خوشحال خان خٹک: پختون قوم پرست یا مغل پرور


مشترکہ زبان کے حامل اور پختون ولی کے عمرانی معاہدے میں بندھے ہوئے گروہ جو پختون کہلاتے ہیں، پختون ولی کو اکثر بھول جاتے ہیں لیکن تربورولی کو نہیں بھولتے۔ تربورولی شریکوں کو کہتے ہیں جن کو برباد کرنا آسان لیکن برداشت کرنا روایتی پختون معاشرے میں مشکل سمجھا جاتا ہے۔ یوسفزئی، جو اپنی مخصوص اور منفرد روایات کی وجہ سے پختونوں کے سٹف نک ارسٹوکریٹ کہلانے کے مستحق ہیں، پہلے کابل سے مغلوں کے ہاتھوں لٹے پٹے پشاور پہنچے اور پھر بابر کے سمدھی بن کر دہلی دربار میں بیٹھ گئے، لیکن بابر کے مرنے کے بعد اپنی نسلی عصبیت کی وجہ سے مغلوں کے ساتھ نہ چل سکے۔

خوشحال خان خٹک، اٹک پر مغلوں کے لئے چنگی وصول کرنے پر مامور تھے، جن کے والد کو یوسفزئیوں نے قتل کیا تھا، مغل ایماء پر یوسفزئیوں کو ہر قسم کا نقصان پہنچانے کے درپے رہتا تھا۔ مغلوں کی خاطر شاید ہی کسی اور پختون نے اتنے پختون قتل کیے ہوں جتنے خوشحال خان خٹک نے اکیلے قتل کیے ہیں۔ جب تک مالی غبن میں گرفتار ہو کر خوشحال خان اپنی مغل پروری کے ہتھے نہیں چڑھا تب تک اس نے یوسفزئی پختونوں کے خلاف مغلوں کو انگیخت کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا، حتیٰ کہ خوشحال خان کی قید کے دوران مغل بادشاہ نے خوشحال خان کے بچوں اور خواتین کو بھی گرفتار کرنے کے لئے دستے بھیجے جن کو یوسفزئیوں نے پختون ولی کے تحت اپنے علاقے میں پناہ دے کر ناکام بنایا۔

خوشحال خان مغلوں کی قید سے واپس آیا تو اپنے وہ مشہور اشعار لکھے جو ان کے مزار پر بھی لکھے ہوئے ہیں، جن میں زبان زدعام یہ شعر ہے،

د افغان پہ ننگ می اوتڑلہ تورہ
ننگیالی د زمانے خوشحال خٹک یم

جس کا مطلب ہے کہ میں نے افغان یعنی پختون غیرت کے نام پر تلوار باندھ لی، میں زمانے کا غیرت مند خوشحال خٹک ہوں۔ جس کو آج پختون قوم پرست خوشحال خان کی پختون قوم پرستی کی نشانی کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ دراصل یہ اشعار ان کا اعتراف جرم ہے۔ جو انہوں نے ایک معمولی چنگی کے بدلے برسوں مغلوں کی خدمت اور اپنے اندھے انتقام میں پختونوں کے خون سے ہاتھ رنگنے اور مغلوں کے ہاتھوں ذاتی توہین کا مزہ چکھنے کے بعد ایک سو اسی درجے کی قلابازی کھانے کے بعد لکھے۔

ان اشعار میں خوشحال خان یہ نہیں کہتے کہ میں نے پختون غیرت کے نام پر تلوار باندھی ہوئی ہے بلکہ وہ اب اعلان کرتے ہیں کہ میں نے مغل پروری سے تائب ہو کر پختون عزت اور غیرت کے نام پر تلوار باندھ لی۔ تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ یہ اشعار خوشحال خان نے جوانی کے جوش اور پختونوں کی محبت میں نہیں لکھے بلکہ یہ انہوں نے کوئی پچاس سال کی عمر تک پختون دشمنی کرنے کے بعد اپنے کیے پر ندامت ظاہر کیے بغیر محض ذاتی توہین کا بدلہ لینے کی خاطر لکھے۔ اگر وہ اپنی مغل پروری پر شرمندہ ہوتے تو ضرور ان پختون قبائل کے گھر جرگہ لے کر جاتے جن کے ساتھ انہوں نے مغلوں سے بڑھ کر زیادتیاں کی تھیں اور جنہوں نے ان سے دشمنی کے باوجود پختون ولی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے گھر کی عزت کو اپنے علاقوں میں پہنچا کر مغل فوج سے بچا لیا تھا۔

خوشحال خان جب مغل قید سے چھوٹ کر آیا تو ہر اس علاقے اور قبیلے کے پاس گیا جہاں سے اسے مغلوں کے خلاف مدد ملنے کی امید تھی، لیکن ان کے ماضی کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ان کے اپنے قبیلے اور بیٹوں کے ساتھ ساتھ، دوسرے کسی علاقے یا قبیلے نے بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونا گوارا نہیں کیا۔ اس لیے وہ دور دراز کے قبائل میں جاکر اپنے ساتھی ڈھونڈنے نکلا۔

جب ان کے قریب کے قبائل ان کے ساتھ کھڑا ہونے پر تیار نہیں ہوئے، کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ خوشحال خان یہ سب کچھ مغلوں کی نظر میں اپنی عزت و اہمیت بڑھانے اور حیثیت بحال کرنے کے لئے کرتا ہے، تو خوشحال خان نے اپنے اشعار کے ذریعے ان کی عزتیں ایسی تار تار کیں کہ آج تک ایک پختون قبیلہ دوسرے پختون قبیلے کو ان اشعار کے ذریعے لتاڑتا رہتا ہے۔ جن میں انہوں نے کسی کو کتے سے اور کسی کو گدھے سے بدتر قرار دے کر دل کا بوجھ ہلکا کیا تھا لیکن آج پختون سمجھتے ہیں کہ شاید یہ سچ ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خوشحال خان محض ایک شاعر تھے کوئی دانشور یا قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے مسائل حل کرنے والے کوئی پیر روشان باچا خان یا شیر شاہ سوری نہیں تھے۔

خوشحال خان جب مغل لشکر کے آگے گھوڑا دوڑاتا ہوا پختون علاقوں پر حملہ آور ہوتا تھا تو تب بھی وہ خود کو راست باز سمجھتا تھا اور جب مغلوں کے خلاف پختون لشکر اکٹھا کرنے میں ناکام ہوا تو ساتھ نہ دینے والے پختونوں کو کتے اور گدھے سے بدتر لکھتے ہوئے بھی خود کو راست باز کہتا ہے۔ پہلے وہ اپنی تلوار سے پختونوں کے سر اتارتا تھا اور اب اپنے قلم سے ان کی پگڑیاں اتارنے لگا۔ تبھی تو پاکستان کے مقتدرہ قوتوں نے انہیں صاحب سیف و قلم مشہور کرایا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی تلوار اور قلم دونوں پختونوں کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کیے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پختون قوم پرست نہیں تھا تو اتنا مقبول کیسے ہوا کہ پختون قوم پرست انہیں اپنا ہیرو پختون دانشور انہیں شاعر بے بدل اور عام پشتون ان کی محبت میں اپنے بچوں کے نام ان کے نام پر رکھتے ہیں، جبکہ دراصل وہ اقتدار پرست پختون دشمن اور منتقم مزاج خودساختہ راست باز تھے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ روس کے خلاف بین الاقوامی منصوبہ سازوں اور لوکل پارٹنرز نے اقبال کی طرح ان کی تلوار باز شاعری کو بھی پختون معاشرے میں تشدد بھڑکانے کی خاطر غیر متناسب انداز میں پروجیکٹ کیا۔

جب روس کے ساتھ افغانستان میں امریکی کشمکش عروج پر تھی تو سرکاری سرپرستی میں رحمان بابا جیسے صلح کل پشتو شاعر کو نظر انداز کر کے خوشحال کو لارجر دین لائف انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ پختون معاشرے کی تاروپود بکھیر دی گئی بلکہ باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفے اور تحریک کو انتہائی نقصان پہنچایا گیا۔ اس پروپیگنڈے کا کمال یہ ہے کہ باچا خان کے پیروکار آج تک خوشحال خان کو اپنی حریت فکر کا نمائندہ سمجھتے ہیں، جب کہ خوشحال خان باچا خان کے فلسفے کی سراسر ضد تھے۔

بقول پختون تاریخ دان اور دانشور ڈاکٹر سہیل خان، ایک سیمینار میں کسی نے خوشحال خان کو پختون قوم پرستی کا بانی کہا تو وہاں پر بیٹھے باچا خان نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص پختونوں سے لڑتا رہا ہو وہ کیسے پختون قوم پرست ہو سکتا ہے قوم پرست تو اپنی قوم سے محبت کرتا ہے۔

ضیاء دور میں رحمان بابا کی صلح کل شاعری کے برخلاف خوشحال خان کو سرکاری وسائل پر پروموٹ کیا گیا تاکہ ان کی تلوار باز شاعری کو پختونوں کی بربادی اور باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفے کے خلاف استعمال کیا جائے۔ جب کہ اصلیت یہ ہے کہ پختون آج خوشحال خان سے جتنی عقیدت رکھتے ہیں ان کی زندگی میں ان پر اس کے عشر عشیر بھی اعتبار نہیں کرتے تھے، ورنہ وہ اپنے علاقے اور لوگوں سے دور بیکسی کی موت نہ مرتے۔

مغلوں سے لڑنے کے خوشحال خان کے دو مقاصد تھے : ایک ذاتی انتقام اور دوسرا یوسفزئی کو مغل دربار میں شرمندہ کرنا اور اپنی قوم کی نظروں سے گرانا۔ یہ بالکل ویسی صورت حال تھی جب اولف کیرو نے کشمیر میں پختون گھسا کر باچا خان کو کانگریس کی نظروں میں گرانے اور ہندوستان سے ان کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔

جارج برنارڈ شا نے بائبل کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ روئے زمین پر خطرناک ترین کتاب ہے اسے تالا لگا کر رکھیں تاکہ آپ کے بچے گمراہ نہ ہوں۔ ایسی ہی صورتحال خوشحال خان خٹک کی شاعری کے بعض بیہودہ حصوں کی ہے جسے کوئی روشن خیال سے روشن خیال اور شدید قوم پرست پختون بھی اپنی بہن بیٹی اور ماں کے سامنے بیان کرنے اور وضاحت کرنے کا کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ یاد رہیں خوشحال خان نے یہ اشعار سترہویں صدی میں لکھے ہیں، جب پختون بے لچک اقدار اور نہایت روایتی انداز میں زندگی بسر کرتے تھے لیکن یہ اشعار آج تک پختون معاشرے کے اخلاقی معیار پر پورے نہیں اترتے۔

شیر شاہ سوری پختون قوم پرستی کا آئیڈیل اور حقیقی ہیرو ہے، جس پر اس تحریر کے اگلے حصے میں بات ہوگی۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments