دی لیجنڈ آف مولا جٹ اور دی ریٹرن آف پنجابی فلم


فلم بنانا بظاہر آسان کام نظر آتا ہے کیوں کہ شائقین اسے مکمل ہونے کے بعد دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس کے بننے کے سفر سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ہر فلم کے بننے میں سینکڑوں اور بعض دفعہ ہزاروں افراد اور کئی ماہ و سال لگ جاتے ہیں۔ جس میں اداکار، تخلیق کار، گلوکار، موسیقی کار، ایکشن ڈائریکٹر، کیمرہ مین، ڈانس ڈائریکٹر، کہانی کار، شاعر، سیٹ ڈیزائنر، میک اپ آرٹسٹ، آرٹ ڈیزائنر، پروڈکشن ٹیم، ایکسٹراز اور پروڈیوسر وغیرہ کی انتھک محنت، لگن، اپنے کام سے سمجھ بوجھ، تحقیق، صبر، برداشت، چستی اور وقت درکار ہوتا ہے۔ فلم میکنگ میں جو سستی کا مظاہرہ کرے گا، وہ ناکام ہو جائے گا۔ بقول فرینک کیپرا

”فلم سازی میں کوئی اصول نہیں ہیں۔ صرف گناہ۔ اور بنیادی گناہ سستی ہے۔“

فلم بنانے کے لحاظ سے تاریخی فلم بنانا سب سے مشکل اور مہنگا کام ہے۔ جس میں مہارت دکھانے کے لیے افراد کی ہنر مندی، تحقیق کے ساتھ ساتھ بہت سا وقت درکار ہوتا ہے۔ آپ بولی وڈ فلم انڈسٹری کا سروے کر کے دیکھ لیں۔ تمام پیریڈ فلموں کے بننے میں کتنا سرمایہ اور وقت لگا مثلاً مغل اعظم ( 1960۔ 1944 ) ، پاکیزہ ( 1971۔ 1956 ) ، لگان ( 2001۔ 1996 ) وغیرہ۔

مغل اعظم جسے بننے میں سولہ سال لگے۔ ایک جنگ کے منظر میں فوج دکھانی تھی۔ جس کا اسکرین پر دورانیہ چند منٹ بھی نہ ہو گا، مگر ہزاروں فوجیوں کو ایک شاٹ میں دکھانا، دیکھنے والے کے لیے ایک معمولی سے بات ہو سکتی ہے، مگر فلم میکر کو حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ہزاروں افراد کے ساز و سامان کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً اسلحہ، یونیفارم وغیرہ۔ جسے آصف کریم المعروف کے۔ آصف جو مغل اعظم بنا رہے تھے، اس نے بندوبست کیا۔ انہوں نے برصغیر سے ہزاروں لوہاروں کو صرف اس لیے اکٹھا کیا کہ ان سے فوج کے ہیلمٹ بنوانے تھے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ چند منٹوں کے منظر پر کتنا پیسہ اور وقت لگا ہو گا۔

رابرٹ روڈ ریگوز (Robert Rodriguez) نے مذکورہ بات کو خوب صورتی سے ایک مصرعے میں قید کیا: ”جب موقع دیا جائے تو کمال کا مظاہرہ کریں اور کبھی دستبردار نہ ہوں۔“ دی لیجنڈ آف مولا جٹ کی ٹیم نے رابرٹ کی بات کو پلے باندھا اور تاریخ رقم کردی۔

بلال لاشاری نے ”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ کی کہانی کو فلماتے ہوئے کمرشل ازم اور جلد بازی کی بجائے لیجنڈری بولی وڈ فلم میکرز وی۔ شانتا رام ( 1990۔ 1901 ) ، بمل رائے ( 1966۔ 1909 ) ، کمال امروہوی ( 1993۔ 1918 ) ، کے آصف ( 1971۔ 1922 ) ، گرو دت ( 1964۔ 1925 ) ، کے رستے کو چنا اور لولی وڈ کی تاریخ میں امر ہو گئے۔

دوسری طرف جنہوں نے کمرشل ازم کے لیے فلم کی روح کو مجروح کیا۔ وہ سبھی سوشل میڈیا کے اس ظالم دور میں اپنا اسٹارڈم کھوتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے ایک بات تو سامنے آئی کہ اس سرمایہ دارانہ دور کی بھاگم بھاگ میں کسی کام کو اس کی اصل روح کو مد نظر رکھ کر کیا جائے تو عوام اسے پذیرائی ضرور بخشتی ہے۔ بلال لاشاری نے بولڈ قدم اٹھاتے ہوئے فلمی سوڈو انٹلیکچوئل کی مخالفت کے باوجود لولی وڈ کی بجٹ کے لحاظ سے سب سے مہنگی فلم کو ریاستی زبان کی بجائے عوامی زبان پنجابی میں بنانے کا انتخاب کیا اور یوں مشہور مقولہ سچ ثابت کر دیا کہ ”قسمت بہادروں کا ساتھ دیتی ہے“ ۔

ہدایت کار نے ناصر ادیب کی کہانی کو جدید تکنیک کی مدد سے عمدگی کے ساتھ فلمایا ہے۔ انہوں نے دو خاندانوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کو موضوع بنایا۔ صرف اسی پلاٹ پر ساری فلم بنائی۔ اس فلم کی خوب صورتی اسی شے میں پنہاں ہے۔ آپ اس دشمنی کی شدت، بدلے کی آگ، مظلومیت پر ترس، رشتے داروں کا اپنے مفاد کے لیے دشمن کی مدد کرنے کا جذبہ وغیرہ فلم دیکھتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ ظلم و جبر والے مناظر سے شائقین خوف کے ساتھ کانپتے ہیں، انسانی بے بسی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ایک عام اعتراض جو مجھ سے پہلے دیکھنے والوں نے کیا کہ ساری فلم خون خرابے پر مبنی ہے تو میرا جواب فلم دیکھنے کے بعد یہ ہے کہ دشمنی میں بدلے کی آگ دکھانا ہی اصل اس فلم کا مضبوط پہلو ہے۔ جو شائقین کی توجہ فلم سے ہٹنے نہیں دیتا۔

ہر کہانی کی ایک اپنی فضاء ہوتی ہے اگر وہ اسی میں رہ کر بیان ہو اور پردہ سکرین پر ہدایت کار شائقین کو دکھانے میں کامیاب ہو جائے تو پھر ایسی کامیابی ملتی ہے جیسی مولاجٹ کو ملی ہے۔ اس فلم کی خاص بات ہی یہ ہے کہ یہ اسی فضاء میں شروع سے آخر تک چلتی ہے اور شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے۔ اس میں آپ کو کوئی بھی کردار بھرتی کا نظر نہیں آئے گا۔ جتنا رومانس دشمنی کی آگ میں جلنے والوں کی زندگیوں میں ہوتا ہے اتنا ہی اس فلم میں نظر آیا۔

فلم کی ٹیم نے لولی وڈ میں کام یاب فلم کے لیے ضروری تصور کیے جانے والے اصولوں سے انحراف کیا۔ ان کے بغیر مصالحہ فلم کا تصور ذہن میں نہیں لایا جا سکتا۔ جن میں موسیقی، کامیڈی، عریانی وغیرہ شامل ہوتے تھے، مگر لاشاری نے ان تمام کو دیس نکالا دے کر اپنی قابلیت پر بھروسا کرتے ہوئے پروڈیوسر کی مدد سے معیار اور کام کی روح پر کوئی سمجھوتا نہ کیا۔ اس فلم کی بہتری کے لیے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بہترین ہنر مندوں اور اداکاروں کا انتخاب کیا۔ ہر کردار فلم کی فضاء میں سانس لیتا نظر آیا۔

جہاں تک فلم میں اداکاروں کی پرفارمنس کی بات ہے تو مائرہ خان جس کی اپنے کردار کو کرنے کے لیے محنت تو واضح نظر آئی مگر اس کی پنجابی زبان سے نا واقفیت ہونے کی وجہ سے اس کے چہرے پر پنجابی کو بولتے ہوئے اثرات غالب نظر آئے۔ اس چیز نے ان کے اداکاری کے دوران میں چہرے کے تاثرات میں وہ بات نظر نہ آ سکی جو ان کی خاصیت سمجھی جاتی ہے۔ اگر مائرہ خان پر کسی پنجابی اداکارہ سے ڈبنگ کروا لی جاتی تو یہ خامی دور ہو سکتی تھی۔ مائرہ اور فواد کا معاملہ ایک جیسا تھا مگر فواد نے اس فلم کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ فلم کی فضاء میں جینا شروع کر دیا اور یوں اپنی پنجابی والی کمی کو پورا کیا۔

باقی تمام کرداروں نے بہت اچھا کام کیا اور ان کی محنت نظر آئی۔ فلم کی ڈائریکشن، سینماٹوگرافی، ایکشن، ایڈیٹنگ، ساونڈ، کیمرہ ورک لاجواب ہیں۔ یہ فلم جدید تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی ہے۔ اس میں کرداروں کے نام پچھلی فلم مولا جٹ جو 1979 ء میں ریلیز ہوئی تھی سے لئے گے ہیں۔ فلم کی کہانی بھی پچھلی فلم کے پلاٹ میں سے ایک مرکزی حصہ لے کر بنائی گئی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلال لاشاری نے پچھلی فلم کا سہارا کیوں لیا؟ نامور فلمی پنجابی اداکاروں مثلاً شان، صائمہ وغیرہ کی بجائے دوسرے سپر اسٹار کو کیوں ترجیح دی؟

میرے مطابق بلال لاشاری نے بہت سمجھداری سے اپنی اس فلم کو پچھلی سے جوڑا تاکہ پرانی کے کلٹ کلاسک ہونے کا فائدہ یوں اٹھایا جا سکے تاکہ فلم کی مہورت سے ہی لوگوں کے اندر ایک تجسس اور سوالات جنم لیں سکیں۔ فلم ریلیز ہونے سے پہلے زبان زد عام ہو جائے۔ دوسرا لاشاری نے عالمی شہرت کے حامل پاکستانی اداکاروں کو فلم کے مرکزی کرداروں میں لیا تاکہ ان کے اسٹارڈم سے لوگوں کو متاثر کیا جا سکے اور ساتھ ایک تجسس بھی کہ وہ کیسا کام کرتے ہیں۔

پھر یہاں ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایسا لاشاری کو کیوں کرنا پڑا؟ دی لیجنڈ آف مولا جٹ کو پنجابی زبان میں بنایا جا رہا تھا۔ جو ایک عوامی اکثریتی زبان ہے۔ پنجابی زبان اپنی مضبوط زمینی جڑوں کی وجہ سے ریاستی سوتیلا پن ہونے کے باوجود اپنا سفر آگے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب تو عالمی درجہ بندی میں یہ زبان نویں بڑی زبان شمار کی جا رہی ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر تو پنجابی فلم کی مارکیٹ پاکستانی کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی ہے۔

پاکستان میں ریاست اور مین اسٹریم میڈیا کی بے رخی کی موجودگی میں اس فلم کا کریز ریلیز سے پہلے بنانا بہت ضروری تھا تاکہ اس کی وجہ سے شائقین سینما حال تک آئیں۔ اگلی بات تو بعد میں آتی ہے کہ اگر فلم میں جان ہو گی تو وہ چل جائے گی ورنہ فلاپ۔ فلم نے تقریباً ریلیز ہونے میں دس سال لگا دیے۔ جو کہ عام طور پر کسی بھی فلم کی صحت کے لیے اچھا نہیں سمجھا جاتا، مگر اس فلم کے ساتھ الٹا ہوا۔ پرانی فلم کے میکرز نے کیس کر دیا۔ جس کا فیصلہ آنے میں کہیں سال لگے۔ جس کی وجہ سے یہ فلم اس عرصے میں موضوع بحث بنی رہی۔ یوں عوام میں اس کا انتظار کم نہ ہوا۔

اگر ہم مقامی معاشرت پر اس فلم کو پرکھیں تو پھر بعض اعتراضات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً بعض پہلو کو مبہم انداز میں کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جس کو عام لولی وڈ شائقین کے لیے ہضم کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ بعض مناظر میں روٹی نظر آتی ہے وہ پنجاب کے دیہاتی کلچر جس میں اصل آٹے سے بنی تندور کی روٹیاں ہونی چاہیے تھیں کی عکاس نہیں بلکہ نان یا خمیری روٹی ہے۔ بعض سیٹ کی بناوٹ بھی پنجابی کلچر کی عکاس نہیں لگی، مگر عالمی تناظر میں فلم کے بزنس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے در گزر کی جا سکتی ہے۔ فلم کا اختتام ایک مبہم انداز میں اچانک سے ہو جاتا ہے۔ جو شائقین یا ناقدین اختتام میں مبہم انداز کو پسند نہیں کرتے وہ تنقید کر سکتے ہیں۔ میرے حساب سے اگر اس فلم کا دوسرا پارٹ بننا ہے تو پھر ایسا ہی اختتام ہونا چاہیے تھا۔

مجموعی طور پر یہ ایک ایسی فلم سامنے آئی ہے۔ جس نے فلمی سوڈو انٹلیکچوئل کی دکان داری پر تالا لگا دیا ہے۔ تخلیق کاروں اور بہتر کام کرنے والوں کے لیے ایک نئی امید جگائی ہے۔ فلم بینوں کو گھروں سے نکال کر سینما تک لانے میں کام یاب ہوئی ہے۔ وہ فلم بین جو پاکستانی سینما پر بات کرنا تو دور، خیال میں بھی لانا چھوڑ چکے تھے۔ اس فلم کے ذریعے واپس آئے۔ مثلاً تینوں جنریشن فلم میں دل چسپی دکھا رہی ہیں۔ پورا خاندان یعنی دادا، دادی، ماں باپ اور پوتے پوتیاں سب اکٹھے فلم دیکھنے آ رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ فلم پاکستان میں جہاں سینما گھروں کی تعداد دو سو سے بھی کم ہے۔ شروع میں تمام سینما گھروں میں اس فلم کی نمائش نہ ہو سکی مگر پھر بھی اب تک پاکستانی سرکٹ سے ساٹھ کروڑ سے اوپر کا کاروبار کر چکی ہے اور ہاؤس فل چل رہی ہے۔ جس کا گواہ راقم خود ہے۔

گزشتہ ہفتے بتاریخ 2022۔ 11۔ 04 کو فلم دیکھنے گئے۔ جس کی ٹکٹ ہمیں ہفتہ پہلے بک کروانی پڑیں۔ ایک ٹکٹ کا ریٹ 2200 روپے تھا۔ اتنی مہنگی ٹکٹ کے باوجود ہاؤس فل تھا۔ جس فلم کے بائیسویں دن شائقین فلم میں یہ جنون پایا جا رہا ہو۔ میری دعا ہے کہ لولی وڈ اس فلم کے تسلسل کو برقرار رکھے اور بلال لاشاری کی اگلی فلم کام یابی کے نئے ریکارڈ بنائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments