مسلم لیگ (ن) اور ووٹ کو عزت دو


پاکستان آزادی کے بعد سے سیاسی، داخلی و خارجی کشمکش سے دو چار رہا ہے، یہاں آسمان سیاست پر ہمیشہ غیر یقینی کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں، جمہوریت جو جہاں بھر میں کاروبار مملکت کے حوالے سے ایک آزمودہ، پائیدار اور کامیاب بندوبست گردانا جاتا ہے، اس جمہوریت سے بھی یہاں وہ ثمرات عوام تک منتقل نہیں ہو سکے، وجہ صاف اور عیاں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ آمیزش زدہ رہی۔ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بڑی بڑی تحریکیں چلی ہیں لیکن مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے، بڑی وجہ اس کی یہ ہے کہ ان تحریکوں میں اگر چہ پنجاب شامل تھا لیکن اسے وہ قیادت میسر نہ تھی جن کا یقین خالص جمہوریت پر ہوں۔ یہاں کے بڑی جماعتوں سے وابستہ رہنما اکثر ایسے مواقع کو اقتدار تک رسائی کا ذریعہ سمجھتے رہے اور قربانی خواہ کسی اور صوبے سے متعلق کارکنوں و رہنماؤں نے ہی کیوں نہ دی ہو لیکن اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر فیض اہل پنجاب ہی پاتے رہتے ہیں۔

جون 1978 میں بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں جہاندیدہ سیاستدان ولی خان نے کہا تھا ”جب تک پنجاب مقامی لیڈر پیدا نہیں کر لیتا پاکستان کی سیاست میں توازن قائم نہیں ہو سکتا، پنجاب کی اپنی قیادت ہوگی تو نہ تو وہ کسی آمر کو پنجاب کی طاقت استعمال کرنے دے گی اور نہ وہ کسی آمر کو ایسی اجازت دے گی جس سے پنجاب کی جمہوری قیادت کو کمزور کیا جا سکے، ظاہر ہے جب جمہوریت مضبوط ہو گی تو اس سے چھوٹے صوبوں کے ان حقوق کا تحفظ ممکن ہو گا جو شخصی آمریتوں میں پامال ہوتے رہتے ہیں“

پاکستانی عوام کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ گورے انگریز سے تو انہوں نے آزادی حاصل کر لی لیکن ان کے تنخواہ دار کالے انگریزوں کے وہ تا حال غلام ہیں۔ یہ سلسلہ بیوروکریسی سے شروع ہوتے ہوئے آمروں اور موقع پرست نام نہاد جمہوریت پسندوں تک پہنچتا ہے۔ 1947 سے قبل بھی ہم طاقت کے غلام تھے اور گزشتہ سات دہائیوں سے بھی ہم محض طاقت کے ہی غلام چلے آرہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تقسیم سے قبل ہم سفید چمڑی والوں کے غلام تھے جن کی کچھ تہذیبی، ایٔں نی اور جمہوری اقدار تھیں جبکہ 47 کے بعد جس طاقتور کی غلامی و سیاہی کے شکنجے میں ہم جکڑے گئے ہیں اسے معلوم ہی نہیں کہ اقدار اور حریت فکر کون سی بلائیں ہیں

پاکستان کا اصل ہیرو، مسیحا یا قومی قائد وہ شخص کہلائے گا جو غلام عوام کو غلامی کی ان بوجھل زنجیروں سے آزاد کروائے گا، اس کے طاقت کا اصل سرچشمہ کوئی اور نہیں اس ملک کے بائیس کروڑ پبلک ہوگی، آئین اور اس کو تشکیل دینے والی پارلیمنٹ جو عوامی امنگوں کا ترجمان اصل مقتدرہ ادارہ ہے اس کے لیے مقدس رہے گا۔

2017 میں وزیراعظم نواز شریف کے نا اہلی سے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسی تحریک نے اٹھان لی جس کے سیادت بھی پنجاب سے تھی اور پنجاب ہی اس تحریک کا قائد تھا۔ تحریک کا بیانیہ ”ووٹ کو عزت دو“ تھا جس کی عرفیت ”سویلین بالادستی“ تھی۔ جن ناموافق حالات میں اس بیانیے نے جنم لیا اور جس طرح کے مصائب و آلام کا سامنا کیا، بلاشبہ ان کٹھن حالات میں جینا بھی دشوار تھا لیکن ”ووٹ کو عزت دو“ نامی بیانیہ نے توقع سے بڑھ کر مزاحمت کی۔

تحریک کے قافلے میں شامل کیٔ مسافر مسافتوں سے تھک کر چور ہوئے، بعض کی ہمت آزمائش کی گھاٹیوں میں جواب دے گئی، خود قائد تحریک نواز شریف کی صحت اڈیالہ جیل میں تشویشناک حد تک گر گئی۔ اس وقت قائد تحریک اور اس کی دختر مریم نواز عوامی مقبولیت کی معراج پر تھیں۔ این اے۔ 120 پر محترمہ کلثوم نواز ( مرحومہ) کے الیکشن سے لے کر 2018 کی جنرل الیکشن تک، عمران خان کے دور حکومت میں اکثر ضمنی انتخابات سے لے کر مشہور زمانہ ڈسکہ الیکشن تک طاقتور ریاستی اداروں کے ہتھکنڈوں کے باوجود مسلم لیگ ( ن ) نے اپنی عوامی مقبولیت برقرار رکھی۔

اس وقت ایک سوالیہ نشان یہ تھا کہ یہ رہنما اپنی اس عوامی مقبولیت کو حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے بروئے کار لانے کا کس قدر جوہر رکھتے ہیں اور کب تک یہ برقرار رکھ سے گی؟ اور ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ کس حد تک نظریاتی، کتنا ذاتی اور کس حد تک مالیاتی ثابت ہو گا؟

اوائل 2020 میں سروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی، اور موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ہائیکورٹ کے جونیئر ججز کی اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی میں چیلنج درپیش یہ تھا کہ قائد تحریک مقبول عام فیصلہ کر کے اپنا راہ کھوٹی کرے یا پھر غیر مقبول فیصلہ کر کے اپنے بیانیے کی قربانی دے کر صفیں درست کرنے کے لئے مہلت حاصل کر لیں۔ قائد تحریک نے اپنے بیانیے کی قربانی دے کر طاقتوروں کا ساتھ دے کر کسی اور دن لڑنے کے لئے زندگی بچا کر رکھنے کے فلسفے پر عمل کیا۔ بقول نامور صحافی مظہر عباس صاحب ”شریفوں نے سیاست کو کاروبار بنایا اور شریفوں کی سیاست ہمیشہ نفع و نقصان کی رہی ہے۔ سیاست میں کاروباری لوگوں کو لائیں گے تو وہ کاروبار ہی کریں گے۔ حیرت صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو نظریاتی کیسے کہتے ہیں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments