9 نومبر اور ملت کشمیر کا گناہ


غلامی کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ علامہ اقبال نے غلامی کی قباحت کو اس طرح سے بیان کیا ہے۔
آدم از بے بصری بند گئی آدم کرد
بے بصیرتی کی وجہ سے انسان نے انسان کی غلامی کی
گوہرے داشت ولے نذر قباد و جم کرد
اس نے گوہر آزادی کو عیش و نوش کی نذر کر دیا
یعنی از خوئے غلامی زسگان خوار تر است
یعنی غلامی کی عادت میں مبتلا انسان کتوں سے بھی زیادہ حقیر ہے
من ندیدم کہ سگے پیش سگے سر خم کرد
میں نے کبھی کتے کو کسی دوسرے کتے کی غلامی کرتے نہیں دیکھا

بنیادی طور پر غلامی دو طرح کی ہوتی ہے۔ حکومت، فوج، پولیس اور بیوروکریسی کے ساتھ نافذ کی جانے والی روایتی غلامی اور تعلیم، ادب، ثقافت، صحافت، اور فنون لطیفہ سے رائج کی جانے والی غیر روایتی غلامی۔ ایک غیور انسان کے لئے ہر طرح کی غلامی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ تاہم غلاموں کی بھی دو اقسام ہیں۔ کچھ روایتی غلام ہوتے ہیں اور کچھ غیر روایتی غلام۔ غیر روایتی غلام کو اپنی غلامی کا شعور ہی نہیں ہوتا چونکہ اسے فوج و پولیس کے بجائے تعلیم، ادب، ثقافت، صحافت، اور فنون لطیفہ کی وساطت سے غلام بنایا جاتا ہے۔

یہی غیر روایتی غلامی در اصل غلامی کی بدترین شکل ہے۔ عصر حاضر میں اقبالؒ نے انسانوں پر مسلط اسی غیر روایتی غلامی کا احساس کیا۔ یہ اقبال کی ایک بہت بڑی دریافت تھی۔ یہ دریافت ہمیں بتاتی ہے کہ اگر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کو دبانے نیز انہیں اپنا محکوم اور غلام بنانے کاجذبہ نہ ہوتا تو بلاشبہ آج کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کا غلام نہ ہوتا۔ اسی طرح اگر انسانوں میں سے کچھ لوگ لالچی، حریص، سست اور کاہل نہ ہوتے تو تب بھی کوئی کسی کی غلامی کو قبول نہ کرتا۔

علامہ اقبال ؒ کو آپ جو مرضی ہے کہہ لیں۔ انہیں شاعر، صوفی، عارف، مجذوب، اور ایک دانشور سے لے کر کافر، مشرک، بدعقیدہ وغیرہ بھی تو کہا گیا ہے۔ یہ بھی آپ کی مرضی ہے کہ ان کا یوم وفات منائیں یا نہ منائیں۔ بہر حال اس حقیقت سے آپ انکار نہیں کر سکتے کہ اقبالؒ کی اس دریافت نے صرف پاکستان کے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے انسانوں کو متاثر کیا ہے۔ متاخرین میں متاثرین کی تعداد کے اعتبار سے اقبال کا کوئی بھی حریف نہیں۔ دنیا انہیں ایک انقلابی رہنما، سیاسی رہبر، عظیم فلسفی اور اعلی ٰ و ارفع شاعر کے طور پر تسلیم کرتی ہے لیکن اقبال کی حقیقی اور جامع شناخت غیر روایتی غلامی کی دریافت اور اس کے خلاف مزاحمت ہے۔

غیر روایتی غلامی کے خلاف اقبال کی نظریاتی ضوفشانی کسی جغرافیے، ملک، نسل، قوم، قبیلے یا دین و مسلک تک محدود نہیں۔ یہ جان کر شاید آپ کو تعجب ہو گا کہ وہ اقبال ؒ جس کے انقلابی افکار کا غیر روایتی غلامی کے خلاف ڈنکا ساری دنیا میں بجتا ہے، خود اس کا اپنا وطن کشمیر کئی نسلوں سے غلام ہے۔ تعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ صرف اقبال ؒ کا وطن ہی نہیں بلکہ حضرت امام خمینیؒ جیسی انقلابی شخصیت کا وطن بھی کشمیر ہی ہے۔ حضرت علامہ اقبال ؒ اور حضرت امام خمینیؒ کی قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں نے انسانوں کو غیر روایتی غلامی کے خلاف بیدار کیا ہے۔ اگر ایک طرف علامہ اقبال ؒ غیر روایتی غلاموں کو مخاطب کر کے یہ کہتے ہیں کہ

یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو۔ مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں

تو دوسری طرف حضرت امام خمینی ؒ بھی یہ اعلان کرتے ہیں کہ ”اگر ما از نظر فکری مستقل باشیم آنھا چگونہ می توانند بہ ما ضربہ بزنند“ اگر ہم فکری طور پر آزاد ہوں تو پھر وہ ہمیں کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں ”

حضرت علامہ اقبال اور حضرت امام خمینی کی اس فکری بیداری کی تحریک نے دنیا میں دو بڑے اور نمایاں انقلاب برپا کیے ، ایک تشکیل پاکستان کہلایا اور دوسرا ایران میں اسلامی انقلاب کے نام سے مشہور ہوا لیکن ان دونوں شخصیات کی مادر وطن ”کشمیر“ آج بھی روایتی ”غلامی میں مبتلا ہے۔ یہ روایتی غلامی مکمل طور پر ایک پولیٹیکل جبر کی صورت میں مقبوضہ کشمیر میں نافذ ہے۔ تاہم کشمیریوں کی خوش بختی یہ ہے کہ وہ غیر روایتی غلامی کے شکار نہیں ہیں۔

جبر و استبداد کے باوجود انہوں نے اپنے ادب، صحافت، منبر، ثقافت اور تمدن کے اندر غلامی کے خلاف جد و جہد کو ختم نہیں ہونے دیا۔ وہ روایتی غلامی کے اس تاریک عہد میں کسی بھی لمحے، غلامی پر رضامند نہیں ہوئے۔ غلامی پر رضا مند نہ ہونا یعنی بیداری۔ یعنی ابھی کشمیریوں کا ادب، تمدن، منبر، قلم اور دماغ بیدار ہے۔ یہی بیداری وہ بیداری ہے جو اقبالؒ اور خمینیؒ کے افکار سے پھوٹتی ہے۔ ان افکار کی آج سب سے زیادہ ضرورت خود کشمیریوں کو ہے۔

کشمیریوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ فرزندان کشمیر ﴿اقبالؒ و خمینیؒ﴾کے افکار و نظریات کا کشمیر میں احیا کریں۔ بحیثیت کشمیری اور بحیثیت مسلمان، اس وقت کشمیریوں کا فرزندان کشمیر ﴿اقبالؒ و خمینیؒ﴾ کے افکار و نظریات سے منہ پھیرنا، غافل رہنا، مطالعہ نہ کرنا اور نسل در نسل ان نظریات کو آگے منتقل نہ کرنا، کشمیریوں کے لئے ایک ملی گناہ ہے۔ افراد کے گناہوں اور کسی ملت کے گناہوں میں فرق ہوتا ہے۔ بقول اقبال:

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments