امریکہ سب سے مضبوط، بالادست معیشت، سپر پاور کیسے بنا


ترقی پذیر ملکوں میں اکثر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ امریکی معیشت روبہ زوال ہے اور آئندہ چند دہائیوں میں امریکہ سے دنیا کی سپر پاور کی حیثیت چھن جائے گی۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے میں محض پیداوار، برآمدات، مضبوط کرنسی، مضبوط فوجی طاقت ہی کافی نہیں ہے بلکہ امریکہ نے یہ مقام گزشتہ ایک صدی کے دوران کئی مراحل میں اپنی برتری حاصل کرتے ہوئے حاصل کیا ہے اور امریکہ کی مضبوط عالمی معیشت اور اس بنیاد پر امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت کو ختم کرنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ یہاں ہم جائزہ لیتے ہیں کہ امریکہ کو کس طرح دنیا کی سب سے مضبوط اور فیصلہ کن عالمی معیشت کا مقام حاصل ہوا ہے کہ جس بنیاد پر امریکہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت بن چکا ہے اور اسی بنیاد پر وہ دنیا کے مختلف خطوں کی تقدیر پہ بڑی حد تک اپنی مرضی مسلط کرتا ہے۔

اس وقت دنیا کے 197 ممالک میں تقریباً 180 مختلف کرنسیاں استعمال ہو رہی ہیں۔ ان میں کچھ ایسی کرنسیاں بھی ہیں جو ایک سے زیادہ ممالک میں استعمال ہوتی ہیں۔ جیسے ’یورو‘ جو یورپ کے 24 سے زائد ممالک کی کرنسی ہے، اسی طرح امریکی ڈالر بھی اس وقت تقریباً 14 ممالک کی بنیادی کرنسی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک اپنی کرنسی کے علاوہ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بھی رکھتے ہیں جنہیں زر مبادلہ کے ذخائر کہا جاتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر رکھنے کا بنیادی مقصد تجارت یا دیگر ممالک سے لین دین کے لئے بیرونی ممالک کو ادائیگیاں کرنا ہوتا ہے۔

دنیا کے تمام ممالک کے غیر ملکی کرنسیوں کے ذخائر میں 59 فیصد امریکی ڈالر کی صورت میں ہے۔ امریکہ اس وقت دنیا کی سپر پاور ہے اور امریکہ کی معیشت کو دنیا کی طاقتور ترین معیشت اور امریکی ڈالر کو دنیا کی طاقتور ترین کرنسی کی حیثیت حاصل ہے۔ امریکی معیشت اور کرنسی کی ترقی کا یہ سفر کئی دہائیوں کے سفر پہ مشتمل ہے۔ دنیا کی زیادہ تر تجارت امریکی ڈالر میں ہوتی ہے اور امریکی ڈالر دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی کی حیثیت رکھتی ہے۔

مختلف ادوار میں دنیا میں تجارت اور لین دین کے لئے مختلف طریقے رائج رہے۔ 19 ویں صدی کے اختتام اور 20 صدی کے شروع میں دنیا کا مالیاتی نظام مختلف اقسام کی کاغذی کرنسی پر منتقل ہور ہا تھا، اس صورتحال میں مختلف ممالک میں تجارت اور مالی لین دین کے لئے کوئی مشترکہ نظام بنانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی، ہر ملک کی اپنی ایک کرنسی تھی اور کرنسی کی چھپائی اور ترسیل کا کوئی واضح اصول بھی نہیں تھا، اس لئے ہر ملک اپنی ضرورت کے مطابق چھاپتا اور استعمال کرتا تھا، جس سے مختلف ممالک کے درمیان کرنسی کے استعمال میں مشکلات کا سامنا تھا۔

اس مسئلے کے حل کے لئے زیادہ تر ممالک اس بات پہ متفق ہوئے کہ کرنسی کی قدر سونے کی مخصوص مقدار کے مطابق رکھی جائے اور اور کرنسی کو چھاپنے کے لئے حکومت کے پاس اسی حساب سے سونا بھی موجود ہونا چاہیے۔ 1873 میں ایک ڈالر کی قدر ایک اشاریہ پانچ سو چار 1.504 گرام سونا مقرر کی گئی، اس حساب سے ایک ہزار ڈالر کرنسی چھاپنے کے لئے امریکی حکومت کے پاس 1504 گرام سونا موجود ہونا ضروری تھا، یعنی یہ طے گیا کہ جس ملک کے پاس جتنا سونا ہو گا، اسی مالیت کے برابر وہ ملک کرنسی چھاپ سکے گی، اس سے زیادہ نہیں۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ یہ نظام درہم برہم ہو گیا، پہلی جنگ عظیم میں شامل ممالک کو جنگی اخراجات کے لئے بے تحاشہ روپیہ درکار تھا اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ان ممالک نے پھر سے اپنی مرضی سے اپنی ضرورت کے مطابق کرنسی نوٹ چھاپنے شروع کر دیے۔ اس کے نتیجے میں بعض ممالک میں افراط زر بہت زیادہ بڑھ گئی اور ان کی کرنسی کی قدر بہت ہی کم ہو گئی۔ اس دور کی سپر پاور برطانیہ کی کالونیاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں، برطانیہ نے اپنی کرنسی کی قدر برقرار رکھنے اور اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے مقصد سے اپنی کرنسی کو سونے کے ساتھ منسلک رکھنے کی کوشش تو کی لیکن 1931 میں برطانیہ نے بھی کرنسی کے پیچھے سونے کے معیار کو قائم رکھنا ترک کر دیا، اس وجہ سے برطانوی کرنسی پاؤنڈ کی قدر میں شدید کمی واقع ہوئی اور بین الاقوامی تاجر جو پاؤنڈ میں تجارت کیا کرتے تھے، ان کے بنک اکاؤنٹ اس سے بہت متاثر ہوئے۔

جنگی اخراجات پورے کرنے کے لئے برطانیہ جیسی سپر پاور کو بھی قرض لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ پہلی جنگ عظیم، جولائی 1914 سے نومبر 1918 کے بعد 1920 میں برطانیہ کا قومی خسارہ سات اشاریہ آٹھ 7.8 ارب پاؤنڈ تک پہنچ گیا، جو جنگ عظیم اول سے پہلے چھ سو ملین پاؤنڈ تھا، دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کا یہ قومی خسارہ بڑھتے بڑھتے اکیس 21 ارب پاؤنڈ تک پہنچ گیا جو اس وقت برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوارGDP کا تین گنا بنتا تھا۔ اسی طرح باقی ممالک جیسے روس، فرانس اور جرمنی بھی شدید مالی خسارے کا شکار ہو گئے۔

ان دونوں عالمی جنگوں میں امریکہ کی معاشی اور سفارتی پالیسی بہت کامیاب رہی۔ امریکہ نے ان جنگوں میں پہلے جنگی تاجر کے طور پراور بعد میں جنگی فریق کے طور پر حصہ لیا، جب پوری دنیا ان جنگوں میں مصروف تھی تو امریکہ اپنے تمام سرمائے اور افرادی قوت کے ذریعے کپاس، گندم، ربڑ، مشینری، قیمتی دھاتوں اور اسلحے کی پیداوار میں مصروف تھا اور ایک مختصر ترین عرصے میں امریکہ نے دنیا کا عظیم ترین اقتصادی عروج حاصل کیا اور دنیا کا ایک بڑا برامد کنندہ، ایکسپورٹر بن گیا۔

1913 سے 1917 کے صرف چار سال کے عرصے میں امریکہ کی کل برآمدات دو اشاریہ چار 2.4 بلین ڈالر سے بڑھ کر تقریبا چھ اشاریہ دو 6.2 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی جبکہ اس وقت کی عالمی سپر پاور برطانیہ کی برآمدات اڑھائی 2.50 ارب ڈالر کے قریب تھیں۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں بھی امریکہ باقاعدہ طور پر جنگی فریق نہیں تھا اور انہوں نے اپنے تمام تر وسائل برآمدات کے لئے استعمال کیے ۔ 1945 تک امریکہ کی برآمدات تقریباً دس ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئی تھیں جس میں سے زیادہ تر برآمدات برطانیہ اور روس کو کی جاتی تھیں۔

اس کے مقابلے میں برطانیہ کی برآمدات تین ارب ڈالر کے قریب تھیں۔ امریکہ کی طرف سے یہ شرط عائد تھی کہ وہ جنگ کے دوران یہ تمام اشیاء اپنی کرنسی یعنی ڈالر یا سونے کے عوض ہی فروخت کرے گا۔ اس وقت تمام ممالک کے پاس امر کی ڈالر تو نہیں تھے، لہذا امریکہ نے اس طریقے سے دوسرے ممالک کے سونے کے ذخائر اپنے پاس جمع کر لئے۔ یوں دونوں عالمی جنگوں سے امریکہ نے اپنے لئے کاروبار کے ایسے مواقع پیدا کیے کہ جب دنیا کی بڑی طاقتوں کی معیشتیں جنگ کی نظر ہو رہی تھیں، تو تب امریکہ دنیا کی معیشت کا تقریباً تین چوتھائی سونا تجارت سے اپنے پاس ذخیرہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ امریکہ کے سونے کے ذخائر 1910 میں دو ہزار ٹن تھے جو 1945 میں بیس ہزار ٹن تک پہنچ گئے۔

ان دونوں عالمی جنگوں کے دوران امریکہ حیران کن معاشی ترقی کے سبب دوسرے ملکوں کو قرض دینے کا آخری آپشن بھی بن چکا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے اتحادی ممالک کو جنگی ساز و سامان و دیگر امداد کو لینٹ لیزایکٹ یعنی لیز پر قرضہ کے طور پر بھی دینا شروع کر دیا لینٹ لیز قرضہ کے تحت امریکی حکومت کسی بھی ملک کو جنگی سامان بیچنے کے بجائے قرض، لیز یا امداد کے طور پر بھی دے سکتی تھی، اس قرض یا امداد کا مقصد ان ممالک کی دفاعی طور پر مدد کرنا تھا جن کی سلامتی امریکہ کی سلامتی کے لئے اہم سمجھی جاتی تھی۔

اس وقت تک امریکہ خود جنگ میں باقاعدہ طور پر ابھی فریق نہیں بنا تھا اور تنازعات میں سرکاری طور پر غیر جانبدار تھا، اس امداد کا زیادہ تر حصہ برطانیہ اور ان دیگر ممالک کو دیا گیا جو جرمنی اور جاپان کے خلاف حالت جنگ میں تھے اور مزید اسلحہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ لینٹ لیز ایکٹ کے تحت ہی برطانیہ کی سپر پاور کو اس قابل بنایا کہ وہ جرمنی کے خلاف عملی طور پر جنگ جاری رکھ سکے۔ دسمبر 1941 میں پرل ہاربر پر جاپان کے حملے کے بعد جب امریکہ باقاعدہ پر طور جنگ میں فریق بن گیا لیکن اس لینٹ لیز ایکٹ کے تحت امداد کا سلسلہ پھر بھی جاری رہا اور جنگ کے اختتام تک امریکہ 30 سے زائد ممالک کو تقریباً 50 ارب ڈالر امداد دے چکا تھا۔

ان تمام عوامل کی وجہ سے امریکی ڈالر ایک مضبوط عالمی کرنسی کے طور پر نمایاں ہوا اور اس وقت کی بڑی بڑی طاقتیں بھی امریکہ کی مقروض ہو گئیں۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب 1944 میں امریکہ نے 44 ممالک کے نمائندگان کو جمع کر کے ایک ایسا ایگریمنٹ کیا جو ڈالر کو ایک عالمی کرنسی بنانے کی بنیاد بنا۔ 1944 میں 44 ملکوں کے نمائندوں نے بریٹن ووڈز ہمشائر میں ملاقات کی تا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے انتظام کے لئے ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے کسی بھی ملک کو نقصان نہ ہو۔

اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ دنیا کی کرنسیوں کو اب سونے سے منسلک نہیں کیا جائے گا بلکہ اب سونے کے بجائے ڈالر کے مساوی قدر مقرر ہو گی، یعنی باقی ملکوں کی کرنسی کو امریکی ڈالر سے منسلک کیا جائے گا اور امریکہ ڈالر سونے کی قدر سے منسلک ہو گا۔ ای اونس یعنی 28.35 گرام سونے کی قیمت بھی 35 ڈالر مقرر کی گئی۔ کرنسی کے اس عالمی نظام کو ’برٹن ووڈز معاہدے‘ کا نام دیا گیا۔ اس وقت سونے کے سب سے زیادہ ذخائر امریکہ کے پاس ہی موجود تھے اور باقی ممالک جنگی اخراجات کی وجہ سے اپنے سونے کے ذخائر سے محروم ہو چکے تھے۔

ان ممالک کے پاس سونا نہیں تھا کہ جس کی بنیاد پر وہ کرنسی جاری کر سکیں، اس لئے انہوں نے اپنے ملکوں کی کرنسی جاری کرنے کے لئے اپنی کرنسی کی قدر سونا رکھنے کے بجائے امریکی ڈالر رکھے جانے کی شرط منظور کر لی۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ کی بھی یہ ذمہ داری تھی کہ امریکی حکومت جتنے ڈالر جاری کرے گی، اس کے عوض اس کی قدر کے برابر سونا موجود ہونا لازمی ہو گا۔ اس طرح ان ممالک کی کرنسیاں بالواسطہ طور پر سونے سے منسلک ہو گئی۔

اس نظام کے تحت مرکزی بنکوں کی اتھارٹیز بھی قائم کی گئیں جن کا کام مختلف ممالک کے درمیان کرنسیوں اور ڈالر کے درمیان شرح تبادلہ کو قائم رکھنا تھا، جبکہ امریکی ڈالر کے بدلے کسی بھی ملک کو اس کی طے شدہ قدر کے مطابق سونا واپس کرنا بھی ’برٹن ووڈز معاہدے‘ کا حصہ تھا۔ اس معاہدے میں عالمی تجارت کے لئے عالمی کرنسی کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اس معاہدے سے اب دو ممالک آپس میں آسانی سے تجارت کر سکتے تھے چاہے وہ ایک دوسرے پر اعتماد نہ بھی کرتے ہوں، یعنی اگر برطانیہ فرانس کوایک ملین ڈالر کی برآمدات کرتا ہے تو برطانیہ کو یہ یقین ہوتا ہے کہ فرانس سے اس برآمدات کے بدلے میں ملنے والے ایک ملین امریکی ڈالر کے عوض امریکہ سے اس مخصوص مقدار میں سونا بھی حاصل کر سکتا ہے۔

دوسری طرف اگر برطانیہ یہ پیسہ ڈالر کے بجائے فرانسیسی فرینکس میں وصول کرتا تو اگر آج ایک ملین فرینکس کے عوض سونا ایک کلوگرام ملتا ہے تو ممکن ہے کہ ایک مہینے بعد فرانس مزید کرنسی چھاپ دیتا، جس سے اس کی کرنسی فریکنس کی قدر گر جاتی اور ایک ملین فرینکس کے عوض اب برطانیہ کو شاید ایک کلوگرام کے بجائے سات سو گرام سونا ہی ملتا۔ اس طرح اس تجارت کی تمام ویلیو عملی طور پر ختم ہو جاتی۔ مزید یہ کہ اگر برطانیہ ان فرینکس کو کسی اور ملک کے ساتھ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا اور وہ ملک فرینکس پر اعتماد نہ کرتا ہوتو برطانیہ کے لئے وہ پیسے کسی کام کے نہیں تھے لیکن اگر یہ تمام تجارت امریکی ڈالر میں ہو تو امریکہ جو اس وقت سب سے طاقتور ملک بن گیا تھا، اس بات کا ضامن تھا کہ ڈالر کے بدلے وہ ایک طے شدہ مخصوص مقدار میں سونا کسی بھی ملک کو واپس کر سکتا ہے۔ اس طرح اب کوئی بھی ملک دوسرے کسی ملک کے ساتھ ڈالر کے بدلے تجارت کر سکتا تھا کہ اسے یقین تھا کہ وہ ملنے والے ڈالر کے عوض اس کی قدر کے برابر سونا حاصل کر سکتا ہے۔

’ برٹن ووڈز معاہدے‘ کے نتیجے میں دو اہم عالمی مالیاتی اداروں، ورلڈ بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کی بنیاد رکھی گئی کیونکہ دو عالمی جنگوں کے بعد معاشی تباہ حالی کا شکار تھے اور اس صورتحال میں تمام ملکوں کو اپنے بنیادی ڈھانچے اور معیشت کی بحالی کے لئے قرضوں کی ضرورت تھی، لہذا ورلڈ بنک نے امریکی فنڈنگ سے ان ممالک کو بڑے پیمانے پر قرضے دیے۔ اس کے علاوہ ’آئی ایم ایف‘ مجموعی طور پر دنیا کی اکانومی پر نظر رکھتا تھا اور چھوٹے ممالک کو ادائیگیوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے قرض فراہم کرتا تھا۔ اس طرح ’برٹین ووڈز معاہدے‘ نے امریکہ کو دنیا کے دیگر ممالک پر ایک ممتاز حیثیت دلا دی۔ یہ وہ پہلا مرحلہ تھا کہ جہاں امریکی ڈالر کو دنیا کی باقی تمام کرنسیوں کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہوئی اور امریکی ڈالر عالمی کرنسی کے طور پر سامنے آیا۔

امریکی ڈالر کو مستحکم عالمی کرنسی بنانے کا دوسرا مرحلہ یا دوسری فیصلہ کن وجہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم ’اوپیک‘ کا قیام ثابت ہوا۔ دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ، فرانس، روس، امریکہ، جرمنی، اٹلی اور جاپان حالت جنگ میں تھے۔ اس وقت امریکہ اور برطانیہ ہی ایسے دو ممالک تھے جن کے پاس زمین سے تیل نکالنے، اس کو استعمال کے قابل بنانے اور اس کی تجارت کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ 1938 میں ایک امریکی کمپنی نے سعودی عرب میں تیل کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت کیا اور اس میں سے تیل نکالنے کا کام شروع کر دیا۔

جنگ کے دوران اٹلی نے سعودی عرب میں موجود امریکی تنصیبات پر کئی مرتبہ گولہ باری کی۔ سعودی عرب کو اپنی زمین اور ان تنصیبات کی حفاظت کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ اس وقت امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ نے محسوس کیا کہ اس وقت اور مستقبل میں ترقی کے لئے سب سے اہم چیز تیل ہے۔ امریکی صدر نے سعودی عرب کے حکمران شاہ عبدالعزیز سے طویل ملاقات کے بعد 1945 میں تاریخ کی ایک ایسی ڈیل کی جس نے مستقبل میں امریکی ڈالر کی تقدیر ہی بدل دی۔

اس ڈیل کے مطابق امریکہ مستقبل میں سعودی عرب کی کسی بھی ممکنہ حملے سے بچنے کے لئے مدد کرے گا، اس مقصد کے لئے وہ سعودی عرب کو ہر قسم کو جدید ترین فوجی اسلحہ بھی فراہم کرے گا اور اس کے بدلے سعودی عرب اپنی زمین سے نکلنے والے تیل کو صرف ڈالر کے عوض ہی فروخت کرے گا۔ یوں تیل کی فروخت ڈالر میں کی جانے لگی اور یہیں سے مشرق وسطی، مڈل ایسٹ کے ممالک کا عروج شروع ہوا۔ 1960 میں ’آرگنائیزیشن آف دی پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز‘ ، اوپیک کا قیام عمل میں آیا۔ ’اوپیک‘ کے قیام کے بعد دنیا میں تیل کی تمام تجارت ڈالر میں ہی ہونے لگی۔

یہاں امریکی ڈالر کی بالادستی کا تیسرا مرحلہ سامنے آتا ہے جس نے ڈالر کو مستحکم طور پر عالمی کرنسی بنا دیا۔ ’برٹین ووڈز معاہدے‘ کی رو سے کوئی بھی ملک ڈالر کے عوض امریکہ سے مقررہ مقدار میں سونا حاصل کر سکتا تھا۔ اس سے 1970 میں امریکہ کے سونے کے ذخائر کم ہوتے ہوتے دس ہزار ٹن رہ گئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب امریکہ کے لئے ڈالر کے عوض سونا واپس کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا۔ امریکہ کے اس وقت کے صدر رچرڈ نکسن نے عارضی طور پر ڈالر کے عوض سونے کی تبدیلی کے معاہدے کو منسوخ کر دیا اور یوں ’برٹین ووڈز معاہدہ‘ عملی طور پر ختم ہو گیا۔

اب دنیا کا ہر ملک اپنی کرنسی کا ایکسچینج ریٹ متعین کرنے میں آزاد ہوا اور کرنسی سونے سے منسلک بھی نہ رہی۔ چنانچہ اب کسی بھی کرنسی کی قدر جانچنے کا پیمانہ ڈالر یا اس کے مساوی سونے سے منسلک نہیں رہا تھا بلکہ اس کرنسی کا عالمی مارکیٹ میں استعمال یا اس کی طلب، ڈیمانڈ ہی اس کی قدر متعین کرتا تھا۔ یعنی اب یہ بات اہم ہو گئی تھی کہ آپ کی کون سی کہاں کہاں استعمال ہو سکتی ہے اور اس سے کیا کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں امریکی ڈالر وہ کون سی تھی جس سے آپ اس صدی کی سب سے اہم چیز تیل خرید سکتے تھے۔ اس لئے اب بھی زیادہ ممالک نے اپنے زر مبادلہ کے زیادہ تر ڈالر میں ہی رکھے تا کہ وہ عرب ممالک سے اس کے بدلے تیل خرید سکیں۔

اس کے علاوہ امریکی بالا دستی کی ایک اہم وجہ اور بھی ہے۔ خوشحال ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر تو زیادہ ہوتے ہیں جبکہ تجارت کے لئے وہ اس میں سے ایک مخصوص رقم ہی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے اگر ایک خوشحال ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ایک سو ارب ڈال کے ہوں گے تو وہ اس میں سے بیس ارب ڈالر ہی تجارت کے لئے استعمال کر رہا ہو گا، اور اس کے پاس باقی کے اسی ارب ڈالر اضافی ہوں گے۔ جس طرح ہم اپنے بچائے ہوئے پیسے کو جمع کرنے کے بجائے انہیں سٹاک مارکیٹ، سیونگ سرٹیفیکیٹ یا بانڈز کی صورت سرمایہ کاری میں استعمال کرنا پسند کرتے ہیں، اسی طرح ملک بھی اپنے اضافے زرمبادلہ کے ذخائر کی امریکی ٹریژری بانڈز میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

یہ ٹریژری بانڈز امریکی حکومت کی طرف سے جاری کیے جاتے ہیں اور مختلف ممالک اس میں اس غرض سے سرمایہ کاری کرتے ہیں کہ انہیں مستقبل میں اس سرمایہ کاری پہ معقول منافع ملے گا۔ امریکی ’فیڈرل ریزرو‘ اور ’یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ٹریژری‘ کے مطابق مئی 2022 تک دوسرے ممالک نے امریکی ٹریژری سیکورٹی سمیت تقریباً سات اشاریہ چار 7.4 ٹریلین امریکی ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ فرانس، انڈیا اور روس کے مشترکہ جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔

اس بے شمار پیسے کی بدولت امریکہ معاشی ترقی، دفاعی اخراجات، صنعتی پیداوار اور بڑے بڑے مالیاتی اداروں، ورلڈ بنک، آئی ایم ایف کو فنڈ دینے کا ایک اضافی فائدہ بھی موجود ہے۔ ان بے شمار وسائل کے ساتھ امریکہ کو دوسرے ممالک پر ایک فیصلہ کن انداز میں غیر منصفانہ کنٹرول بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی ملک امریکہ کی مرضی کے خلاف چلنے کی کوشش کرے تو امریکہ میں موجود ان کے ڈالر کے ذخائر کو منجمد بھی کر دیا جاتا ہے۔ یوں دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی امریکی ڈالر ہے، امریکہ اس کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کی بیک پہ امریکہ پہ اس کی مقررہ مقدار میں سونا محفوظ رکھنے کی کوئی پابندی بھی نہیں ہے اور اسی بنیاد پر امریکہ کو دنیا میں سپر پاور کی حیثیت ہے۔ دنیا کے چند ممالک تجارت کے لئے آپس میں اپنی لوکل کرنسی استعمال کرنا شروع ہو گئے ہیں لیکن عالمی تجارت میں امریکی ڈالر کی ضرورت اور دنیا کے معاشی نظام میں امریکی اس کی برتری آج بھی سب کرنسیوں پر فیصلہ کن برتری کی حامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments