زرد پھول اور نور مقدم


کسی طور اماں کو سنبھالا گیا کہ اس رومال کا معمہ جان پائیں۔ اتنے میں نقن نے بڑے بھائی اور بابا کے خوف سے تمام آنکھوں دیکھی طوطے سی فرفر سنا ڈالی کہ لاڈلی خوشی کے ہنڈولوں میں جھول رہی ہے۔ نام افسری کا ہے پر ٹھاٹ عین نوابی ہیں۔ اس پر نوشہ میاں سے گہر نایاب کا ساتھ، اماں جانے کیوں سراسیماں ہو گئیں جبکہ اصلاً انہیں چاہیے کہ شکرانہ پڑھیں، بی بی کی نیاز کریں، چندے ماہتاب بٹیا نے قسمت بھی مثل آفتاب پائی۔

نقن نے جس وثوق سے یہ کہا، گھر کے سب مرد ایمان لے آئے، لاکھ محبتی باپ اور لاڈ اٹھانے والے بھائی سہی پر تھے تومرد ہی! یہی سمجھ کے اطمینان کیا کہ ان عورتوں کا تو وتیرہ ہے ہر خوشی غمی پے ایک سا نیر بہائے بنا چین کہاں؟ اسی خاطر اماں اچانک مہینوں سے بچھڑی بیٹی کی نشانی پاکر اوسان باختہ ہو گئیں۔ باپ تو باپ بیٹے بھی اپنی بھولی بمعنی کم عقل اور نازک مزاج بمعنی بات بے بات جذباتی اماں پے دبے دبے مسکرانے لگے۔ ماں بھی تو عورت ہی ہے، جسے قدرت نے ان سے آدھی عقل عطا کی۔

ادھر بہوئیں ساس کو قرآن کی ہوا دیتے ہوئے، گلاب پاش سے عرق چھڑک رہی تھیں، ایک با آواز بلند دعائیں پڑھ کے دم کر رہی تھی تو دوسری دوا پلانے والی چاندی کی نقشین کٹوریا میں خاک شفا گھول لائی اور کوری روئی کے پھوئے سے ساس کے سوکھے حلق میں ٹپکانے لگی۔

عمر میں برسوں چھوٹی، ہزار لاڈ پر بھی نیک صفت اور بے ضرر اکلوتی نند کے لئے وہ بھی بے چین ہو گئیں۔ جانتی تھیں کہ ساس ان ماؤں میں سے نہیں جو ایسے ہاتھ پیر چھوڑ دیں۔ یقیناً کچھ غلط ہے جو غش کھا کے گر پڑیں۔

کچھ ہی دیر میں مردان خانے سے پوچھا گیا، ہوش آ گیا یا حکیم بلا لیا جائے؟
بڑی نے اپنی دیورانیوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ کیا جواب دوں؟

ابھی جواب سوجھا بھی نہ تھا کہ ماں نے ایک آہ بھری یہ دیکھتے ہی بڑی بہو نے پیام بھجوا دیا کہ اماں اٹھ بیٹھی ہیں۔

ماں پھر بین کرنے لگیں اور اب تمام بہوؤں نے ساس کے سر سے سر ملا لیے، ماؤں کو یوں روتے دیکھ کر گود کے بچوں نے بھی ساتھ دینے کی ٹھانی ایسی پٹن مچی کہ الامان!

دوبارہ سب گھر جمع ہو گیا۔ ابا میاں نے نرمی سے سمجھایا کہ بیوی، نقن بتا تو رہے ہیں کہ بالی بفضل تعالی سکھ چین سے ہے، ہماری امید سے بڑھ کے آرام و آسائش میسر ہے ماشا اللہ جب بیٹی اپنے گھر خوش ہو تو مائیں یوں رویا نہیں کرتیں، بد شگنی نہ کرو۔

ماں تڑپ گئیں۔ ”وہ خوش نہیں! خوش ہوتی تو کبھی یہ زرد پھول نہ آتے“ سبھی ٹھٹک گئے۔ معلوم ہوا کہ ماں نے یہ رومال خود تیار کیا تھا، ایک جانب زرد پھول ماں نے کاڑھ کے کچی کھونپ سے تین حصے ترپ کر بیٹی کے سنگھار دان میں استر کے نیچے بچھا کر سمجھایا تھا کہ اگر کوئی بات ایسی ہو کہ خط میں لکھنا مناسب نہ لگے تو اس رومال میں کسی طور لکھ بھیجنا۔ خوش ہو تو دوسری جانب گلابی ریشم سے پھول کاڑھنا اور دکھی ہو تو زرد ہی رکھنا۔ سسک پڑیں، اری ناجو گلابی ریشم کیوں نہ لگایا میری دلاری۔

ابا میاں نے بیٹے کو اشارہ کیا اور رومال ان تک پہنچ گیا۔ بظاہر جی کڑا کیے رومال کے بیچ لگے ململ پے لکھا پڑھا تو لگا، کسی نے دل مٹھی میں دبوچ لیا ہو۔ بھائی ابا میاں کو تک رہے تھے کہ معلوم ہو کیا متن ہے؟ ابا میاں نے کٹا ادھڑا رومال بڑے بیٹے کی جانب بڑھا دیا۔ بھائی نے بے تابی میں اونچی آواز سے پڑھا، لکھا تھا ”وصیت ہے کہ مجھے دادی کے پائنتی دفنایا جائے، سلام آخر“ یہ دیکھنا تھا کہ بھائیوں کے چہروں پے ہوائیاں اڑنے لگیں، عورتیں دہائیاں دینے لگیں۔

اسی رات فیصلہ ہوا کہ اس بار سب بھائی صبح کی پہلی گاڑی سے جائیں گے اور بصد اصرار بہن سے ملیں گے۔ ممکن ہوا تو کچھ دن کو ساتھ ہی لے آئیں گے۔

اس رات کوئی نہ سویا، بیویاں شوہروں کا سامان سفر باندھ رہی تھیں، ماما اور بوا گھر میں میسر سلف سے رستے کے لئے توشہ دان تیار کرنے میں جٹ گئیں، رہ رہ کر ایک دوسرے کو تسلی دے رہے تھے کہ گھر سے دور، نئی جگہ، اجنبی چہرے، میاں کی مصروفیت اور اس پے خسرہ جیسا موذی مرض۔ بالی گھبرا گئی ہو گی جو یہ لکھ بھیجا۔

رہیں ماں تو اسی پہر ٹھنڈے پانی سے غسل و وضو کر مصلے پر جا بیٹھیں اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ وظیفہ کرنے لگیں۔

المختصر۔ بھائی منہ اندھیرے گھر سے نکلے تو یہاں سب نے منتیں، نیازیں مان لیں کہ بالی خیریت سے ہوں اور بھیؤں کے ساتھ مسکراتی ہوئی آئیں۔

مگر جب فیصلوں میں اپنی کوتاہی ہو تو نہ وظیفے کارگر ہوتے ہیں نہ منت کام آتی ہے۔

بھائیوں کی سواری بنگلے پر رکی، پھاٹک کھلا پایا، اندر باہر ایک آدم اکٹھا تھا۔ لوگ ٹولیوں میں باہر کھڑے دھیمی آوازوں میں بات کر رہے تھے۔ انہیں دیکھ کے کئی نقن کو پہچان کر آگے آئے، کسی نے پکار کر کہا، ہائے ہائے بیگم ڈپٹی!

نقن سے گلے ملنے والے نے پرسہ دیا، بہت افسوس ہوا صاحب۔ ابھی تو کھانے کھیلنے کی عمر تھی۔

نقن نے وحشت سے پرسہ دار کو دور کیا اور بھائیوں کی جانب دیکھا۔ ایسے وقت میں درد کی شدت شاید انسانی ذہن میں ٹیلی پیتھی جیسی کوئی حس بیدار کر دیتی ہے، ایک لمحہ بھائیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، بنا کچھ کہے سب نے سب کی بات سمجھ لی اور روتے ہوئے اندر کو بھاگے۔

غسل و کفن ہو چکا تھا۔ میاں انہیں دیکھ کر ہمت۔ ضبط۔ افسری سب بھول کر بچے کی طرح مچل مچل کر روئے۔ احوال یہ سنایا کہ خسرہ بگڑ گئی اور گردن توڑ بخار نے جان لے لی۔ مزید یہ کہ تمام جسم دانوں سے بھرا ہے۔ کئی تو پھوڑے کی طرح رس رہے تھے۔ غسل بھی میاں نے اکیلے دیا کہ غسالہ نے مارے ماتا کے خوف انکار کر دیا تھا۔

غم سے نڈھال بھائیوں نے میت وطن لے جانے کی بات کی، جس پر داماد میاں کے چہرے پر ایک رنگ آ کے گزر گیا۔ سنبھل کر کہا، چونکہ وبائی مرض میں رخصت ہوئی ہیں اس لئے قانون کی رو سے کہیں اور منتقلی قابل گرفت جرم ہے ورنہ میں غیر زمین کے حوالے کرتا؟

دلیل وزنی تھی، بھائی تڑپ گئے مگر کوئی اور چارا نہ تھا لہذا یہی سوچا کہ دو بھائی واپس جائیں اور کم از کم اماں بابا کو لے آئیں تاکہ آخری دیدار کر لیں ورنہ تمام عمر صبر نہ آئے گا۔ میاں نے کہا، میں ڈاکٹر سے مشورہ کر کے بتاتا ہوں کہ ایسی حالت میں ہم دو دن ٹھہر جائیں تو کوئی مسئلہ تو نہ ہو گا؟

ڈاکٹر البرٹ کو بلایا گیا۔ جس نے سنتے ہی یہ کہہ کے منع کر دیا کہ جن دانوں میں پس پڑ گئی تھی وہ جگہیں گلنے لگیں گی اور بو آنے لگے گی۔

اس بات پر میاں آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر زار و قطار رونے لگے۔ بھائیوں کا بھی یہی حال تھا۔ بڑے بھائی جنھوں نے بالی کو بہن نہیں بیٹی ہی سمجھا اچانک تیورا کے کھڑے قد گرے۔ سب کے اوسان خطا ہو گئے۔

چھوٹے بھائیوں نے بھائی کو اس حال میں دیکھا تو دل چھوڑ دیا، بال بچوں والے یہ مرد ایسے ہڑک ہڑک کے رو رہے تھے جیسے پردیس میں یتیمی نے آ لیا ہو۔ میاں اپنی بھلا۔ ایک ایک کو ڈھارس بندھانے لگے۔

بڑے بھائی کو قسمیں واسطے دے کر شربت کیوڑہ کے دو گھونٹ بھی میاں ہی پلا پائے، بڑے بھائی اٹھ بیٹھے، سب کے دم میں دم آیا ہی تھا نجانے نقن کو کیا سمائی یک دم اٹھ کے اندر کو بھاگے۔ دیوان خانے میں فرش لگا دیا گیا تھا۔ اتنی جگہ تھی کہ سارے شہر کی عورتیں جمع ہو جاتیں تو بھی خالی رہتی مگر ان کی غریب الوطن بہن کا جنازہ دو عورتوں کے ساتھ رکھا تھا۔ ایک ڈاکٹر البرٹ کی نرس اور دوسری بالی کی ذاتی ملازمہ۔ نقن دیوانوں سی وحشت سے آگے بڑھے تو نرس نے روکنے کی کوشش کی، نقن کو جیسے حواس کھو چکے تھے۔ اسے اس زور سے ہٹایا کہ وہ دور جا گری۔

نقن نے گہوارے پر پڑی پھولوں کی چادر نوچ ڈالی، سیاہ مخملی غلاف اتار پھینکا۔ سر کی جانب بندھا کفن کھول رہے تھے جو میاں اور دو چھوٹے بھائی پہنچے۔

میاں یہ دیکھتے ہی شور کرتے ہوئے، آگے بڑھے۔ ”ارے نقن بھائی صاحب۔ کیا غضب کر رہے ہیں۔ میں آپ کو یہ نہیں کرنے دوں گا“ ۔

مگر اس بار دیر ہو چکی تھی! میاں کے جنازے تک آتے آتے۔ نقن کفن ہٹا کے چہرا دیکھ چکے تھے۔ میاں گھبراہٹ زدہ انداز میں بے ربط سا کچھ کہنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ”نقن بھائی صاحب یوں نہ کیجئے، میت کو تکلیف ہو گی۔ آپ کی بہن چھوئی موئی سی تو تھی۔ میت کا درد تو رستم نہ جھیل پائے۔ “ میاں کو کچھ ڈھنگ کا سوجھ ہی نہ رہا تھا کہنے کو بس جو منہ آ رہا تھا کہے جا رہے تھے اور پھر وہ ہوا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

نقن نے میاں کو زناٹے دار طمانچہ رسید کیا اور دونوں ہاتھوں سے گریبان پکڑ کر دھاڑے ”خبیث۔ تو تو کہہ رہا تھا کہ چہرہ دانوں سے بھرا ہے؟ دانہ تو ایک نہیں۔ مگر یہ نیل یہ خون کی پپڑیاں۔ ان کا جواب دے“

نقن کی بات سن کر دونوں بھائی جو میاں کا گریبان چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جھٹکا کھا گئے۔ بہن کو دیکھا۔

وہی چندا کی مورت مگر گہن زدہ پیلا چاند، چہرے پر چوٹوں کے نشان، ایک آنکھ پر خون آلود پٹی جیسے زخم اب بھی رس رہا ہو۔ یہ دیکھ بھائیوں کی آنکھوں میں بھی خون اتر آیا۔

جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments