ہاؤسنگ سکیموں کی بھرمار


ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک کام کی تکمیل اور ایک مقصد کے حصول کی خاطر بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں جس کا نتیجہ کچھ وقت بعد شدید نقصان اور پشیمانی کی صورت میں سامنے آ جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہترین اور بر موقع مثال ہمارے ہاں تھوک کے حساب سے راتوں رات ہزاروں کی تعداد میں بننے والی ہاؤسنگ سکیمیں ہیں۔ پچھلے پندرہ بیس سالوں کے دوران اس سیکٹر میں راتوں رات امیر بننے کے چکر میں بے دریغ سرمایہ کاری ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہماری زرعی زمینیں، کھلے میدان، جنگلات اور کھیت کلیان مسلسل سکڑ رہے ہیں۔ یہ ہاؤسنگ سکیمیں چونکہ زیادہ تر زرعی زمینوں پر بنائی گئی ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس لیے اگر ان ہاؤسنگ سکیموں کی یہی رفتار رہی تو تھوڑے عرصے بعد شاید ہمیں کاشتکاری اور زراعت کے لیے ڈھونڈنے سے بھی زرعی زمین نہیں ملے گی۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم رنگ روڈ سے ملحقہ جس علاقے موضع سفید ڈھیری میں پھلے بڑھے ہیں وہاں کی زرعی زمینیں دریائے باڑہ کے پانی سے سیراب ہوا کرتی تھیں، یہ پانی مختلف کھالوں اور نالوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے باڑہ کے نشیبی علاقوں شیخ محمدی، سنگو لنڈے، سر بند اور پشتخرہ بالا سے ہوتا ہوا ہمارے گاؤں میں پہنچ کر وہاں سے یونیورسٹی ٹاؤن، پاؤکہ اور آبدرہ کے راستے تہکال تک کے علاقوں کو سیراب کرتا تھا۔ اس پانی کو بڑے شوق سے پینے، نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی دریائے باڑہ سے انگریزوں کے دور حکومت میں بھی پشاور چھاؤنی کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاتا تھا جس کے لیے پشتخرہ پایان میں باقاعدہ پمپنگ ہاؤس بنایا گیا تھا جس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔

اسی طرح وہ مناظر اب بھی ہماری یادداشت میں محفوظ ہیں جب شام ڈھلتے ہی گاؤں کی خواتین مٹکے اپنے سروں پر اٹھا کر اور بغلوں میں داب کر قریبی ندی نالوں سے پانی بھرنے کے لیے ٹولیوں کی شکل میں گھروں سے نکلتی تھیں۔ اس بہانے گاؤں کی خواتین کی جہاں چھوٹی موٹی آؤٹنگ اور چہل قدمی ہو جایا کرتی تھی وہاں انہیں راہ چلتے ہوئے اور پانی بھرتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنی دن بھر کی بپتا سنا کر اپنی دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے کا موقع بھی ہاتھ آ جاتا تھا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب نہ تو آبادیاں اتنی تیزی اور بے ہنگم طور پر پھیلی ہوئی تھیں اور نہ ہی ابھی ٹیلی وژن، ٹیلی فون، موبائل اور انٹر نیٹ اتنے عام ہوئے تھے کہ اب جن سے فرصت کے لمحات نکالنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ اب تو ہماری سستی و کاہلی، اخلاقی پستی اور خود غرضی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں اپنے گھروں کے فلش ان ہی متذکرہ صاف پانی کے نالوں میں شامل کرنے پر بھی کوئی شرم نہیں آتی ہے اور نہ ہی اب اس عمل کو کوئی برا سمجھتا ہے جس سے ان ندی نالوں میں بہنے والے صاف پانی کا تصور ہی ناپید ہو گیا ہے۔

سڑکیں اور نئی نئی بستیاں زندگی کی ضرورت ہیں لیکن یہ ضروریات زرعی زمینوں کی بربادی کی قیمت پر پوری نہیں ہونی چاہئیں۔ رنگ روڈ بلا شبہ وقت کی ضرورت تھی لیکن اس کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے وہ اس کے فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنا ہے۔ رنگ روڈ کو اگر محض ٹریفک کے متبادل نظام کے طور پر لاگو کر کے اس کے ارد گرد قیمتی زرعی زمینوں کو جنگلے لگا کر یا کسی بھی طرح حتیٰ کی قانون سازی کے ذریعے ضائع ہونے سے محفوظ بنایا جاتا تو اس کا زرعی شعبے کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کی بجائے فائدہ ہوتا لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ رنگ روڈ کے آرپار ہمیں کئی کئی میل تک زرعی زمینیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں بلکہ ان کی جگہ بھانت بھانت کی ہاؤسنگ سکیمیں ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔

اسی رنگ روڈ کے ارد گرد واقع زرعی زمینوں پر کبھی لوگ سائبیریا اور وسطی ایشیا سے غول در غول آنے والے جنگلی پرندوں کا شکار کیا کرتے تھے لیکن اب نہ تو ہمیں وہ پرندے نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ شکاری اور شکار گاہیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو کبھی شکاریوں کی دلچسپیوں کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ حسرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ افراتفری اور بدانتظامی حکومتی اداروں اور منتخب نمائندوں کی آنکھوں کے سامنے اور ان کی ناکوں کے نیچے ہو رہی ہے اور بدقسمتی سے کسی بھی سطح پر اس پریشان کن صورتحال کی روک تھام اور اصلاح احوال کے لیے نہ تو کوئی آواز اٹھتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور نہ ہی کوئی قدم اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو ہماری اجتماعی بے حسی اور لاپرواہی کی انتہا ہے جس پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments