وہ کاروبار جو لوگوں کا تعلق اپنے آبائی ممالک سے جوڑے ہوئے ہیں


خاندانی ملکیتی کھانے پینے کی دکان ’پوپٹ مٹھائی اینڈ فرسان‘ کی مالک وجیا پوپٹ اور ان کی تمام خواتین پر مشتمل ٹیم کا اکثر عملہ متعدد زبانوں میں صارفین کے ساتھ ڈیل کرنے میں اتنا مگن رہتا ہے کہ خبروں کی ٹوہ میں رہنے والے صحافی کو تو خیر چھوڑ ہی دیں ان کے پاس کسی کے ساتھ بھی بمشکل ہی بیٹھنے کا وقت نکلتا ہے

اور اس کی وجہ ان کی کاروباری مصروفیت ہے۔

وجیا نے سنہ 2011 میں لیسٹر میں انڈین مٹھائیاں اور لذیذ اشیا فروخت کرنے کے لیے کاروبار شروع کیا اور اب اس کاروبار میں دو افراد سے بڑھ کر عملے کی تعداد 15 تک ہو گئی ہے اور سنہ 2018 سے انھوں نے آن لائن بھی یہ کاروبار شروع کر دیا۔

وجیا اور ان خواتین پر مشتمل ٹیم ایسٹ مڈلینڈز خطے میں جنوبی ایشیائی باشندوں کی لذیذ کھانوں کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔

دیگر کئی شعبوں کے برعکس وبا کے دنوں میں ان کے اس کاروبار میں اضافہ ہوا۔ یہاں بسنے والوں نے عمدہ کھانے تلاش کرنے شروع کیے تھے۔ وہ ذائقہ جو وہ یا ان کے آباؤاجداد انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت دیگر ممالک سے برطانیہ لائے تھے۔

اس ٹیم نے بی بی سی سے بات کرنے کے لیے وجیا کے بیٹے شیام کا انتخاب کیا۔

انھوں نے یہ بتایا کہ ’میری ماں کو کمیونٹی میں بڑے پیمانے پر جانا جاتا ہے کہ وہ کاروبار کرتی ہیں
اور وہ سب خاص طور پر ان سے بات کرنا چاہتے ہیں کہ آیا وہ ان کے لیے بہت خاص چیزوں کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ یہ صرف پہلی نسل کے تارکین وطن نہیں یا وہ لوگ جو حال ہی میں برطانیہ منتقل ہوئے ہیں جو کہ مستقل گاہک بن جاتے ہیں۔

اس کے بجائے اس میں وہ دوسری نسل بھی شامل ہے جو اپنے خاندانوں کے لیے کھانا خرید رہی ہے اور تیزی سے اس کاروبار کو آن لائن وسعت دے رہی ہے۔

شیام پوپٹ کہتے ہیں کہ ’لاک ڈاؤن کے دوران ویب سائٹ ہی زندگی کی ضامن تھی اور اب ہم لاک ڈاؤن سے باہر ہو چکے ہیں تاہم ان کے مطابق پابندیوں کے بعد کا ماحول بھی کاروبار میں اضافے کا سبب بن گیا ہے۔ ان کے مطابق ’آن لائن فروخت اب پورے کاروبار کا تقریباً ایک چوتھائی سے ایک تہائی تک ہوتی ہے۔‘

یہ دکان جنوبی ایشیا سے مصنوعات درآمد کرنے کے علاوہ کینیا سے بھی اشیا خریدتی ہے۔
دنیا کے تارکین وطن ممالک کے درمیان تجارت کو جو فروغ دیتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن حکومتیں تارکین وطن کی آبادی اور ان کی نسل کی اقتصادی ضروریات اور اہمیت سے تیزی سے آگاہ ہو رہی ہیں۔

کینیا نے ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ بیرون ملک مقیم کینیا کے باشندوں کے لیے ایک نئی وزارت بنائے گا اور امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ماہ واشنگٹن میں ہونے والی یو ایس-افریقہ لیڈرز سمٹ میں بتائیں گے کہ وہ ’دیارغیر میں رہنے والوں سے تعلقات کو بڑھانا‘ چاہتے ہیں۔

لیکن دنیا کے مختلف ممالک میں تارکین وطن کی تعداد کتنی ہے؟ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کی سنہ 2022 کی ورلڈ مائیگریشن رپورٹ کے مطابق اس وقت 28 کروڑ 10 لاکھ لوگ ہیں جو اس ملک کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں رہتے ہیں جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔

یہ تعداد عالمی آبادی کا 3.6 فیصد یا 30 میں سے ایک شخص کے برابر ہے اور اس میں ان لوگوں کے بچے شامل نہیں، جو ان کے نئے ملک میں پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہی اس میں سابقہ ​​تارکین وطن کی اولاد شامل ہے۔

اس وجہ سے آئی او ایم اصطلاحات ’مہاجر‘ اور ’ڈایاسپوراز‘ یونانی زبان کا لفظ جس کے معنی بکھر جانے کے ہیں (یہ اصلاح تارکین وطن کے لیے استعمال کی جاتی ہے) کی الگ الگ وضاحت کرتی ہے۔

آئی او ایم نے سنہ 2020 میں کہا تھا کہ ’فی الحال عالمی ڈایاسپورا آبادی کا پتا چلانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

عالمی تجارت

جو بات یقینی ہے، وہ یہ کہ تارکین وطن کی آبادی کے اندر کاروباری مہم کو طویل عرصے سے تسلیم کیا گیا ہے۔

آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کی سنہ 2010 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ تارکین وطن کاروباری حضرات اپنے مقامی ہم منصبوں کے مقابلے میں بہتر تعلیم یافتہ تھے اور ان کے نئے کاروبار بنانے کے زیادہ امکانات پائے جاتے تھے۔

اور اکثر وہ کمپنیاں کسی تارکین وطن کے سابقہ ​​ملک سے خوراک، کپڑوں یا دیگر سامان کی درآمد میں مشغول ہوتی ہیں، جیسا کہ انڈین نژاد وجیا پوپٹ اور لیسٹر میں ان کی پھلتی پھولتی دکان، سٹور اور ان جیسے دیگر کاروباری شخصیات نے گذشتہ سال انڈیا کی برطانیہ کے لیے کل 10.4 ارب ڈالر کی برآمدات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پیرس میں مقیم اولیور ہیبیامبیری یورپ کے لیے کینیا کی برآمدات کو بڑھانے میں مدد کر رہے ہیں۔ وہ کینیا ڈایاسپورا مارکیٹ کی ویب سائٹ کے بانی ہیں، جو افریقی ملک سے خوراک اور کپڑے بڑی تعداد میں درآمد کرتی ہے اور پھر اسے پورے یورپی براعظم میں صارفین کو فروخت کرتی ہے۔

کینیا میں پرورش پانے والے اولیور کو اس کاروبار کا خیال اس وقت آیا جب وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے پیرس چلے گئے اور کینیا اور مشرقی افریقہ کے دیگر لوگوں سے ملے۔

ان کے مطابق ’ہر کوئی کینیا کی مصنوعات میں دلچسپی ظاہر کر رہا تھا، لیکن مسئلہ کینیا سے مصنوعات کو یہاں لانا تھا‘۔ ان کے مطابق لوگ کینیا جاتے وقت مصنوعات لاتے تھے، لیکن اب ایسا بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر سال ایسا کر سکیں۔‘

چنانچہ انھوں نے رواں برس اپریل میں کاروبار کا آغاز کیا تاکہ یورپ میں کینیا کے لوگوں کو گھر سے مصنوعات خریدنے کا آسان طریقہ پیش کیا جا سکے۔ مسٹر اولیور نے مزید کہا کہ کاروبار میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس میں کینیا کی کمیونیٹیز نے واٹس ایپ گروپس کے ذریعے اس کاروبار کو پھیلانے میں مدد فراہم کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایمازون پر کاروبار کا ’سادہ‘ طریقہ جس سے پاکستانی لاکھوں کما رہے ہیں

جرمنی ملازمین کی کمی پوری کرنے کے لیے ’موقع کارڈ‘ لانے کے لیے تیار

مراکش کے تارکین وطن: ’میں نے اپنے گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل پڑا‘

کینیا ڈایاسپورا مارکیٹ کی کینیا کے تارکین وطن پر ہی ساری توجہ ہے۔ گلاسگو میں قائم ویب سائٹ اگورا گریک ڈیلیکیسیز کے پاس اب برطانیہ کی یونانی کمیونیٹیز سے تعلق رکھنے والے غیر یونانی گاہک زیادہ ہیں۔

اس کی بنیاد ایک دہائی قبل کرسٹینا لیروپولو اور ان کے شوہر مائیکل سوفیانوس نے رکھی تھی، جنھوں نے برطانیہ میں یونیورسٹی میں تعلیم کی غرض سے داخلہ لیا تھا۔

اب ان کے کاروبار سے 14 ملازمین منسلک ہیں اور ریستوران، کیفے، افراد اور دیگر کاروباروں کو درآمد شدہ یونانی کھانے پینے کی اشیا فراہم کرتے ہیں۔

کرسٹینا نے کہا کہ ’ہم نے برطانوی گاہکوں تک پہنچنا شروع کیا۔ لہٰذا وہ لوگ جو یونان کا سفر کرتے ہیں یا ان کے یونانی دوست تھے اور ہماری آن لائن شاپ نے لاک ڈاؤن کے پہلے مہینوں میں تقریباً 1000 فیصد تک فروخت میں اضافہ دیکھا۔‘

پروفیسر پرگیہ اگروال، جو یونیورسٹی آف لافبرو میں رویے اور ڈیٹا کی ماہر ہیں، باقاعدگی سے اپنے آبائی ملک انڈیا سے آنے والی مصنوعات اپنے اور برطانیہ میں اپنے خاندان کے لیے خریدتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ذاتی طور پر میرے لیے، یہ مادر وطن یعنی میرے آبائی وطن کے ساتھ تعلق کو برقرار رکھنے کے جیسا ہے۔‘

وہ انڈین آموں سے اپنی محبت کو بیان کرتے ہوئے ہنستی ہیں اور یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ باقاعدگی سے یہ آم حاصل کرنے کے لیے ایک خاص سٹور سے آن لائن آرڈر کرتی رہتی ہیں۔

ان کے مطابق ’یہ وہی آم ہیں جنھیں انڈیا میں رہتے ہوئے میں موسم گرما میں ہر دن ہر کھانے کے بعد کھاتی تھی‘۔

ماریا ایلو، یونیورسٹی آف سدرن ڈنمارک میں ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، جن کی ڈایاسپورا اور تجارت پر متعدد کتابیں اور مضامین شائع ہو چکے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب بھی تارکین وطن کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو اس کے بارے میں آگاہ ہونا ضروری ہے، جس میں تارکین وطن کو اکثر دو طریقوں میں سے ہی کسی ایک سے متعارف کروایا جاتا ہے۔

ایک بیانیہ یہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والے اور تارکین وطن درد سر ہوتے ہیں۔

پروفیسر ایلو نے اسے منفی مفہوم کے ساتھ ’خسارے کے نقطہ نظر‘ کے طور پر بیان کیا ہے لیکن وہ مزید کہتی ہیں کہ ایک مثبت بیانیہ بھی ہے، جس میں ’کاروبار اور معیشت کے لیے ایک بڑا فائدہ‘ ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ غیرملکی کاروباری حضرات خاصے چست اور فعال ہوتے ہیں اور غیرمقامی مصنوعات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’ہم سب آج پیزا کھاتے ہیں حالانکہ ہم سب اطالوی نہیں اور یہ وہ چیز ہے جس سے ہم اب بہت پہلے آگے نکل آئے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments