عمران خاں کا لانگ مارچ اور سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان


بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کارگر ثابت ہوئے اور عمران خاں پر قاتلانہ حملہ کا مقدمہ کا اندراج ہو گیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کے ان ریمارکس پر ”کہ اگر چوبیس گھنٹوں میں مقدمہ کا اندراج نہ ہوا تو از خود نوٹس لیا جائے گا“ جس پر آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے عدالت عظمی کو آگاہ کیا کہ ایف آئی آر کا اندراج کرنے سے وزیر اعلی پنجاب نے منع کیا ہے۔

آئی جی پنجاب کے اس بیان نے وزیر اعلی پنجاب کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور آئی جی نے ان کی وردی پر لعنت بھیجنے کا بھی حساب برابر چکا دیا ہے۔

ملک کے تمام سیاسی پنڈت، کالم نگار و تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ وطن عزیز اس وقت ایک گمبھیر نوعیت کے سیاسی تعطل و بحران سے دوچار ہے جس نے حکومت، سیاسی جماعتوں اور ’فیصلہ ساز ادارے‘ کو ایسی مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ہے اور پیچھے پلٹنے کو کوئی تیار نہیں۔ یعنی ہم بند گلی میں ہیں۔

پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں کی رگ رگ سے شناسا سیانوں کا کہنا ہے کہ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان احتجاجی سیاست کو ایک ایسے مرحلے میں داخل کر چکے ہیں جہاں پر سیاسی تصادم کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔

عمران خاں پر وزیر آباد کے اللہ والا چوک پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج تو کرلی گئی ہے اور یہ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے اور اس میں اکیلے حملہ آور نوید ولد بشیر کو نامزد کیا گیا ہے جسے پی ٹی آئی نے مسترد کرتے ہوئے اسے محض کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے؟

دوسری طرف ملکی حالات کی سنگینی کے پیش نظر راولپنڈی میں کور کمانڈرز کانفرنس میں حالات کو قابو کرنے کے لیے انتہائی اہم نوعیت کے فیصلے بھی کیے گئے ہیں جن کا بظاہر بوجہ منظر عام پر لانا مناسب نہیں سمجھا گیا البتہ ان فیصلوں کے بارے میں اطلاعات عمران خا ان تک پہنچا دیا گیا ہے اور انہیں بھی باور کرایا گیا ہے کہ بس بہت ہو گیا اب مزید نہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کو احساس ہو گیا کہ آٹھ ماہ تک کھلی چھوٹ اور نرم روی کا غلط مطلب لیا گیا ہے لہذا حکومت اور اداروں نے اب ”سختی“ کا فیصلہ کیا ہے کہ تاکہ نقصان کی تلافی کی جا سکے۔

لیکن پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں گزشتہ روز کے اپنے ٹویٹ میں عندیہ ظاہر کیا ہے کہ وہ بہت جلد ان کے قتل کی سازش میں شریک دوسرے افسر کا نام بھی بتائیں گے۔ سابق وزیر اعظم کے اقدامات آگ سے کھیلنے کے مترادف متصور کیے جا رہے ہیں اور اس کا نقصان انہیں کو ہو گا۔ پی ٹی آئی ایک بار پھر دو ہزار چودہ کے دھرنے کی پوزیشن پر آ گئے ہیں، دو ہزار چودہ میں جمہوریہ چین کے صدر پاکستان کے دورہ پر آ رہے تھے لیکن دھرنے کے باعث ان کا یہ اہم دورہ ملتوی کرنا پڑا۔

اگلے ہفتہ ڈیڑھ میں سعودی عرب کے وزیر اعظم اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے دورہ پر آ رہے ہیں اس لیے بھی ملک میں ”سکھ چین“ نظر آنا ضروری ہو گیا ہے۔ سعودی وزیر اعظم کے دورہ کے دوران بہت بڑی سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے۔ پاکستان کسی صورت اس دورہ کی راہ میں رکاوٹ کا متحمل نہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خاں اپنی سوچ اور پالیسی پر نظر ثانی کریں اور سعودی ولی عہد کے دورہ کو تکمیل تک پہنچنے دیں اور اگر ممکن ہو تو خاں صاحب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے استقبال کے لیے ائر پورٹ پر وزیر اعظم اور دیگر حکومتی زعما کے ساتھ کھڑے ہو کر معزز مہمان کو خوش آمدید کہیں۔

ملک میں انارکی ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی اتحادی حکومت و تحریک انصاف اور عمران خاں کے مفاد میں ہے۔ سابق وزیر اعظم خود اپنے دور اقتدار میں اس وقت کی اپوزیشن کو ملک میں افراتفری پھیلانے سے باز رہنے کی تنبیہ کرتے رہے ہیں اور ملک میں عدم استحکام کو ملکی سلامتی کے منافی قرار دیتے رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہونا چاہیے اور مکالمہ کے ذریعہ مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments