جرائم کی روک تھام: گواہوں کے تحفظ کا بل موجود لیکن گواہ ڈر خوف میں مبتلا


*جرائم کی روک تھام گواہوں کے تحفظ کا بل موجود لیکن گواہ ڈر خوف میں مبتلا*

*گواہی دینا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ملزمان کی ضمانت آسان*
* بل پر عملدرآمد کو کیسے ممکن بنایا جائے؟ *
*تحریر: مونا صدیقی*

جرم چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا جرم تو جرم ہوتا ہے۔ کسی بھی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ایف آئی آر سب سے پہلی سیڑھی ہے۔ تب ہی مجرم سلاخوں کے پیچھے بند کیا جاتا ہے اور پھر عدالت میں کیس کی پیشیاں بیانات شواہد، گواہان اور دیگر قانونی کارروائیوں کا لمبا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس تمام تر معاملات میں کچھ کو انصاف مل جاتا ہے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو کئی سالوں سے جیل میں فیصلہ کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو کئی اپنی زندگی سے ہی چھٹکارا پا چکے ہیں۔

کورٹ کچہری سے عام شہری کیوں گھبراتا ہے کیا ہمارے ہاں عدالتوں کا، کیس کی پیروی کا طویل طریقہ کار یا پولیس کا جلد از جلد شواہد اور گواہان کو تحفظ کی عدم فراہمی کے باعث عدالتوں میں چلنے والے کیسز طوالت کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام شخص اپنا کیس لڑنے اور انصاف لینے میں ناکام رہنے کی وجہ سے کورٹ کچہری سے کتراتا ہے اور یوں جرائم پیشہ لوگوں کو مزید شے مل رہی ہے، کسی بھی جرم کو ثابت کرنے کے لیے شواہد اور گواہان کا ہونا لازمی قرار پایا جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہے کہ اگر شواہد اکٹھے کر بھی لیے جائیں تو مدعی کو انصاف کے کٹہرے میں سچی گواہی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں گواہ کو تحفظ کی عدم دستیابی سے ایک ڈر خوف پایا جاتا ہے ایسے بہت سے کیسز میں گواہ یا تو اپنے بیان سے بدل جاتے ہیں یا پھر گواہی دینے پر اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

کیا ایک عام شخص کو یہ معلوم ہے کہ اگر وہ گواہ بنا ہے تو اس کے تحفظ کے لیے قانون موجود ہے بھی کہ نہیں؟ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ ہمیں اپنے حقوق کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔

*گواہوں کے تحفظ کا بل 2015 *

90 کی دہائی میں شہر قائد میں ایم کیو ایم کا اثر و رسوخ تھا لیاری گینگ وار اور دیگر انفلوینس پارٹیز تھیں، شہر میں نفسا نفسی کا عالم تھا، مشکل حالات، ڈر خوف کا سماں تھا، اس وقت کو دیکھتے ہوئے قانون کی ضرورت پیش آئی اسی لیے یہ ایکٹ بنایا گیا۔ ایڈووکیٹ عثمان فاروق کا کہنا ہے کہ کسی بھی کیس میں فیصلے کا دار و مدار شواہد اور گواہ پر ہوتا ہے لیکن گواہوں کو ڈر خوف اور زندگی کو لا حق خطرات کے باعث گواہ عدالت جانے سے کتراتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملزمان بری ہو جاتے ہیں کچھ ایسے بھی کیسز ہیں جن کے شواہد تو تھے لیکن گواہ عدالت میں نہیں پہنچ سکے یا پیشی پر نہ آئے تو کیس بھی کچھ خارج کر دیے گئے اور کچھ کا یک طرفہ فیصلہ ہوا جبکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جن میں ملزمان بری بھی ہو گئے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ویٹنس پروٹیکشن بل کی پریکٹس ہمارے ہاں اس سطح پر نہیں ہے کہ جس سطح پر ہونی چاہیے پولیس کے مسائل بہت زیادہ ہیں پروسیکیوشن جو کی جاتی ہے اس میں بہت بلینڈر ہوتے ہیں گواہ اور شواہد کا لانا آئی او یعنی انوسٹی گیشن افسر کا کام ہے پولیس جانتی ہے کہ ایک قانون موجود ہے لیکن پھر بھی اس پر عمل نہیں دیکھا گیا۔ لیکن افسر اگر مینج نہیں کر پا رہا کیونکہ پولیس کا کردار یہاں کافی مشکوک ہے کوئی گواہی دے گا یا عدالت جائے گا تو کس طرح جائے گا اگر کوئی گواہ والنٹیئرلی گواہی دینے آ رہا ہے تو اس کا 161 اور 164 کے تحت بیان دے رہا ہے تو اسے کہیں نہ کہیں خود کو اندراج کرانا ہے پولیس پر اعتماد نہیں ہے موجودہ مکنیزم تباہ حال ہے جس کی وجہ سے گواہ نہیں آتا۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اگر گواہ آتا بھی ہے کہ ہمارے حالات کے پیش نظر کبھی عدالتوں میں ہڑتال، کبھی جج کبھی وکیل کی چھٹی یا کسی اور کیس میں مصروفیت کے باعث نہیں آتے تو جو گواہ اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر آتا ہے مگر کیس نہیں چلتا بیان نہیں ہوتا تو گواہ بھی دلبرداشتہ ہو جاتا ہے۔

یہ ساری باتیں فیصلوں پر منفی اثرات ڈالتی ہیں ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ملزمان کے حوالے سے اسلامی کوریسپونڈڈ کی بات کی جائے تو یہ بات درست ہے کہ شک کا فائدہ ملنا چاہیے کوئی بھی ملزم کو صرف اس بنیاد پر سزا نہیں ہو جانی چاہیے لہٰذا شواہد اور گواہی پر ہی ہونا چاہیے، کہیں بھی تھوڑی سی بھی کمی یا کوئی ابہام ہو تو فیصلے سے پہلے ضرور کیس کو دیکھا جائے کیونکہ شواہد اور گواہ کے بیانات بہت ضروری ہیں۔ اگر ملزمان کو سزائیں نہیں ہوں گی تو لوگوں کا جو یقین ہے اور تحفظ ہے وہ ڈر اور خوف میں بدل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملزمان کی ضمانتیں ہوجاتی ہیں۔

سندھ کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن نزہت شیریں کا کہنا ہے کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ادارے مستحکم بنیادوں پر نہیں بنے ہیں کسی بھی قانون پر عملدرآمد اسی وقت ہو گا جب ہمارے ادارے مضبوط ہوں۔ ہمارے ہاں ادارے ادھورے بنے ہوئے ہیں میں سمجھتی ہوں قانون آپ چاہے جتنے بنا لیں جب تک ہمارے پاس قابل ہیومن ریسورسز نہیں ہوں گے اگر ایک انویسٹی گیشن افسر کا کسی کا صحیح چالان داخل کرنے اور غلط چالان داخل کرنے میں اہم رول ہوتا ہے اسی طرح جب عملدرآمد کی بات کرتے ہیں، تو میرا ادارہ تو مانیٹرنگ کا ہے اور تجاویز دیتا ہے تو ہم نے یہ دیکھا ہے ادھورے اداروں میں جو سیٹوں پر افراد بھرتی کیے جا رہے ہیں وہ قابل ہی نہیں کہ قوانین پر عمل کروا سکیں چاہے جتنی بھی ان افراد کو ٹریننگ دے دیں جب تک کہ وہ خود ان میں ول یا کام کرنے کی جستجو نہ ہو تو وہ کیا کام اور قوانین پر سختی سے عمل کرائیں گے عموماً عورتوں کے کیسز میں گواہیاں ہی ختم ہوجاتی ہیں جب تک کورٹ سے باہر تصفیہ کا کلچر ختم نہیں ہو گا یہی طریقے رائج رہیں گے اور قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو سکے گا۔

پیسہ سب کی کمزوری ہے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے قلیل آمدنی میں مشکلات زیادہ ہیں تو وہ غلط راستہ ہی اپناتا ہے ہمارے ہاں کیریئر کونسلنگ نہیں ہے اسکلز ڈویلپمنٹ نہیں ہوتی بالکل اسی طرح گواہوں کے تحفظ کا بل ہو یا اور دیگر پر عمل کہاں اور کیسے ہو گا بلکہ بہت سے کیسز میں تو گواہوں کو مار ڈالا جاتا ہے۔ ابھی حالیہ ہم نے دیکھا ہے کہ شارخ جتوئی کیس میں بڑے پیسے دے دیے گئے تو کہاں ہے قانون۔

تشدد دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے اے ٹی سی کورٹ میں ملزم یا مجرم کیسے بچ جاتا ہے۔ کیونکہ ہم نے قانون ہی نہیں بنایا ہے کسی بھی قانون پر عملدرآمد ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے قانون کو ریوائز کی ضرورت ہے اور جب ہم ریوائز کر کے دیتے ہیں قانون کو تو عملدرآمد ہی نہیں ہو رہا پھر ایسے قانون ویٹنگ یعنی سرد خانے میں ہی پڑا رہتے ہیں جب تک لا ڈیپارٹمنٹ پاس نہیں کرے گا تو وہ کیبنٹ میں کیسے جائے گا کسی بھی بل کا کیبنٹ میں آنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے پھر تنقید بھی دیکھی جاتی ہے اور ترامیم بھی کی جاتی ہے ہم نے مزید تین قوانین اور بھیجے ہوئے ہیں مگر وہ کیبنٹ میں نہیں آئے ہیں ابھی تک ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمیں اگر اپنی چیزوں کو درستگی کی طرف لے کر جانا ہے تو اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل اور قابل ہیومن ریسورس ہوں اداروں میں بھرتیاں دوستی تعلقات پر ہوتی رہیں گی تو عملدرآمد بھی قوانین پر مشکل ہے کیونکہ قوانین کو بالائے طاق رکھ کر کام کیا جاتا ہے، سب کو فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے عدالت سے باہر تصفیہ میں وکیل کو بھی مل رہا ہوتا ہے۔ سائل کو مل رہا ہے جج کا بھی حصہ ہوتا ہے اور ایک کی جان بچ رہی ہوتی ہے ایک کیس میں ایسا بھی سنا کہ کہا گیا کہ وہ تو مر گیا تو اس لیے ہم سفر کیوں کریں۔ (افسوسناک)

ان تمام معاملات کو دیکھنا ہو گا ہمارا کمیشن بار بار یہ کہتا ہے کہ ہمیں ان اداروں کو درستگی کی طرف لانا ہو گا یہ نہیں کہ قانون طاقتور کے لیے الگ اور کمزور کے لیے الگ ہو اور قوانین کے لیے الگ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے کیسز میں خواتین ہی سفر کر رہی ہوتی ہیں تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں۔ قوانین پر عملدرآمد کے لیے کوئی اور طریقے اپنائے جانے چاہیے تمام اداروں کو بٹھا کر دیکھنا ہو گا کہ کہاں فیئر ہے تب گواہیوں کی اہمیت ہوگی انہیں زندگی ملے گی نہ کہ گواہوں کو مار ڈالا جائے 2015 ءکے ویٹنس پروٹیکشن بل کو دوبارہ دیکھنا ہو گا تب ہی اس بل پر عمل درآمدگی کے اثرات سامنے آئیں گے اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا اس کے ساتھ ہی جو بھرتیاں کی جائیں وہ قانون کو سمجھتے ہوں مجھے اگر لوگوں سے محبت نہ ہوتی تو میں کام کیسے کرتی میں بغیر وسائل کے بھی تو کام کر رہی ہوں میری خواہش ہے میں اپنے صوبے کی خواتین کو کچھ اچھا دے کر جاؤں۔

یہ میری کمٹمنٹ ہے میرے کام سے ورنہ ادارہ تو برا نہیں میں یومیہ اجرت کی بچیوں کے ساتھ اپنے ادارے میں کام کر رہی ہوں ہمارے ہاں لوگوں کو ریلیف دینا نہیں چاہتے گواہوں کو تحفظ وہی دے گا جو اپنے کام سے مخلص ہو گا۔ ذہنی کشیدگی بڑھ رہی ہے مینٹل ہیلتھ پر کام ہی نہیں کیا جا رہا ۔ ترقی برائے حقوق نسواں سندھ کے ادارے میں خواتین کے مسائل کی شکایات کے اندراج کے لیے کمپلین سیل میں ڈیسک پر قانونی فرائض انجام دینے والی ایڈووکیٹ آسیہ منیر کا کہنا ہے کہ خواتین یہاں بہت سے مسائل لے کر آتی ہیں اور ہم ان کی شکایات سنتے ہیں اور درج کرنے کے بعد قانونی معاونت بھی فراہم کرتے ہیں شوہر سے ناچاقی، تشدد، جنسی زیادتی اور دیگر مسائل کے ساتھ آنے والی خواتین جب شکایت درج کراتی ہیں اور شواہد و گواہی دیتی ہیں تو ان میں ایک ڈر خوف ہوتا ہے وہ چاہتی ہیں کہ انہیں انصاف ملے مگر عدم تحفظ سے ڈرتی ہیں 2015 ءکا گواہوں کے تحفظ کا قانون موجود ہونے کے باوجود وہ کورٹ میں کیس چلنے اور گواہی دینے سے ڈرتی ہیں کہ عدالت میں بیان دینے سے کہیں دشمنی نہ ہو جائے فیملی کے دیگر افراد کو خطرات نہ لاحق ہوجائیں فکر مندی نمایاں ان میں نظر آتی ہے ہمارے ہاں عدالتوں میں کیس طوالت کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی گواہ یا شکایات درج کرانے والے بعض اوقات کیس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

اگر گواہ کا بیان کیس کے آغاز میں ہی لے لیا جائے تو نہ گواہی دینے والا پیچھے ہٹے گا اور نہ ہی اسے ڈر ہو گا اپنی زندگی کا لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں بار بار گواہوں کو عدالتوں کے چکر لگواتے ہیں جس سے کیس الجھ جاتا ہے اور حق و سچ پر انصاف کا طلبگار مایوس ہی رہتا ہے کیونکہ گواہ کی سیکیورٹی ہی کوئی انشورنس نہیں ہوتی اور جھوٹے کیسز میں ملزمان بڑی آسانی سے بری اسی لیے ہو جاتے ہیں کہ گواہی دینے والا عدالت کی پیشی پر نہیں پہنچ پاتا گواہوں کے تحفظ کا قانون صرف کتابوں تک ہی ہے عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ان ہی جیلوں اور دیگر راستوں سے عدالتوں میں مجرم ملزم آ رہے ہوتے ہیں انہی سے گواہ بھی آتے ہیں تو گواہ کی جان کا خطرہ ہوتا ہے ریپ کیسز میں ایک کمپلینر اپنی بچی کو لے کر آئی کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی، جب وہ کمرہ عدالت میں بیان دے کر آئی تو کورٹ کے احاطے میں ہی اسے تشدد کا نشانہ بنانے اور ڈرانے دھمکانے کے لئے مخالف پارٹی کے لوگوں نے جھگڑا اور مار پٹائی ہوئی، ایسے صورت میں

دونوں پارٹیز کو پھر سے اس مار پٹائی کی شکایت درج کرنے تھانے جانا پڑتا ہے ایک طویل سسٹم سے گزرنا پڑتا ہے تو ایسے میں یہی ہوتا ہے کہ آئندہ پیشی پر گواہ غیر حاضر ہی رہتا ہے ان حالات میں تحفظ کا قانون کہیں نظر نہیں آ تا کہ اس قانون کے تحت اسے مضبوط اور طاقتور تحفظ فراہم کیا جاتا ہو، ہمارے ہاں پولیس کا کردار بھی واجبی سا ہی دکھائی دیتا ہے جب گواہ نہیں آئیں گے عدالتوں میں تو کیسے انصاف ہو گا۔

گواہ کے تحفظ کا بل اچھا ہے مگر اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد کو عملدرآمد کرانے کے لیے انہیں یہ باور کرایا جائے کہ وہ اپنے کمفرٹ زون سے نکلیں اور قانون پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گواہوں کو تحفظ فراہم کریں اگر یہ نہیں ہو گا تو گواہ ڈر خوف میں مبتلا رہے گا اور ملزمان بری ہوتے رہیں گے۔ 2022 کا کیس ہے جس میں بچی کے ساتھ زیادتی کی ایف آئی آر بھی ہو گئی، بچی کے والدین بیٹی کو لے کر ہر پیشی پر آتے تھے مگر کیس نہیں چلتا تھا بچی کے والد نے ایک مرتبہ کہا کہ مجھے اب اس کیس میں بار بار مزید مشکلات میں نہیں پڑنا اور اسی بنا پر اس کیس کے ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تحفظ کا قانون کہیں بھی نظر نہیں آتا۔

“وار ” نامی غیر سرکاری تنظیم جو خواتین کے مسائل پر کام کرتی ہے کی رواں سال کی تحقیق کے مطابق رواں سال میں جولائی تک پولیس اسٹیشن میں 850 کیسز رپورٹ ہوئے۔

پچھلے سال ریپ کیس کی شکایت درج کرانے والے (ج) جو اپنی بیٹی کو زیادتی کیس میں گزشتہ ایک سال سے مارے مارے پھر رہے ہیں مگر تاحال انصاف نہ ملنے کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ میری بچی کے ساتھ غلط کام کیا ملزمان (جو ہمارے ہی گاؤں کے تھے ) کے خلاف تھانہ میں ایف آئی آر بھی کٹوائی بڑی مشکلوں کے بعد ان ملزمان کو پکڑا گیا مگر میرے علاقے کے اثر رکھنے والے سائیں نے مجھے کہا کہ بہتر ہے کہ تم صلح صفائی کرلو لیکن میں اپنی بیٹی کو انصاف دلانا چاہتا ہوں میں اس بات پر راضی نہیں ہوا کیس کورٹ میں چلا میں ہر پیشی پر عدالت جاتا میری بیوی اور بچی کے ساتھ ہمیں بہت ڈرایا دھمکایا جاتا رہا پھر بھی میں کیس سے پیچھے نہیں ہٹا مگر دور سے آتا عدالت آتا ہوں، غریب ہوں کرایہ بھاڑا لگتا ہے کام سے چھٹی کرتا لے کر گڈاپ کے علاقے سے کورٹ آتے ہوئے کئی بار ہمیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر اس کے باوجود میں آتا رہا گواہیاں ہونے کے بعد بھی کیس کا فیصلہ نہیں ہوا اور مجھے کسی نے کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا میں غریب ہوں اور دوسری پارٹی اثر و رسوخ رکھنے والی ہے بار بار پیشیوں پر آنا اب میرے لیے مشکل ہے جو میرے پاس گواہ تھا اب وہ بھی تنگ آ گیا ہے بار بار پیشیوں سے، گواہ شروع میں آیا اب بعد میں نہیں آتا پیشی پر وہ بھی کہتا ہے کہ مجھے میری جان کا خطرہ لگتا ہے اسے بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اس کے ڈر خوف کی وجہ سے کئی پیشی پر نہیں آیا اور اب ملزمان ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔

اب میں اللہ سے مدد کے سوا کسی اور پر اعتماد اور انصاف کا طلبگار نہیں ہمارے ہاں عدالتوں کا نظام بہتر نہیں مجھے اب بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ صلح صفائی کرلو (آنکھوں میں اداسی اور بوڑھے باپ کے آنسو اس کی مجبوری اور بے بسی بن کر نکلتے رہے ) اب اللہ سائیں کو جو منظور مگر میں اب بھی کیس واپس لینے اور صلح صفائی ملزمان سے کرنا نہیں چاہتا۔

ایسے قوانین کا کیا مقصد کہ جس پر عملدرآمد ہی نہ ہو کہ جس کے لیے قانون بنا ہو وہ ہی لا علم رہے اور اگر اس قانون کے تحت وہ اپنی سیکیورٹی چاہے بھی تو ہمارے اداروں میں بیٹھے افسران صحیح طریقے سے عمل نہیں کراتے جس کے باعث لا تعداد ایسے کیسز ہیں جن میں مدعی، گواہ، شواہد، بیانات موجود مگر صرف گواہ کو تحفظ فراہم نہ کرنے کے باعث کیس التوا کا شکار رہتے ہیں یا پھر ملزمان ضمانت پر بری ہو جاتے ہیں Witness protection act 2015 کے قانون کو بہترین بنیادوں پر استوار کیا جانا آج کی اہم ضرورت ہے ورنہ جرائم ہوتے رہیں گے کیس درج بھی ہوں گے لیکن گواہ کے عدم تحفظ کے باعث گواہی نہ ہونے سے ملزمان بری ہوتے رہیں گے اور انصاف کے طلبگار بے بسی کی تصویر بنے رہیں گے۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments