گیارہ نومبر۔ کینیڈا کا ریمیمبرینس ڈے


ادھر میدان میں بگل بجا اور ادھر آسمان سے چھر چھر بارش برسنے لگی اور چشم زدن میں کینیڈا، اونٹاریو اور رائل کینیڈین لیجن کے بھیگتے جھنڈوں کے قرب میں چھوٹی بڑی، سرخ، سفید، نیلی، پیلی، سبز اور سیاہ رنگوں کی چھتریاں کھٹ کھٹ کھل گئی تھیں۔ اس قومی دن پر ہمارے صوبے اونٹاریو میں عام تعطیل نہیں ہوتی اس کے باوجود اس تقریب میں اتنے لوگ شامل تھے اور ان میں اکثر سمجھدار تھے کہ موسم کا موڈ دیکھتے ہوئے چھتریاں ساتھ لائے تھے۔ میں یہاں بھی اقلیت میں تھا۔

نومبر کی گیارہ تاریخ اور اس وقت دن کے پورے گیارہ بجے تھے۔ واٹر ڈاؤن کا یہ مختصر سا میدان جہاں گرمیوں میں ہفتہ کے روز مقامی کاشت کار فارمرز مارکیٹ سجاتے ہیں مقامی افراد سے بھرا ہوا تھا جن میں بڑے بھی شامل تھے اور بچے بھی۔ سبھی نے بائیں طرف، دل کے پاس لال لال پوپیز سجا رکھے تھے۔ کہتے ہیں پہلی عالمی جنگ میں مغربی یورپ کے محاذ پر اتحادی اور جرمن نازی فوجوں کے درمیان جو قیامت کا رن پڑا اس نے ایک ناقابل فراموش خونی تاریخ رقم کی۔ سرحدیں ہی نہیں کھیت کھلیان بھی لہو لہو تھے۔ اور پھر اسی تباہ شدہ اور اجڑے ہوئے منظر میں ایک کینیڈین فوجی سرجن جان میکرے نے پوپی کے سرخ پھول نمودار ہوتے دیکھے جنھیں دیکھ کر اسے ایک نظم کی تحریک ہوئی: ان فلینڈرز فیلڈ۔

غالب نے بھی تو کہا تھا:
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

یہ 1915 کے موسم بہار کی بات ہے۔ تب سے یہ نظم ملک ملک سفر کرتی ہوئی ریمیمبرنس ڈے کا اٹوٹ انگ بن چکی ہے اور کپڑے کے بنے پوپی کے پھول ایک مستحکم روایت کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔

خواتین و حضرات، اب ہم پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں وطن کے لیے قربانیاں دینے والوں کو یاد کرنے کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کریں گے۔ ”اس اعلان نے میرے خیال کا سلسلہ منقطع کر دیا۔“

اب سب چپ تھے سوائے بارش کی آواز کے جس کی شدت میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا مگر کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہل رہا تھا۔ ٹھیک دو منٹ بعد پھر بگل بجا اور خاموشی ٹوٹ گئی۔ چنیدہ سابق فوجیوں نے مختصر مختصر اظہار خیال کیا، عالمی جنگوں اور دیگر لڑائیوں میں کینیڈا کے فوجیوں کی خدمات کو سراہا اور بتایا کہ ان جنگوں میں ایک لاکھ سے زیادہ تو کینیڈین فوجی قربان ہوئے تھے۔ یہ ریمیمبرینس ڈے یعنی یادگاری دن پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے روز عین اس وقت منایا جاتا ہے جس وقت جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا تھا۔

تقریب ختم ہوئی تو بچے اس پرانی طیارہ شکن توپ اور جنگی گاڑی کی طرف لپکے جو بیتے دنوں کی یاد کی طرح میدان کے ایک کونے میں کھڑی تھی۔ اور مجھے یاد آنے لگا پاکستان کا تئیس مارچ کا دن۔ عام چھٹی اور فوجی پیریڈ۔ اور پھر ذہن انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ کی طرف چلا گیا۔ میں تو اس وقت چار برس کا تھا۔ اس کے بارے میں معلومات سنی پڑھی ہوئی ہیں مگر اکہتر کی جنگ کے دن رات مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ جنگی طیاروں کی آمد، سائرن کی آوازیں، توپوں کی دھائیں دھائیں اور بلیک آؤٹ۔

گھپ اندھیرا۔ یہ وہ احساس ہے جو ایک منظر کی طرح میرے بچپن کے کینوس پر لرزتا ہے۔ میں پانچویں جماعت میں تھا۔ مزنگ میں ہمارے ہمارے پڑوسی جنگ کے آغاز پر ہی لاہور سے کہیں دور چلے گئے تھے۔ گھر کی ذمہ داری ہمیں سونپ گئے تھے۔ ان کا گھر بہت بڑا تھا۔ کئی کمرے تھے مگر ہم صرف ایک کمرہ استعمال کرتے تھے اور وہ تھا ٹیلی وژن والا کمرہ جس میں دیواروں کے ساتھ ساتھ تین طرف پرانے مگر آرام دہ صوفے بچھے تھے اور درمیان میں ماربل کا میز۔

کونوں میں تپائیاں دھری تھیں جن میں سے ایک پر گل دان سجا تھا اور دوسرے پر پیتل کا ایک بڑا سا سنہری خول۔ میں نے صوفے کے کونے پر بیٹھتے ہوئے اس خول کو چھوا تو امی جان نے ڈانٹ دیا کہ پرائی شے کو مت چھوو بلکہ صوفے سے بھی اترنے کی ہدایت کی۔ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ قالین پر بیٹھ گیا جو ٹی وی پر مسلسل چلتے قومی نغموں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

”وہ کیا ہے؟“ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ساجد بھائی سے پوچھ لیا تھا۔ میرے ہاتھ کے اشارے کا تعاقب کرتے ان کی نگاہ تپائی پر پڑے دھاتی خول پر ٹک گئی تھی۔

” گولہ۔ جنگی گولہ۔“ انہوں نے جواب دیا۔
” گولہ؟ آپ کا مطلب ہے وہ جو توپوں اور ٹینکوں میں سے پھینکتے ہیں؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
” ہاں، بالکل وہی ہے“ انہوں نے صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔

” لیکن تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں، ڈرپوک۔ یہ چلا ہوا ہے۔ خالی ہے اندر سے۔ دیکھ نہیں رہے؟“ شاہد بھائی نے مسکراتے ہوئے میری کم زوری کی نشان دہی کی تھی۔

”ڈرپوک۔ بزدل۔ یا محتاط۔ یا امن پسند، صلح جو؟“ آنے والے دنوں میں میں نے اپنی شخصیت کے اس رخ کو کئی انداز میں دیکھا پرکھا اور اس پر سوچا۔

میں کسی پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ انفرادی اور اجتماعی لڑائیوں کی مخالفت کرتا ہوں اور ہر پرامن صاحب دل کی طرح اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے بات چیت سے نہ حل کیا جا سکے۔ بس یہ کم زوری ہے مجھ میں اور اسے آپ کوئی بھی نام دے لیں۔

میں نے دیکھا ہے کہ ذی شعور لوگ انسانوں ہی کے دکھ کو اپنا دکھ نہیں سمجھتے بلکہ جانوروں کی تکلیف پر بھی تڑپ اٹھتے ہیں۔ مجھے اپنی ستائش مقصود نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ گیارہ نومبر کے اجتماع میں جانے کیوں مجھے ایک فیملی کے ساتھ آئے بھورے رنگ کے خوب صورت کتے پر بہت ترس آیا۔ وہ بھی میری طرح شمال کی غیر رومانی بارش میں بھیگ رہا تھا۔ لوگ تو اپنے قومی ہیروز کی یاد منانے کے جوش میں شرابور تھے مگر وہ بے چارہ؟ اسے یوں معصومیت سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مجھے دنیا بھر کے سیاحوں کی منزل شہر جرمن شہر کولون کے مرکزی علاقہ میں خلیجی جنگ کے خلاف قائم احتجاجی مرکز میں بیٹھا بھورا کتا یاد آ گیا جو اسی طرح ہر آنے جانے والے کی طرف دل چسپی سے دیکھ رہا تھا۔

یہ احتجاجی مرکز اس کے مالک نے قائم کر رکھا تھا۔ زردی مائل گتے کے مستطیل کارڈ اور رنگ رنگ کے مارکر اس کے پاس پڑے تھے۔ ادھیڑ عمر کے اس امن پسند شخص نے شلڈر گاسے کے چوک میں پتلی پتلی رسیاں باندھ کر ایک دیوار سی کھڑی کر رکھی تھی۔ ان رسیوں پر گتے کے کارڈ لٹکے ہوئے تھے جن پر آنے جانے والے ہم خیال، مقامی افراد اور سیاحوں نے اپنی اپنی زبان میں جنگ کے خلاف کچھ نہ کچھ لکھا تھا۔ میں جب اپنے دوست امجد اور بیگم طاہرہ کے ساتھ وہاں پہنچا اس وقت ایک جاپانی خاتون گتے پر اپنے جذبات رقم کر رہی تھی۔ تحریر مکمل کر کے اس نے مارکر واپس رکھا تھا اور کارڈ ایک چٹکی کی مدد سے ہوا میں جھولتی رسی پر اٹکانے لگی۔ طاہرہ پہلے سے ٹنگے کارڈ پڑھنے لگی۔

”ان میں کوئی کارڈ اردو میں نہیں ہے۔ کیسی عجیب بات ہے۔ کیا ہم سب جنگ کو اچھا سمجھتے ہیں؟“ طاہرہ نے ہماری طرف مڑتے ہوئے کہا اور امجد نے ایک کارڈ اور ایک نیلا مارکر میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے اپنی تازہ نظم اس پر لکھی اور طاہرہ کو تھما دی۔ اس نے نظم پڑھی اور مسکرا کر امجد کے حوالے کردی جس نے پڑھ کر ”وا ااہ“ کہا اور کارڈ کو دیگر زبانوں میں لکھے کارڈز کے ساتھ وہاں لٹکا دیا اور اس منظر کی ایک تصویر بھی اتار لی۔

نظم کا عنوان تھا: ”جنگ“ جو امریکی طیاروں کی طرف سے عراق پر کارپٹ بمباری اور عام شہری پر جنگ کے اثرات کے تناظر میں لکھی گئی تھی اور بعد ازاں میرے پہلے شعری مجموعہ ”ابھی اک خواب رہتا ہے“ میں بھی شائع ہوئی اور ریڈیو ڈوئچے ویلے، دی وائس آف جرمنی کی اردو نشریات میں میں بھی شامل ہوئی۔ ”ریمیمبرینس ڈے“ کے موقع پر آج آپ بھی پڑھ لیجیے یہ نظم:

۔
جنگ
۔
پھر وہی بارود میں جھلسی ہوا
سانسوں کو شل کرتی ہوئی
امن کی ریشم رگیں مفلوج کرتی جا رہی ہے
فاختہ کے پھول سے دل میں
دہکتی سسکیوں کی راکھ بھرتی جا رہی ہے
جب بموں کے برق زا، اندھے دھماکوں میں
قیامت آشنا اک شور اٹھتا ہے
تو پھر،
اک نیند میں دبکے ہوئے معصوم سے بچے کا
نازک خواب، چکنا چور ہونے کی صدائیں
کون سنتا ہے! ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments