امریکہ: مڈ ٹرم الیکشن میں مہنگائی اور معیشت عوام کے لیے سب سے اہم


امریکی انتخابات
امریکی ریاست اوہایو کے علاقے سرکل ویل میں موسم خزاں کی تقریبات کے آغاز کے لیے کدو کے سالانہ میلے کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اسے دنیا کا سب سے زبردست فری شو کہا جاتا ہے۔

اس سال، کچھ رہائشیوں اور ووٹروں کے ذہنوں پر 18 سو پاؤنڈ کدو سے زیادہ وزن والی واحد چیز زندگی گزارنے کی قیمت ہے۔

50 سالہ کیری سٹیفنز کا خیال ہے کہ معیشت ’برے حال‘ میں ہے۔

ان کے خیال میں واشنگٹن میں موجودہ ڈیموکریٹک قیادت کوئی پرواہ نہیں کرتی اور اوہایو کے عام لوگوں کو بھول چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈیموکریٹس غیر متعلقہ چیزوں کی پرواہ کرتے ہیں، مثال کے طور پر الیکٹرک کاروں کی طرف دھکیلنا جس کی وہ متحمل نہیں ہو سکتی ہیں۔

ملازمتوں کی تعداد میں زبردست اضافے اور اس حقیقت کے باوجود کہ مہنگائی کی وجوہات کسی کے قابو میں نہیں ہیں، وہ معیشت کے بارے میں اپنا موقف عام لوگوں تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔

جبکہ ریپبلکن پارٹی نے ان پر مسلسل حملے کیے ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس صورتحال نے ریپبلکنز کو فائدہ پہنچایا ہے۔

عوام کے لیے مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے

اوہائو ایک سوئنگ سٹیٹ ہوا کرتا تھا، یعنی ایسی ریاست جہاں کبھی ریپبلیکن تو کبھی ڈیموکریٹک پارٹی جیتتی رہی ہے۔  لیکن حالیہ برسوں میں یہاں دائیں بازو کی سوچ بڑھی ہے۔ یہ ریاست سنہ 2016 اور 2020 میں سابق صدر ٹرمپ کے پاس گئی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انھوں نے امریکہ میں مینوفیکچرنگ کی ملازمتیں واپس لانے کے وعدے کیے۔

مہنگائی یہاں اور قومی سطح پر ڈیموکریٹس کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ انتخابات سے تین ہفتے سے بھی کم عرصے قبل اے بی سی نیوز اور آئی پی ایس او ایس کے سروے کے مطابق زیادہ تر امریکی معیشت اور گیس کی قیمتوں کے حوالے سے ریپبلکنز پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔

مس سٹیفنز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ دکانوں پر انڈے کتنے میں فروخت ہو رہے ہیں۔ 18 انڈوں کی قیمت ساڑھے سات ڈالر سے بھی زیادہ ہے جو تین بچوں والے کسی بھی خاندان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ یہاں تک کہ ہم دونوں کے کام کرنے کے باوجود یہ ناقابل برداشت ہے۔‘

ان کا نظریاتی جھکاؤ قدامت پسندی کی طرف ہے لیکن وہ بتاتی ہیں کہ وہ صرف ایک پارٹی کو ہی ووٹ دینے پر یقین نہیں رکھتیں۔

دوسری طرف 59 سالہ جیروم فلپس نے سنہ 2020 میں صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کو ووٹ دیا۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ اس بار کس کو ووٹ دیں گے۔ جیروم نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ’ بدحال معیشت‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن کہا کہ مسٹر بائیڈن کی کارکردگی بھی اب تک  ’مکمل طور پر مایوس کن‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’صدر بائیڈن نے معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا، کچھ بھی نہیں۔‘  جیروم فلپس کا کہنا ہے کہ ’قیمتیں بڑھ رہی ہیں، آپ کھا نہیں سکتے۔ آپ کے پاس نوکریاں نہیں ہیں، لوگ کام نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ آپ کو تنخواہ نہیں دینا چاہتے جس کی وجہ سے لوگوں کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔‘

غیرجانبدار تحقیقی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے وسط اکتوبر کے سروے کے مطابق امریکیوں کو مہنگائی پر سب سے زیادہ تشویش تھی۔ تقریباً تین چوتھائی جواب دہندگان خوراک اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے بارے میں فکر مند تھے۔ اس کے بعد پٹرول، توانائی اور مکانات کی قیمتوں پر غور کیا گیا۔

پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام خدشات مختلف آبادیوں اور آمدنی کے لحاظ سے مختلف طبقات میں وسیع پیمانے پر پائے گئے۔ اگرچہ سروے کے جوابات میں کسی حد تک متعصبانہ جھکاؤ تھا پھر بھی ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں کی ایک بڑی اکثریت نے کہا کہ وہ افراط زر کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ ڈیموکریٹس میں یہ تعداد 66 فیصد جبکہ ریپبلکن میں 81 فیصد تھی۔

امریکی انتخابات

انتخابی مہم میں معیشت سب سے بڑا موضوع

صدر بائیڈن نے اپنی فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کی سوچ اور تجربات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔  انھوں نے ایک ایسی معیشت کی بات کی ہے جو ’نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے کا ملاپ ہو‘۔  انھوں نے ہر ایک کے لیے ایک بہتر امریکہ کی تعمیر کا تصور سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے ایک حالیہ پروگرام میں انھوں نے خبردار کیا کہ ریپبلکن امریکی معیشت میں افراتفری کا باعث بنیں گے اور وہ ’اپنی معاشی حکمت عملی پر تیزی سے عمل کریں جس سے صرف امیروں کو فائدہ ہوتا ہے۔‘

ڈیموکریٹس نے مسٹر بائیڈن کے ریکارڈ کا دفاع کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مہنگائی ایک عالمی رجحان ہے اور وبائی امراض کے باوجود روزگار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی معیشت نے اکتوبر میں دو لاکھ اکسٹھ ہزار ملازمتوں کا اضافہ کیا۔ اس طرح صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نئی ملازمتوں کی کل تعداد 10 ملین سے زیادہ ہو گئی۔ یہ تعداد اس سے زیادہ ہے جو دوسرے صدور نے اپنے پہلے 20 مہینوں میں دیکھی۔

بہر حال، ڈیموکریٹس کی مختلف ’کامیابیاں‘ ووٹرز مہینوں یا برسوں تک یاد نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32465 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments