منفی کرداروں کے لیے مشہور سید جبران: ’بیوی ہو تو گرل فرینڈ نہیں ہونی چاہیے‘


جبران
پاکستانی ڈراموں کے نامور اداکار سید جبران کہتے ہیں کہ ’بیوی بیوی ہوتی ہے، گرل فرینڈ گرل فرینڈ ہوتی ہے۔‘

ان کی ذاتی رائے ہے کہ اگر آپ کی بیوی ہے تو گرل فرینڈ نہیں ہونی چاہیے، ہاں اگر بیوی نہیں تو پھر یہ ٹھیک ہے۔

سید جبران ان دنوں جیو کی ڈرامہ سیریل ’دراڑ‘ میں ایک ایسا ہی کردار ادا کر رہے ہیں جن میں ان کی بیوی بھی ہے اور متعدد گرل فرینڈز بھی۔

یہ ڈرامہ مصباح نوشین نے تحریر کیا ہے جبکہ شہرزادے شیخ نے ہدایتکاری کی ہے۔

جبران کے ساتھ اس ڈرامے میں مومل شیخ، امر خان، بہروز سبزواری، شاہین خان، صبیحہ ہاشمی، سیمی پاشا، حمزہ طارق اور دیگر شریک ہیں۔

’کردار نے یا تو اچھائی یا فساد پھیلایا ہوتا ہے‘

دراڑ میں سید جبران شہیر احمد کا کردار ادا کر رہے ہیں جو ایک خوش اخلاق، کامیاب بزنس مین ہے اور وہ ارہا سے محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے بعد میں جب ارہا کی کزن سجل آتی ہے تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

سید جبران کا کہنا ہے کہ ’کردار تو بہت اچھا ہے در حقیقت ہماری کہانیاں کچھ اس طرح سے ارتقا میں آتی ہیں کہ وہ کردار کی مناسبت سے ہوتی ہیں اب وہ روایتی ہیرو ہیروئن اور ولن والی صورتحال کم ہوتی ہے۔‘

’موجودہ وقت ایک کردار ہوتا ہے یا تو اس نے اچھائی پھیلائی ہوئی ہوتی ہے یا تو پھر فساد پھیلایا ہوتا ہے۔ تو میراکردار دراڑ میں وہ ہی کہانی لے کر چل رہا ہے اس میں شروع میں اچھائی بھی دکھائی ہے اور اس نے فساد بھی پھیلایا ہوا ہے۔‘

’میرے لیے تو یہ ایک کمال تجربہ تھا جب میں نے سکرپٹ پڑھا تو مجھے پتا تھا کہ میں یہ کررہا ہوں۔ آپ کو کبھی کبھی پہلی بار پڑھتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے۔‘

’اس کا دل ہمیشہ گرل فرینڈ پر ہی جاتا‘

سید جبران دراڑ کی کہانی کو بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’زیادہ تر ایک ایسا آدمی جس کے دوسری عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں تو وہ اپنے رشتوں کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہوتا اور وہ اپنی بیوی کو بھی گھاس نہیں ڈالتا۔‘

’ہم نے اس بار ایسا دکھایا کہ مرد ایسا بھی ہوتا ہے جو ایک پرفیکٹ شوہر ہوگا، آئیڈیل داماد ہوگا۔ زبردست بھائی ہوگا لیکن ساتھ میں اس کا یہ حساب کتاب چل رہا ہوگا۔ وہ اتنا بھی شاطر ہوسکتا ہے کہ اس نے دنیا کے سامنے جو اپنا امیج رکھا ہوا ہے وہ پرفیکشن کا ہے لیکن اس کی ذات میں جو برایاں اور کمزوریاں ہیں وہ موجود ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’کہتے ہیں کہ بیوی اور گرل فرینڈ دو الگ چیزیں ہیں تو اس کو اپنا گھر چلانے کے لیے بیوی چاہیے تھی وہ اس کو ارہا میں نظر آئی لیکن اس کا دل ہمیشہ گرل فرینڈ پر ہی جاتا تھا جو اس کی پہلے بھی رہی ہیں اس کو ایک اور مل گئی اس لیے وہ سجل کی طرف زیادہ مائل رہتا ہے۔‘

سید جبران کے بقول ڈرامہ کا کردار شہیر ایک حقیقت پسند آدمی ہے۔’جب بھی سجل شادی کا تنازع کھڑا کرتی ہے تو وہ اسے کہتا ہے کہ بیوی بننا ہے شادی کرکے۔ یہ پوائنٹ ہے اس کی محبت بھی ایک منطق پر ہے۔‘

سید جبران سے سوال کیا گیا کہ ڈرامے میں دادی کے سامنے سجل کے لیے سٹینڈ لینا کیوں اہم تھا؟ تو وہ بتاتے ہیں کہ شہیر کو دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنی دادی کے قریب ہے لیکن اُس موقع پر وہ سمجھتا ہے کہ سجل کا ساتھ نہ دیا تو گڑ بڑ ہو جائے گی، دوسری طرف دادی ہیں جن کو پیار سے سمجھا لے گا لیکن بات وہاں تک گئی نہیں۔‘

’لوگ تو کہتے ہیں جو گندا کام ہے وہ یہ ہی کرے گا‘

سید جبران اپنے کریئر کے کئی پراجیکٹس میں منفی کرادر نبھا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کردار وہ خود لیتے ہیں کیونکہ لوگوں کو زیادہ تر منفی کردار یاد رہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’لوگوں کو ہمیشہ فتنہ یاد رہتا ہے، شرافت یاد نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ منفی کردار کرنے میں مارجن زیادہ ہوتا ہے۔ جو مثبت کردار یا ہیرو ہیں وہ اوور شیڈو کرجاتے ہیں۔ میرے منفی کردار کافی یاد رہ گئے ہیں۔‘

انھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’لوگ تو کہتے ہیں جو گندا کام ہے وہ یہ ہی کرے گا۔‘ 

سید جبران کے مطابق ڈرامہ سیریل دراڑ کے بعد جو لڑکیاں اُن سے ملتی ہیں وہ شرماتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ اُن کا ڈرامہ دیکھ رہی ہیں جبکہ لڑکے واہ واہ کرکے کہتے ہیں کہ کیا ڈرامہ ہے۔

ان کے بقول وہ ایسے نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ ’بچے خیر مناؤ واہ واہ نہیں، سب کے پول کھل رہے ہیں۔‘ 

’صبا قمر اور سجل پسندیدہ کو سٹارز ہیں‘

سید جبران کے مطابق انھوں نے امرخان کے ساتھ پہلی بار کام کیا ہے جبکہ مومل شیخ کے ساتھ وہ ایک پراجیکٹ کرچکے ہیں جو کووڈ کی نذر ہوگیا تھا۔

چونکہ انھوں نے مومل کےساتھ سیٹ پر ساتھ وقت گزارا ہوا ہے تو اُن کے ساتھ کمفرٹ لیول اچھا تھا البتہ دونوں ہی اداکارائیں کمال کی سٹارز ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ’صبا قمر اور سجل ہمیشہ سے میری پسندیدہ کو سٹارز ہیں۔ میں ان کے کام کی وجہ سے ان کا احترام کرتا ہوں، عائشہ خان سے اچھی دوستی تھی، وہ میری اچھی کو سٹار تھی اس کے ساتھ کئی ڈارامہ کیے بہت مزہ آیا اس کے علاوہ حبا کے ساتھ کام کیا۔‘

’میرے ہم نشین میں کچھ چیزوں کو بڑھا کر پیش کیا گیا‘

سید جبران کا تعلق پختون فیملی سے ہے، ان سے پوچھا گیا کہ بعض نقاد کہتے ہیں کہ ’میرے ہم نشین‘ میں پختونوں کو گمراہ کن انداز سے پیش کیا گیا تو انھوں نے اعتراف کیا کہ یقیناً کچھ چیزوں کو بڑھاوا دیا گیا۔

’اب ہمارے یہاں شعور بہت زیادہ ہے اور بہت کم ایسے قبیلے رہ گئے ہیں جہاں یہ صورتحال ہوگی، جو ہم نے ڈرامے میں دکھائی۔‘

حال ہی میں ختم ہونے والا مقبول ڈرامہ سیریل ’ہم نشین‘ سوات میں فلمایا گیا تھا۔ اُسی کےبارے میں بات کرتے ہوئے سید جبران نے کہا کہ مقامی لوگ حیران تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

انھوں نے میرے ہم نشین کے سیٹ سے ایک قصہ بتایا کہ ’بہرام کا جو کردار ماجد خان ادا کر رہے تھے، ہم نے اُن کے ساتھ وہاں پورا جم بنا لیا تھا۔ ہم نے سوچا ایک مہینہ تو پہاڑوں میں خوار ہوجائیں گے، شام کے وقت جو میری ماں (اداکارہ منزہ عارف) کا کردار ادا کر رہی تھیں وہ، حبا اور ان کی امی بھی ساتھ تھیں تو یہ ساری خواتین آجاتی تھیں۔‘

’سارے گاؤں والے بھی جمع ہو جاتے تھے کہ کیا تماشہ شروع کیا ہے، یہ خواتین کیا کر رہی ہیں کیونکہ اُنھیں اس کی عادت نہیں تھی کہ خواتین بھی ورزش کریں۔ وہ اچھا خاصا مزیدار سا میلہ لگاجاتا تھا۔‘

’مومل کے پیٹیز، پیسٹریاں اور حبا کی چائے‘

سید جبران اپنی کو سٹارز کے قصے دلچسپی سے بتاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ایک دن مومل شیخ نے کہا کہ تمہیں پیٹیز، پیسٹریاں اور مزے مزے کی چیزیں کھلاتی ہوں۔

’تو وہ ہوٹل فون کرتیں کہ ہیلو ستار بھائی فلاں فلاں ممبرشپ نمبر ہے ساتھ میں وہ اپنے میاں کا نام بتا دیتیں۔‘

میں نے پوچھا کہ ’اس طرح سے بتاتی ہیں تو کیا ایسے آرڈر ہوجاتا ہے تو انھوں نے کہا ہاں ہوجاتا ہے! تو اُس کے بعد ہم نے اُن کے نمبر سے کئی چیزیں منگوائیں۔‘

سید جبران کے مطابق جب وہ ڈرامہ سیریل ’پہچان‘ کر رہے تھے تو حبا بخاری روزانہ شام کو پانچ بجے غائب ہوجاتی تھیں۔

’ایک روز میں نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہیں؟ تو بتایا کہ چائے پینے جا رہی ہوں۔‘

’اگلے روز میں نے کہا ساتھ چلتا ہوں۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔وہ طارق روڈ پر گُھما گُھما کر ایک ڈھابے پر لے گئیں۔ میں نے کہا یہ کیا سین ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ وہ جس علاقے میں جاتی ہیں انھیں وہاں کی بہترین چائے کے ڈھابوں کا پتہ ہوتا ہے۔‘

’ایوارڈ شوز والے پیسے نہیں دیتے‘

سید جبران ایوارڈ شوز میں نہیں جاتے جس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ اس کی ادائیگی نہیں کرتے۔ انھوں نے بتایا کہ اب تو ایوارڈ شوز والے بلاتے ہی نہیں ہیں کیونکہ وہ ان سے پیسے مانگتے ہیں۔

’ایوارڈ شوز میں، میں اپنا وقت دوں گا تو اس کا چارج کروں گا۔ ورنہ مجھےاس بات کا شوق نہیں کہ میں ریڈ کارپٹ پر جا کر بولوں کہ میں نے یہ پہنا ہے یا وہ پہنا اور وہ مجھے ایوارڈ دیں یا نہ دیں وہ بالکل غیر متعلق بات ہے۔‘

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’ایوارڈ شوز، ٹی وی شو ہوتے ہیں، اس لیے سب کو پیسے ملنے چاہیے۔‘

’مار مار کر کہا کہ اپنا تلفظ ٹھیک کرو‘

سید جبران ایم بی بی ایس ہیں لیکن دوران تعلیم انھیں ایکٹنگ کا شوق ہو گیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی اپنے دوست سے شرط لگی تھی کہ ٹی وی میں آنا ہے۔

’میرے دوست نے کہا کہ نہیں آسکتے۔ پہلے کام میں دس سے بارہ مہینے لگ گئے۔ وہ دوست میری جان کو آ گیا تھا کہ مان لے تو ہار گیا تو میں نے کہہ دیا کہ مان لوں گا تو ہار جاؤں گا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’میں تھرڈ ایئر سے فورتھ ایئر میں آگیا۔ اس کے بعد اللہ بھلا کرے ہمارے پیڈیاٹرکس کے ڈاکٹر وسیم خان کا، جنھیں پتا چلا کہ خبط سوار ہے میرے اندر تو انھوں نے مجھے پہلی بار پی ٹی وی بھیجا۔‘

’وہاں سے سلسلہ شروع ہوا۔ طارق معراج پہلے استاد ہیں جنھوں نے ایکٹنگ کی بنیادی تعلیم دی۔ میرا تلفظ ٹھیک کیا۔ انھوں نے مار مار کر کہا کہ اپنا تلفظ ٹھیک کرو۔ اگر تمہارا لہجہ ایک ہو گا تو تم محدود ہوجاؤ گے اور تمہیں صرف اُسی کردار کے لیے بلائیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments