عوام کا کیا قصور


گزشتہ 75 سالوں میں پاکستانیوں کو چند سیاسی فقرات زبانی یاد ہو چکے ہیں۔ پاکستان کو بے پناہ اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان مسائل میں گھر چکا ہے۔ ہر پاکستانی پر اتنے لاکھ کا قرضہ چڑھ چکا ہے۔ یہ سال مشکل ہے اگلا سال آسان ہو گا۔ پچھلی حکومت نے ہمارے لئے کچھ نہیں۔ چھوڑا فلاں نے بہت کرپشن کی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بغیر ہم نہیں چل سکتے۔ عوام کو دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں دوست ممالک کا ساتھ چاہیے۔

عوام کی خوشحالی کے لیے دن رات ایک کر دیں گے۔ یہ وہ سیاسی فقرات ہیں جو ہر پاکستانی سنتا آیا ہے۔ کسی نے اس کو سنگاپور بنانے کی کوشش کی اور کچھ نے ایشین ٹائیگر بنانے کا کہا مگر سب کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ میں اکثر لوگوں کو ملیشیا کی مثال دیتا ہوں وہ ہم سے دس سال بعد آزاد ہوا وہ پنجاب کا چوتھا حصہ ہے۔ چھوٹا سا ملک ہے۔ پام آئل کے علاوہ اور کچھ نہیں مگر کوالالمپور سے لے کر جے بی تک سفر کریں آپ کی آنکھیں تھک جائیں گی مگر انڈسٹری ختم نہیں ہوگی۔

کرونا کے دوران بھی وہاں پر کسی بھی چیز کی قیمتیں نہیں بڑھی۔ عوام کے لئے بے پناہ سہولیات موجود ہیں۔ لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہاں پر جس کے پاس جو اختیار ہے وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پاکستان کی خوشحالی یا تعمیر و ترقی سے کسی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہاں پر حکمران آتے ہیں اور اپنے اثاثے بڑھاتے ہیں۔ اپنے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔ اپنے لئے مراعات رکھتے ہیں۔

مفاد عامہ کے لیے کوئی بل اسمبلی میں آ جائے تو اس کو پیشی نہیں کیا جاتا عوام کے لیے ہمیشہ ان کا خزانہ خالی رہتا ہے۔ جب کہ اپنے لیے ان کے پاس صوابدیدی اختیارات بھی ہوتے ہیں پہلے توان پر کوئی ہاتھ ڈال ہی نہیں سکتا اگر غلطی سے ایف آئی آر ہو جائے تو یہ فوراً بیمار ہو جاتے ہیں۔ اور ان کا میڈیکل ٹیسٹ اسٹارٹ ہو جاتا ہے۔ ان کی سکیورٹی پر لاکھوں کروڑوں روپے عوام کے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔ جب کہ اگر کوئی بھوکا شہری اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی تندور سے دو روٹی چوری کر لے اس کی جان بخشی نہیں ہوتی۔

آپ پاکستانی جیلوں کا جائزہ لیں تو آپ کو حیرانی ہوگی وہاں پر کئی سال سے غریب پاکستانی شہری انتہائی بری حالت میں موجود ہیں۔ ان کا قصور صرف اتنا ہے وہ غریب ہیں ایسا خیال آتا ہے جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان غریبوں کے لئے نہیں صرف امیروں کے لیے بنایا گیا تھا اگر ایک غریب شہری اپنی بیٹی کی شادی کے لئے پچاس ساٹھ ہزار کا قرضہ لینا چاہتا ہے تو مالیاتی اداروں کی اتنی کڑی شرائط ہیں۔ جو اس کے لیے پوری کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

جبکہ دوسری طرف پورے پورے بینک لوٹنے والے ارباب اختیار بنے ہوئے ہیں وہ اربوں روپے قرض لیتے ہیں اور اقتدار میں آ کر معاف کرا لیتے ہیں۔ ان کے لیے نئے قوانین متعارف کرا دیے جاتے ہیں۔ ان کے کروڑوں روپے کے ٹیکس معاف کر دیے جاتے ہیں۔ کیا قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ وطن اسی لیے حاصل کیا تھا۔ یہاں پر غریب انسان کا جینا مشکل ہو چکا ہے یہاں پر ہر صبح ایک نیا ڈرامہ شروع ہو جاتا ہے۔ سب سب لوگ کرسی کے حصول کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

عوام کا کوئی پرسان حال نہیں صوبائی حکومتیں دیکھنے یا وفاقی حکومت وزیروں مشیروں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جبکہ وطن کی کیا حالت ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ غریب انسان کے لئے شام کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو چکا ہے۔ مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے سفید پوش طبقہ بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ گھریلو بجٹ میں کٹ لگا لگا کر گزارا کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بری خبریں آ رہی ہیں کیا 75 سالوں میں ملک کو آج اس سطح پر ہونا چاہیے تھا کوئی ایک ادارہ بتا دیں جس کو آپ کہہ سکتے ہیں وہ ٹھیک چل رہا ہے۔

سب اس ملک کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں جیسے یہ ہمارا وطن نہ ہو۔ جیسے یہ کوئی دشمن ملک ہو۔ عوام کا ان نام نہاد رہنماؤں اور اس جھوٹے نظام سے دل اچاٹ ہو چکا ہے۔ آپ غور کیجئے حال ہی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے اس میں اکثریتی عوام نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ میں اکثر سوچتا ہوں اگرچہ برصغیر کے لوگ کسی انقلاب کے لئے تیار تو نہیں ہوتے لیکن اب ان حکمرانوں نے حالات یہاں تک پہنچا دیے ہیں کہیں عوام اپنے تمام فیصلے سڑکوں پر نہ کرنا شروع کر دیں۔ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیے جو شخص اپنے بچوں کو بھوک اور افلاس کی وجہ سے قتل کر سکتا ہے۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے نام نہاد حکمرانوں کو اس وقت سے پہلے توبہ کر لینی چاہیے اور یہ سوچ لینا چاہیے بہت مزے کر لئے بہت پاکستان کو لوٹ لیا۔ بس اب پاکستان کی خدمت کرنی ہے۔

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments