دھمکیاں یا ڈائیلاگ: کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے


عمران خان پر حملہ ہوا جس کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے دھمکیوں کا لامتناہی سلسلہ تھمنے میں آ رہا۔

حکمران اتحاد کی ہر جماعت اور رہنما اور دوسرے لوگوں نے مذمت کی حالانکہ عمران خان اور ان کی جماعت کا ایسے معاملات پر ماضی میں جو رویہ رہا اگر دوسری سیاسی جماعتیں وہی رویہ اختیار کرتیں تو نہ جانے ان پر کیا کیا الزامات لگتے۔ بے نظیر بھٹو پر حملے میں جاں بحق ہو گئیں تو پی ٹی آئی کے سوا ہر ایک نے مذمت کی۔ عمران خان نے انہیں اپنی موت کا خود ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مذمت سے احتراز کیا۔

احسن اقبال کو گولی لگی تو اسے عوامی جذبات کی تعبیر دی، کہ جمہوریت میں عوامی جذبات پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ ابصار عالم اور حامد میر نشانہ بنے، لوگوں نے مذمت کی، پی ٹی آئی نے کہا ڈرامہ ہے۔

کلثوم نواز ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھیں، پی ٹی آئی نے کہا سب جھوٹ ہے، یہ ہسپتال نہیں، بیوٹی پارلر ہے۔ وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں، اعلان کیا گیا کہ یہ دیکھیں، پارسل میں بند ہو کر آ رہی ہے۔

عمران خان پر حملے کے بعد تین افراد پر ایف آئی آر درج کرانے کا اعلان کیا گیا جن میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے علاوہ ایک حاضر سروس میجر جنرل کا نام بھی شامل ہے۔

اپنی حکومت ہونے کے باوجود وقوعے کی ایف آئی آر سپریم کورٹ کے حکم پر درج ہوئی، کیونکہ اس کے مندرجات پر عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب کے درمیان اتفاق نہیں تھا۔ کسی حاضر سروس فوجی افسر کے خلاف شواہد کے بغیر ایف آئی آر کا اندراج ایک انوکھا واقعہ ہوتا۔ لانگ مارچ کی سکیورٹی و انتظامات یکسر صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جو جے آئی ٹی مقرر کی، اسے کام کرنے کا موقع دیے بغیر نئی بحث چھیڑ دی گئی، گویا آگ پر پانی ڈالنے کی بجائے تیل چھڑکا گیا۔

فواد چودھری کے اشتعال انگیز بیان پر مشتعل ہجوم نے فیصل آباد میں رانا ثنا اللہ کے گھر اور لیگی رہنماؤں کے ڈیروں پر حملے کیے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر انور زیب خاں نے کلاشنکوف لہراتے ہوئے سرعام کہا ”رانا ثنا اللہ! سن لو ہم اسلحے کے ساتھ اسلام آباد آرہے ہیں“ ۔ عثمان ڈار نے کہا ”امپورٹڈ حکومت کی اس گھٹیا اور نیچ حرکت کا جواب دینے آخری حد تک جائیں گے۔ خان ہماری ریڈ لائن ہے“ ۔

اسی قسم کے دھمکی آمیز بیانات تحریک انصاف کے دیگر رہنما بھی دے کر اشتعال بڑھاتے رہے۔ عمران خاں نے بلا ثبوت تین استعفوں تک احتجاج جاری رکھنے کی کال دے کر کشیدگی میں اضافہ کیا۔ ان کا مطالبہ جلد انتخابات کا ہے، تو وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں تو یہ مقصد فورا حاصل ہو سکتا ہے۔ عمران اس طرف آنے کے بجائے پروٹوکول کے مزوں کے ساتھ حکومتی خزانے پر احتجاج اور لانگ مارچ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ”مرنے مارنے“ کی اس فضا میں کیا انتخابات ممکن ہیں؟ اگر انہیں کامیابی کا یقین ہے تو پھر فضا بہتر بنانا، ان کی ذمہ داری ہے، نہ کہ اپنے راستے میں کانٹے بچھا نا۔

جب وزیر اعظم کے دستخطوں کے بغیر قومی اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے، نہ نئے انتخابات تو پھر وہ غیر آئینی دباؤ سے اپنا مطالبہ کیوں منوانا چاہتے ہیں؟ اللہ نے سانحے میں محفوظ رکھا ہے تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ مذاکرات کے دروازے کھولیں، سیاسی ایف آئی آر کی ضد چھوڑ کر تفتیشی اداروں کو اپنا کام کرنے دیں۔

جذباتیت ملک و قوم کے لیے سم قاتل ہے لیڈر کیسے ہوتے ہیں اس کے لئے ماضی کے واقعات سامنے رہنے چاہئیں۔

عہد ایوبی ( 1963 ء) میں جب نواب آف کالا باغ امیر محمد خان گورنر تھے جماعت اسلامی کے لاہور اجتماع میں سید ابوالاعلیٰ مودودی خطاب کر رہے تھے۔ اس دوران اجتماع پر حملہ ہوا۔ خیموں کو آگ، اور اجتماع پر گولیاں چلائی گئیں۔ سید مودودی سٹیج پر کھڑے رہے۔ انہیں بیٹھنے کو کہا گیا تو انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا: ”میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا؟“

ایک کارکن اللہ بخش کی جان بھی گئی۔ مولانا نے کارکنوں کو صبر کی تلقین کی اور اپنی تقریر وہیں سے شروع کی جہاں سے چھوڑی تھی۔ وہ چاہتے تو ہجوم کو مشتعل کر کے شہر کو آگ میں جھونک سکتے تھے مگر لاہور میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ انہوں نے ایک ہی بات کہی کہ میں نے ایف آئی آر خدا کی عدالت میں لکھوا دی ہے جہاں صرف انصاف ہوتا ہے۔

1973 ء میں اپوزیشن کے لیاقت باغ اجتماع پر گولیاں چلیں، بہت سے پختون بھائی مارے گئے۔ ولی خان ان کی لاشیں اٹھا کر لے گئے۔ وہ چاہتے تو فضا میں صوبائیت کا زہر گھول سکتے تھے مگر ان کی بصیرت اور صبر بروئے کار آئے، پاکستان ایک بڑے فساد سے محفوظ رہا۔

آصف زرداری نے بینظیر بھٹو کے الم ناک قتل پر ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگا کر لیڈر ہونے کا ثبوت دیا۔

شریف خاندان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے، جلاوطنی کے دکھ اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ تاحیات نا اہل ٹھہرائے گئے، ناکردہ گناہوں پر 11 سال اور بیٹی کو 7 سال قید کی سزا ہوئی۔ وہ لندن میں اپنی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کو بستر مرگ پر چھوڑ کر سزا بھگتنے کے لیے پاکستان آ گئے۔ اتنی نا انصافیوں کے باوجود انہوں نے کبھی پاکستان کی سلامتی کے خلاف ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، ان کی پھانسی کی سزا سنانے والے ججز میں سے نسیم حسن شاہ نے اقرار بھی کیا کہ بھٹو کی پھانسی کی سزا دباؤ کا نتیجہ تھی۔ اس کے باوجود بدلہ لینے کا کسی نے اعلان کیا نہ ”پاکستان توڑنے کی بات کی۔

لیڈر ایسے نازک مواقع پر جذبات کی آگ بھڑکانے کے بجائے ’ان پر پانی ڈالتا ہے اور قوم کو تقسیم نہیں ہونے دیتا۔ ذاتی اور گروہی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ اقتدار نہیں ملک کو بحران سے محفوظ کرنے کی مساعی میں جت جاتا ہے۔ قاتلانہ حملے سے بچنے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے عمران خان پاکستان کے 3 ٹکڑے ہونے کی بات کرتے اور کہتے ہیں کہ انہیں شیخ مجیب الرحمٰن کی طرح دباؤ میں لایا جا رہا ہے۔

سانحہ مشرقی پاکستان کی ایک تاریخ ہے وہاں اکثریت حاصل کرنے والے کو کارنر کیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں 2018 ء کے عام انتخابات میں عمران خاں واضح تو کیا سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکے، اسٹیبلشمنٹ نے چھوٹی سیاسی جماعتوں اور الیکٹیبلز کے ذریعے اقتدار کا ہما ان کے سر پر بٹھایا۔ اسٹیبلشمنٹ ”نیوٹرل“ ہوئی تو چھوٹی سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم میں آ گئیں، عمران خاں کے خلاف آئینی عمل تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کامیاب ہو گیا۔

عمران خاں ”سازشی بیانیہ“ گھڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور وزیر آباد کا واقعہ رونما ہوا۔ اس کے بعد وہ فوج کے ادارے پر براہ راست الزامات لگائے اور لگاتے چلے جا رہے ہیں، پاک فوج کی طرف سے بھی سخت رد عمل آیا جس میں الزامات کو بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر حکومت سے فوج اور اس کے اداروں کو بدنام کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ کیونکہ آئین میں فوج کی ساکھ کو خراب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

ترقی یافتہ ممالک اور برطانیہ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف الگ الگ منشور رکھنے کے باوجود بھی حساس اور نازک مواقع پر ملکی اور قومی مفاد کے لیے ایک ہو جاتی ہیں،

برطانیہ میں حزب اختلاف کو شیڈو کابینہ بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہے اور یہ ممبران حقیقی کابینہ کے ممبران کی طرح امور مملکت سے مکمل آگاہ ہوتے ہیں اور ضرورت کے وقت ملک کے دفاع اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

پاکستان کے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملکی سلامتی اور سرحدوں کے تحفظ، کے لیے ملک کے تمام طبقات ایک پیج پر آئیں اور عدم برداشت کے بجائے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا جائے۔

ہماری قومی سیاست کا المیہ ہے کہ ہم مخالفت میں ایک دوسرے کا وجود مٹانے پر تیار ہو جاتے ہیں، حالانکہ ملک کی تعمیر و ترقی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھنے سے ہی ممکن ہے۔ عدم برداشت، گرانے، مٹانے، اور ایک دوسرے کو نامناسب القابات سے یاد کرنے کے باعث ہمارا معاشرہ تعصبات، نفرت اور بداخلاقی کا مظہر بنتا جا رہا ہے۔ قومی استحکام اور ترقی کے لیے برداشت، تحمل اور صبر کی جتنی اب ضرورت ہے شاید ماضی میں اتنی کبھی نہ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments