنگنا بھی رہی ہیں۔

ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ اپنا نام بلند کرنے کے لیے، ساختیات، پس ساختیات، جدیدیت، یا مابعد الجدیت کے موضوع پر کانفرنس کروا کر ادبی فیشن ایبل طبقے کی توجہ حاصل کی جا سکتی تھی لیکن داد دینا پڑتی ہے آپ کے حسن انتخاب کو کہ

آپ نے گراس روٹ لیول پر جانے کا قصد کیا کہ ہمیں اس بارے میں دیکھنا ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہماری قوم کتابوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

فن پارے اپنے اندر کشش نہ ہونے کہ وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہے ہیں تو آپ نے اس کا علاج بچوں کے لیول سے شروع کیا جس طرح میں نے شروع میں ارسطو اور سکندر اعظم کی مثال دی ہے۔

یقیناً اس وقت اکادمی ادبیات اور پاکستانی ادب ایک سنہری دور سے گزر رہا ہے۔ حالیہ کانفرنس نے پوری دنیا میں اپنی توجہ حاصل کی اور اکادمی ادبیات کو مبارک باد کے اتنی اعلیٰ اور شاندار کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کی مبارک باد چیئرمین اکادمی ادبیات اور ان کی ٹیم کو جاتی ہے۔

اللہ کرے یہ ادارہ مزید ترقی کرے اور ڈاکٹر یوسف خشک جیسے رہنما ہر ادارے کو میسر آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments