اف یہ بیویاں


بیوی کا شکوہ: شادی سے پہلے جو لڑکی ہیر کی طرح سوہنی، کھیر کی لذیذ اور پنیر کی طرح نمکین لگتی ہے، شادی کے بعد وہی عورت چبھن میں تیر، وعدوں میں سیاسی وزیر اور مقام مرتبے میں مسند دراز جعلی پیر مانند کیوں نظر آنے لگتی ہیں؟ شادی سے پہلے میری آواز کوئل کی طرح، چال مور کی طرح، گردن صراحی کی مانند اور آنکھیں غزال کے جیسی تھیں تو شادی کے بعد میری وہی آواز میرے شوہر کو باس کے بلاوے اور میری غزالی آنکھیں جاسوسی کے خفیہ کیمرے کیوں لگنے لگے ہیں؟ میری مورنی جیسی چال سے اس کی نیند خراب کیوں ہو جاتی ہے؟ ہاشو شکاری کا کہنا ہے کہ شوہر اور منگیتر میں بنیادی فرق ہی یہی ہے۔

شوہر کا شکوہ : انھیں منگیتر کا سجنا سنورنا اچھا لگتا ہے لیکن شوہر کا ”خوشبو لگا“ کر باہر جانا گڑبڑ لگتا ہے۔ منگیتر کے فون کی ہر گھنٹی ان کے دل کی تاریں چھڑتی ہے لیکن شوہر کے فون کا سائیلنٹ موڈ پر ہونا بھی معاملے کو مشکوک بناتا ہے۔ منگیتر کا رات گئے تک فون سے چمٹے رہنا اچھا لگتا ہے لیکن شوہر کا رات کو فون دیکھنا بھی گڑبڑ کھٹالا لگتا ہے۔ ہاشو شکاری کا کہنا ہے کہ بیوی گھڑی کی مانند ہوتی ہے۔ گھڑی کی ٹک ٹک اور بیوی کی چخ چخ دونوں ہی گھر میں خاموشی کو تار تار کرتی رہتی ہیں۔

گھڑی کو چلتے رہنے کے لیے سیل جبکہ بیوی کو سیلری چاہیے ہوتی ہے لیکن ہاشو شکاری کا کہنا ہے کہ یہ فضول بات ہے کہ کیونکہ سیلری سے وہ گھر تو شوہر کا ہی چلاتی ہے۔ گھڑی کی ہر سوئی کا سرا گھوم پھر کر واپس اپنی جگہ آ جاتا ہے لیکن اگر بیوی کا سر گھوم جائے تو پورا محلہ گھوم جاتا ہے۔ ہاشو شکاری اس نقطے سے بھی اتفاق نہیں کرتا۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک گھڑی کی تینوں سوئیاں بڑی ترتیب سے آگے پیچھے چلتی ہیں اور کبھی ان میں رفتار یا ایک دوسرے کو ”کراس“ کرنے کے معاملے پر جھگڑا نہیں ہوا لیکن ایک گھر میں تین بیویوں میں ایسا حسین اتفاق ممکن نہیں۔

ہاشو شکاری کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں مطلقاً بیویوں کا قصور نہیں ہے کیونکہ بیوی شوہر کے مزاج کے تابع ہوتی ہے۔ وہ بیچاریاں لڑتی بھی ہیں تو اپنے شوہر کے مزاج اور پیشے کو مدنظر رکھتی ہے۔ مثلاً لڑائی کے دوران بیویوں کے کچھ مشہور ’ایٹم بم ”ملاحظہ فرمائیں۔ مفتی صاحب کی بیوی : آپ چپ رہیں۔ آپ سے کسی نے فتویٰ نہیں لیا۔ استاذ کی بیوی:اجی سنیے یہ گھر ہے گھر، آپ کا سکول نہیں اور نہ ہی میں آپ کی پریپ کلاس کی کوئی سٹوڈنٹ۔

پولیس والے کی بیوی: جناب میرا گھر آپ کا تھانا نہیں ہے کہ آپ کی دفع فلاں فلاں چل پائے گی۔ یہاں آپ کی ہر دفع فوراً دفعان کر دوں گی اور بھائیوں سے چھترول الگ سے ہو گی۔ جج کی بیوی: آئین کی کسی شق کو مجھ پر لاگو کر کے قصوروار ٹھہرانے کا تردد مت کریں کہ میں خود صدر خانہ ہوں جس کے پاس کسی بھی سزا کو معاف کرنے کا کلی اختیار ہے۔ مولوی کی بیوی: چپ کریں گے یا ابھی پڑھوں تمھارا ختم؟ امام مسجد کی بیوی: میں مقتدی نہیں بیوی ہوں۔

حرکت کے اتباع کی بجائے ہر ہر حرکت کا پیچھا کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ ڈرائیو کی بیوی: مجھے اپنی گاڑی سمجھا ہے کیا کہ گیئر تیرا ہو گا اور رفتار میری؟ میری رفتار میری مرضی۔ وکیل کی بیوی:مجھے پینو کا مقدمہ پڑھنے کی بجائے تجھے چھنو کا مقدمہ پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔ شاعر کی بیوی:کیا کہا؟ میری باتیں بے تکی ہیں! میں ناں، کسی تیری ساری بحریں اٹھا کر بحیرہ عرب میں ڈال دوں گی۔ انجینئر کی بیوی:جس دن میں اپنی پر آئی ناں تو خود تیرا نقشہ بدل جائے گا۔

فوجی افسر کی بیوی: میں بیوی ہوں بیوی، تیری“ بٹ میں‘ نہیں کہ ہر اشارے پر یس سر یس سر کہتی رہوں۔ فزیکل انسٹرکٹر کی بیوی: اپنی سیٹی اپنی جیب میں رکھ۔ میں کوئی ”رنگروٹ“ نہیں کہ تیری سیٹی پر ناچتی پھروں۔ پائلٹ کی بیوی: اتنا اونچا اڑنے کی ضرورت نہیں جس دن میں نے ڈور کھینچی ناں تو ”پیرا شوٹ“ بھی کام نہیں آنا۔ رنگ ساز کی بیوی: رنگ میں بھنگ مت ڈال ورنہ تیرے سارے اتار کر ناں زمانے کو تیرا اصلی رنگ دکھا دوں گی۔ حکیم کی بیوی: جائیے حکیم صاحب بنائیے کسی اور کو ، میں تو آپ کی ساری نبضیں جانتی ہوں۔ ڈاکٹر کی بیوی: سیدھا ہی چلنا میرے پاس ایک اور نسخہ بھی ہے۔ ڈینٹسٹ کی بیوی: بتیسی چاہیے یا۔ ؟ آخر میں میرا تازہ کلام بعنوان ”اف یہ بیویاں“ ملاحظہ فرمائیں :

جو گھومن کا بولوں تو اونچی اڑانن
مگر اس کو کاموں سے ہووے تھکانن
وہ قاضی نے پوچھا کہ دلہن قبولن؟
یہ جھٹ سے میں بولا قبولن قبولن
میں شادی کو سمجھا تھا میوہ لذیذن
مگر اب لگے ہے اجیرن اجیرن
محبت کی وہ آنچ بیگم نے دی ہے
کلیجہ میرا بن گیا ہے کبابن
میں بولا مری جاں اگر تو کہے تو
میں چندا ستاروں کا کر لوں شکارن
وہ بولی نہ توڑو یہ چندا ستارے
مرے ہاتھ رکھ دو بس اک دو کر وڑن
بڑی کاٹ تلوار رکھتی ہے کوثر
مگر اس سے تیزن ہے اس کی زبانن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments