خطے کی سیاست اور پاکستان میں انتشار!


یوں تو امریکیوں کو ساٹھ کی دہائی کے دوران ہی احساس ہو چلا تھا کہ پاکستان نہیں، خطے میں بھارت ان کا فطری اتحادی ہے، تاہم دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹیجک اتحاد کی بنیاد صدر کلنٹن کے دور حکومت میں اس وقت رکھی گئی، جب کارگل کی جنگ کے دوران امریکی خطے میں صورتحال کو قابو میں لانے کے لئے متحرک تھے۔ ایک طرف جب کہ جنرل زینی ہماری طرف سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقاتوں کے ذریعے ’ڈپلومیسی‘ میں مصروف تھے، تو دوسری طرف بھارت نے انہیں یہ کہہ کر ’خوش آمدید‘ کہنے سے انکار کر دیا کہ ان کا ملک سفارت کاری سفارت کاروں کے ذریعے کرنے کا عادی ہے۔

چنانچہ دونوں ملکوں کے سفارت کاروں نے طویل المدت تعلقات کی بنیاد رکھی۔ دوسری طرف کارگل کے بحران سے قبل وزیراعظم نواز شریف صدر کلنٹن کا اعتماد جیتنے کے بعد ، مبینہ طور پر پاکستان کے سلامتی کے اداروں سے بالا بالا، اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر اسامہ بن لادن کو ریٹائرڈ کمانڈوز کی ایک پرائیویٹ فورس کے ذریعے اغواء کیے جانے جیسے منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔ افغانستان میں عسکری منصوبہ سازوں کی سوچ کے برعکس وہ طالبان سے بھی جان چھڑانے پر آمادہ ہو چکے تھے۔ جبکہ بھارتی حکمرانوں سے ان کے قریبی تعلقات ذاتی سطح پر استوار ہو چکے تھے۔

پاکستان میں فوجی حکومت آئی تو امریکی جھکاؤ پوری طرح بھارت کی طرف ہو چکا تھا۔ بھارت میں پانچ روزہ قیام کے بعد صدر کلنٹن پاکستان میں پانچ گھنٹے کے لئے رکے تو مشرف کے ساتھ تصویر کھنچوانے تک کو بھی تیار نہیں تھے۔ تاہم صورت حال اس وقت یکسر بدل گئی جب نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان نے امریکی شرائط پر دہشت گردی کی جنگ میں اس کا اتحادی بننے کا فیصلہ کیا۔ نا صرف ایٹمی دھماکوں بلکہ سویلین حکومت کا تختہ الٹے جانے کے پاداش میں پاکستان پر عائد کی جانے تمام امریکی پابندیاں یکمشت اٹھا لی گئیں۔ آنے والے دنوں میں پاکستان امریکہ کا ’موسٹ فیورٹ نان نیٹو اتحادی‘ قرار دے دیا گیا۔ آسمان سے امریکی ڈالر برسنے لگے۔ فوجی آمر کو جمہوری مغربی دنیا کی ’ڈارلنگ‘ کا درجہ حاصل ہو گیا۔

تاہم جلد ہی دونوں قریبی اتحادیوں کے مابین مفادات کا ٹکراؤ واضح طور پر دکھائی دینے لگا۔ بد اعتمادی کا آغاز مشرف دور میں ہی شروع ہو گیا۔ اس سب کے باوجود سال 2007 ء تک امریکی مشرف کی صدارت میں بے نظیر کی حکومت قائم کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ تاہم بے نظیر کے منظر نامہ سے ہٹنے اور عام انتخابات کے نتیجے میں صدر مشرف مخالف حکومت قائم ہونے کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادی فوجی حکمران سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا۔

نئی سویلین حکومت کے لئے پندرہ بلین ڈالرز کی خطیر امداد کا اعلان کیا گیا۔ پاک بھارت تعلقات کی بحالی پر زور دیا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب جلا وطنی سے لوٹے نواز شریف کی سیفما کے فورم پر ’مشترکہ خدا‘ اور ’آلو گوشت‘ والی مشہور زمانہ تقریر سننے کو ملی۔ تاہم اس دوران جبکہ خود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات عروج پر تھے، ممبئی میں دہشت گردی کا بہیمانہ واقعہ ہو گیا۔ بھارت نے ان حملوں کی ذمہ داری براہ راست آئی ایس آئی پر ڈالتے ہوئے اس کے سربراہ کو بھارت بھجوائے جانے کا مطالبہ کیا تو زرداری حکومت نے اسے فوراً قبول کر لیا۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے مگر الزام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس صورت حال میں کہ جب امریکہ کو پاکستان آرمی کی فارمیشنز مغربی سرحدوں پر درکار تھیں، اس کے لئے پاک بھارت تناؤ درد سر سے کم نہیں تھا۔ ممبئی دہشت گرد حملوں کے بعد سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے کہا، ’پاکستان کے پاس وہ سب کچھ ہے جو کسی کو درد سر دینے کے لئے درکار ہے۔ نیوکلیئر ہتھیار، دہشت گردی، انتہا پسندی، غربت، بدعنوانی اور تزویراتی محل وقوع‘ ۔

یہ وہی دور تھا کہ جب امریکہ، بھارت اور افغانستان میں امریکی تائید سے قائم کرزئی حکومت اس امر پر متفق ہو چکے تھے کہ ناصرف بھارت بلکہ پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے۔ اور یہ کہ پاکستان کے اندر عسکری اسٹیبلشمنٹ ہی ہے جو بھارت میں کارروائیوں کے لئے لشکر طیبہ اور جیش محمد، جبکہ افغانستان کے اندر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کی خاطر شمالی وزیرستان اور کوئٹہ میں ’اچھے طالبان‘ کے خلاف نہ صرف کارروائی سے گریزاں ہے بلکہ ان کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔

سال 2010 ء تک امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اندر یہ سوچ راسخ ہو چکی تھی کہ پاکستان کے عدم تعاون کی صورت میں افغانستان کے اندر اتحادی فوجیں ایک بے ثمر جنگ لڑ رہی ہیں۔ طے کر لیا گیا کہ طالبان کو پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی حمایت حاصل ہے اور یہ کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے جو افغانستان میں کوئی بھارتی کردار قبول کرنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ پاکستان کو مسئلے کا حل نہیں بلکہ ’پارٹ آف دی پرابلم‘ قرار دیا جانے لگا۔

لگ بھگ اسی دور میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کا دورہ کیا۔ بعد ازاں ایک انٹرویو میں انہوں نے خطے میں مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستان کے اندر ایک ’ڈیپ سٹیٹ‘ کے وجود کی نشاندہی کی۔ ممتاز سکالر شجاع نواز، سال 2011 ء کو پاک امریکہ تعلقات میں بد اعتمادی کے حوالے سے بد ترین سال قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ دور تھا جب پاکستان کے اندر سے بھی مخصوص حلقوں کی جانب سے عسکری اسٹیبلشمنٹ کوہی خطے میں تمام مسائل کی جڑ قرار دیا جانے لگا۔ یہی وہ دور تھا جب ہمیں بتایا گی کہ پاکستان کو مبینہ طور پر ففتھ جنریشن جنگ کا سامنا ہے۔

نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کے ابتدائی برسوں میں کچھ تو اسی مبینہ جنگ تو وہیں کئی دیگر عوامل کے نتیجے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر دباؤ میں نظر آ رہی تھی۔ اپنی بقاء کے لئے جوابی اقدامات کیے گئے۔ کئی ’پراجیکٹس‘ لانچ کیے گئے۔ تاہم مغرب کی تائید کے ساتھ پاکستان میں ایک طاقتور اینٹی اسٹیبلشمنٹ لابی جڑیں پکڑ تھی جو گزشتہ کئی برسوں سے جمہوریت، سویلین بالا دستی، انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے نام پر معاشرے کے تقریباً ہر شعبے میں متحرک تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسلام آباد میں بازاری زبان استعمال کرنے والے کسی یوٹیوبر کو کوئی دو تھپڑ جڑ جاتا تو عدل کی زنجیر خود بخود لرزنے لگتی۔ گونج مغربی دارالحکومتوں تک میں سنائی دی جاتی۔ صحافیوں کے تحفظ اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں پوری دنیا میں آسمان سر پر اٹھا لیتیں۔

ٓآج پاکستان میں ایک انتہائی غیر مقبول حکومت قائم ہے۔ ریاستی جبر اپنے عروج پر ہے۔ بولنے اور لکھنے والے جس کا خاص نشانہ ہیں۔ حیران کن طور پر مگر جمہوریت کا پرچار کرنے والے مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی علم بردار عالمی تنظیموں کے علاوہ سویلین بالا دستی کی چیمپئن مقامی تنظیمیں، انصاف کے سیکٹر میں موجود چند طاقتور شخصیات، چند خاص میڈیا ہاؤسز اور سوشل میڈیا پر طوفان اٹھائے رکھنے والے متحرک افراد اور گروہ، پاکستان کی مقبول ترین مگر زیر عتاب سیاسی جماعت اور اس کے سپورٹرز کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔ افسوس کہ دوسری طرف جو فطری اتحادی ہیں، وہ باہم برسر پیکار و دست و گریباں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments