انڈین ٹیم کو درپیش وہ پانچ بڑے مسائل جو اسے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں لے ڈوبے


انڈیا کو سیمی فائنل میں شکست
آسٹریلیا میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انڈیا کو انگلینڈ کے ہاتھوں بڑی اور تکلیف دہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس میچ سے قبل اگرچہ انڈیا میں یہ توقعات تھیں کہ میلبرن میں اتوار کے روز انڈیا اور پاکستان کا فائنل ہو سکتا ہے، مگر دوسری جانب جب انڈین ٹیم انگلینڈ کے خلاف گراؤنڈ میں اتری تو وہ انتہائی بے بس نظر آئی۔

اس شکست کی وجہ سے انڈین ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں دو بار 10 وکٹوں سے ہارنے کا ریکارڈ بھی بنایا ہے۔

اب اتوار کے روز میلبرن میں فائنل تو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ہو گا لیکن انڈین فینز میں اس شکست کو لے کر بحث ضرور جاری ہے۔

آئیے ان پانچ وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں جو انڈین ٹیم کی ناکامی کا باعث بنیں۔

پاور پلے

ٹی ٹوئنٹی کھیل میں پہلے چھ اوور سب سے اہم ہوتے ہیں کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بلے باز، بولرز پر حملہ کریں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چھ اوورز میں فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کے صرف دو کھلاڑی ہی 30 گز کے دائرے سے باہر فیلڈنگ کر سکتے ہیں۔

اس پورے ٹورنامنٹ میں انڈین ٹیم پاور پلے میں سب سے بُری کارکردگی دکھانے والی ٹیموں میں سے ایک تھی اور سیمی فائنل میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

انڈیا نے میچ کی پہلی 36 گیندوں پر ایک وکٹ کے نقصان پر صرف 38 رنز بنائے تھے۔ اگر انگلینڈ کی بات کی جائے انگلینڈ نے فقط 3.2 اوورز میں ہی 36 رنز بغیر کسی نقصان کے بنائے۔

اگر پورے ٹورنامنٹ کی اوسط نکالی جائے تو پاور پلے میں انڈین ٹیم چھ رنز فی اوور بنا پائی لیکن یہ 50 اوور کی کرکٹ کی اوسط تو ہو سکتی ہے مگر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی نہیں۔

سابق انڈین کرکٹر سری کانت نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پورے ٹورنامنٹ میں ایسا محسوس نہیں ہوا کہ انڈین ٹیم پہلے چھ اوور میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ وکٹیں نہ گنوانے کے دباؤ کی وجہ سے سست ہو گئے ہوں لیکن جدید کرکٹ ایسے نہیں کھیلی جاتی۔‘

اوپنرز کی بُری فارم

انڈین اوپنرز کی ناکامی صرف پاور پلے میں ہی نہیں بلکہ مخالف بولنگ پر حاوی نہ ہونے میں بھی نظر آئی۔

نیدرلینڈز اور زمبابوے کے خلاف میچوں کے علاوہ روہت شرما اور کے ایل راہول شاٹس کے لیے بے تاب تو نظر آئے لیکن وقت نے تعاون نہیں کیا۔

پاکستان کے خلاف پہلے میچ میں جس طرح سے دونوں تیز بولنگ سے بے چین نظر آئے، یہ تقریباً پورے ٹورنامنٹ میں ہی جاری رہا۔

اور اس سے بھی کم کوشش وکٹوں کے درمیان دوڑ کو تیز کرنے اور فیلڈرز کو قریب لانے کے لیے فیلڈنگ سائیڈ پر دباؤ ڈالنے کے لیے کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

عرفان پٹھان کے تبصروں پر پاکستانی شائقین کے چُن چُن کر بدلے: ’اس بار فائنل بھی اتوار کو آگیا ہے‘ 

جواب ڈھونڈتے روہت شرما خود ہی کھو گئے 

منطق سے عاری پاکستان ٹیم کی ’سڈنی پارٹی‘

آنے والے برسوں میں انڈین سلیکٹرز کے لیے ایک مضبوط اوپننگ جوڑی بنانا یقیناً ایک چیلنج ہو گا کیونکہ روہت 35 اور راہل 30 سال کے ہو چکے ہیں۔

ایڈیلیڈ میں موجود ’دی گارڈین‘ اخبار کے کرکٹ نمائندے سائمن برنٹن کے مطابق ’مجھے امید تھی کہ وہ دونوں آئی پی ایل کی طرح آزادانہ طور پر کھیلیں گے لیکن یہاں بہت زیادہ دباؤ تھا۔ عام طور پر بڑے کھلاڑی بڑے میچ کے لیے اپنی بہترین پرفارمنس رکھتے ہیں۔ بٹلر اور ہیلز نے بھی تو ایسا ہی کیا۔‘

مڈل آرڈر پر بوجھ

اپنی مضبوط بلے بازی کے لیے مشہور انڈین ٹیم کے اس ٹورنامنٹ میں صرف تین بلے باز ہی اچھا کھیلے۔

ویراٹ کوہلی، سوریہ کمار یادو اور ہاردک پانڈیا۔ کوہلی اور سوریا کمار کو پہلے تین اوورز میں کئی بار کریز پر آنا پڑا۔

یقیناً اس چیز کا دباؤ کوہلی کی بیٹنگ میں بھی نظر آیا اور پاکستان کے خلاف میچ کے علاوہ وہ اتنی آزادی سے نہیں کھیل سکے جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔

سیمی فائنل میں انھوں نے 50 رنز کی اننگز تو ضرور کھیلی لیکن اس کے لیے انھوں نے 40 گیندیں بھی استعمال کیں۔

اگر آپ انگلینڈ کے بلے بازوں سے موازنہ کریں تو جوس بٹلر نے صرف 49 گیندوں پر 80 اور ایلکس ہیلز نے صرف 47 گیندوں پر 86 رنز بنائے۔

سوریہ کمار اچھی فارم میں نظر آ رہے تھے لیکن ہر میچ میں ان سے ایک ہی اننگز کی امید رکھنا غلط ہو گا۔

ہاردک پانڈیا نے سیمی فائنل میں اہم کردار ادا کیا اور اپنی ٹیم کو کم از کم 150 رنز سے آگے لے گئے، حالانکہ یہ سکور کافی نہیں تھا۔

کھلاڑی بدلنے میں ہچکچاہٹ

گذشتہ ایک سال سے انڈین ٹیم کھلاڑیوں کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن پھر بھی سب کچھ ویسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔

جسپریت بمرا اور رویندرا جدیجا کا ٹورنامنٹ سے قبل زخمی ہونا بڑا دھچکہ تھا۔

اکشر پٹیل کو بار بار ناکامی کے باوجود موقع دینا، کیا یہ خطرہ مول لینے سے بچنے کا اشارہ تھا؟

اگر انگلینڈ کے سپنر عادل رشید اس پچ پر کامیاب ثابت ہوئے تو یوزویندر چہل بھی اپنے لیگ سپن سے کچھ وکٹیں لینے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔

ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر رشبھ کو کھلانا تھا تو انھیں پاور پلے میں تیز کھیلنے کی ہدایت کی جانی چاہیے تھی۔ رشبھ ویسے بھی آخری اوور میں صحیح طرح سے استعمال نہیں ہو سکے، جس کی شروعات وہ بڑی ہٹ کے ساتھ کر سکتے تھے۔

آسٹریلیا کے سابق وکٹ کیپر اور بلے باز ایڈم گلکرسٹ کا خیال ہے کہ ’انڈین ٹیم کا رویہ کچھ زیادہ جارحانہ ہونا چاہیے تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہر مخالف ٹیم ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ کے پاس 15 کھلاڑیوں کی مضبوط ٹیم ہے تو اسے وکٹ اور مخالف ٹیم کے نقطہ نظر سے تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں سرپرائز کا عنصر ہونا ضروری ہے۔‘

بولنگ

جسپریت بمرا کے ٹورنامنٹ سے باہر ہوتے ہی یہ سمجھا جا رہا تھا کہ انڈیا کو بولنگ میں کوئی زیادہ فائدہ ہو گا۔

یہ بھی واضح تھا کہ محمد شامی کو گذشتہ تقریباً ایک سال سے راہل ڈریوڈ اور روہت شرما کی ٹی 20 ٹیم کے لیے موزوں نہیں سمجھا جا رہا تھا اور اس دوران وہ انجری اور کووڈ سے صحت یاب بھی ہوئے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 22 سال کے فاسٹ بولر عمران ملک کو بڑے سٹیج پر خود کو ثابت کرنے کا موقع دینا غلط ہوتا؟

اگر گذشتہ آئی پی ایل کی کامیابی پر دنیش کارتک اور کے ایل راہول ٹیم میں جگہ بنا سکتے ہیں تو اسی آئی پی ایل میں کئی بار 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینکنے اور 14 میچوں میں 22 وکٹیں لینے والے عمران کیوں نہیں۔

جب بات سیمی فائنل کی ہو تو نہ صرف بھونیشور کمار اور شامی کو ہی بری طرح شکست نہیں ہوئی بلکہ اشون کو بھی انگلینڈ کی اوپننگ جوڑی نے اپنی فارم میں نہیں آنے دیا۔

میچ کے اختتام پر، کمنٹری باکس سے نیچے گراؤنڈ پر جاتے ہوئے، ہرشا بھوگلے نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’یہ بہت زیادہ احتیاط سے کھیلنے کا نقصان ہے۔ بیٹنگ مضبوط ہے لیکن اگر ٹھیک نہیں چل رہی تو بولنگ کیسے چلے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments