’دم مارو دم‘ : جب زینت امان کو دیکھنے کے لیے پورا نیپال امڈ آیا


بات 1966 کی ہے جب نیپال کی پہلی پرائیویٹ پروڈکشن فلم 'مائتی گھر' ریلیز ہوئی تھی جس میں انڈین اداکارہ مالا سنہا نے کام کیا تھا۔

اس فلم کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا، یہ نیپالی گانا لتا منگیشکر نے گایا تھا اور اس گانے کے بول اُس وقت کے نیپال کے بادشاہ گیانندرا نے لکھے تھے۔

اس نیپالی فلم کی موسیقی انڈین موسیقار کے جیدیو نے دی تھی اور اس میں اوشا منگیشکر سے لے کر آشا بھوسلے، مننا ڈے اور گیتا دت نے گانے گائے تھے۔

مالا سنہا نے اسی فلم کے نیپالی ہیرو سی پی لوہانی سے شادی کر لی تھی۔

اس کے بعد سے آج تک نیپال اور ہندی فلم انڈسٹری کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے، جو امیتابھ بچن کی نئی فلم ’اونچائی‘ میں نظر آیا، جس کی شوٹنگ نیپال میں ہوئی تھی۔

لیکن اس رشتے کو سمجھنے کے لیے ماضی پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔

’جانی میرا نام‘ سے لیکر ’بے بی‘ تک

پائلٹ بننے والے دیو آنند نیپال کی اپنی پہلی فلائٹ پر ہوتے ہیں، اوپر سے کھٹمنڈو کی خوبصورتی دیکھ کر وہ اپنے

معاون پائلٹ سے کہتے ہیں-’ اوپر سے تو یہ وادی بہت خوبصورت لگ رہی ہے، کیسا شہر ہے کھٹمنڈو ‘؟۔
اس کے جواب میں دوسرا پائلٹ کہتا ہے کہ ’لینڈنگ سگنل موصول نہیں ہو رہا ہے، تب تک، مسافروں کو اوپر سے کھٹمنڈو کی سیر ہی کرا دیں۔ وہ دیکھیں سویمبھو کا مندر اور وہ ہے سولٹی – یہاں کا سب سے مشہور ہوٹل‘۔
دیو آنند اور زینت امان کی فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ کی تقریباً پوری شوٹنگ نیپال میں ہوئی تھی۔

’جانی میرا نام‘، ’عشق عشق، عشق‘، ’مہان‘، ’خدا گواہ‘ اور ’بیبی‘ جیسی کتنی ہی فلموں کی شوٹنگ نیپال میں ہوئی ہے اور ان سے وابستہ دلچسپ کہانیاں بھی ہیں۔

’دم مارو دم‘ کے لیے پورا شہر جمع

بیکاس رونیار نیپال کے ایک سینئر فوٹو جرنلسٹ ہیں اور ان کا خاندان فلم انڈسٹری سے وابستہ رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’جب رات کو نیپال کے کاٹھ منڈپ مندر کے پاس زینت امان کے ساتھ ’دم مارو دم‘ گانے کی شوٹنگ ہو رہی تھی، تو اس رات وہاں بے تحاشہ بھیڑ جمع تھی‘۔

وہ کہتے ہیں،’فلم ہرے راما ہرے کرشنا کا گانا ’کانچی رے کانچی رے‘ ممتاز اور دیو آنند پر فلمایا گیا تھا اور اسے تبتی پناہ گزین کیمپ میں فلمایا گیا تھا۔ باقی فلم کی زیادہ تر شوٹنگ نیپال کے مشہور سویمبھو مندر اور بھکتا پور میں کی گئی ہے۔

جب اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تو سمجھ لیں کہ پورا کھٹمنڈو اس میں شامل تھا۔ اس میں کئی نیپالی فنکاروں نے بھی کام کیا تھا۔
اب جب ہم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ دیکھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ تمام جگہیں جہاں پہلے خالی میدان ہوا کرتے تھے اب عمارتیں بن چکی ہیں۔

بیکاس کا کہنا ہے کہ ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ کے بعد بہت سے انڈین سیاح نیپال آنے لگے اور گائیڈ انہیں وہ تمام مقامات دکھاتے تھے جہاں ہندی فلموں کی شوٹنگ ہوئی تھی۔

جس علاقے میں ’دم مارو دم شوٹ‘ ہوا تھا وہ 2015 کے نیپال کے زلزلے میں تباہ ہو گیا تھا۔ لیکن اب اسے دوبارہ بنایا گیا ہے۔ اور ’ہرے کرشنا ہرے رام‘ کی وراثت نیپال میں آج بھی تک زندہ ہے۔

نیپال کے شاہی خاندان سے تعلق

دیو آنند کے نیپال کے شاہی خاندان سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ان دنوں کنگ مہندر نیپال کے بادشاہ تھے اور جب دیو آنند کو ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ کا خیال آیا تو وہ فوراً نیپال کے بادشاہ سے ملے اور انہیں فلم کی کہانی سنائی۔

انہوں نے کہا کہ یہ فلم صرف نیپال میں ہی بن سکتی ہے۔ دیو آنند نے ان سے نیپال میں کہیں بھی شوٹنگ کرنے کی اجازت مانگی۔

بدلے میں، بادشاہ مہندرا نے دیو آنند کو مزید کچھ دن نیپال میں رہنے کو کہا اور انہیں اناپورنا پہاڑیوں کے درمیان واقع اپنے بھائی پرنس بسُندھرا کے اسٹائلش ہوٹل میں بھیج دیا اور وہاں سکون سے فلم کی کہانی لکھنے کو کہا۔

اور وہیں سے نیپال اور دیو آنند کا رومانس شروع ہوا۔ دیو آنند نے اس کے بعد ‘ہرے راما ہرے کرشنا’ میں خوبصورتی کے ساتھ نیپال کے مختلف مندروں، چوراہوں اور میلوں کو سکرین پر دکھایا۔

’ہرے راما ہرے کرشنا‘ کی کہانی نیپال میں کیسے ملی

فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ بنانے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔

کہانی 70 کی دہائی کی ہے۔دیو آنند اپنی 1970 کی فلم ’پریم پجاری‘ کی ناکامی کے بعد افسردہ تھے اور نیپال میں تھے۔اس فلم کا سکرپٹ لے کر واپس انڈیا آئے اور یہ فیصلہ کیا کہ ان کی فلم کی شوٹنگ اب لندن یا پیرس میں نہیں بلکہ کھٹمنڈو میں ہوگی۔

دیو آنند نے اپنی کتاب ’رومانسنگ ود لائف‘میں لکھا ہے، ’میں کھٹمنڈو میں تھا اور ایک شام میں اپنے دوست کے ساتھ ’دی بیکری‘ نامی ایک عجیب جگہ پر گیا جہاں رات کو ہپی جایا کرتے تھے‘۔

’ان دنوں نوجوانوں میں ہپی بننے کا جنون تھا، گانجہ، افیون پینا، مزے کرنا، سگریٹ کے دھوئیں میں مدہوش ہونا فیشن سمجھا جانے لگا۔وہاں گلے میں گیندوں کے ہار پہنے، ایک دوسرے کا چلم پکڑے۔ آسمان کی طرف دیکھتے یہ ہپی نظر آئے جیسے مراقبہ کر رہے ہوں۔ یہ ایک فلم کا ساکا منظر تھا۔

’ان سب میں میری توجہ ایک بھورے رنگ والی لڑکی پر گئی، اس کا قشمہ زین پر گرا ہوا تھا۔ وہ اچانک بولی ’باب میرا چشمہ‘۔ یعنی وہ انڈین تھی۔ میں حیران تھا کہ وہ ان ہپیوں کے درمیان کیا کر رہی ہے۔ یہ ایک دلچسپ کہانی لگ رہی تھی‘۔

آگے قصے میں دیو آنند لکھتے ہیں، ’اگلی شام میں اس لڑکی سے ملا۔ اس نے بتایا کہ اس کی والدہ کینیڈا میں ہیں اور وہ کھٹمنڈو میں گھوم رہی ہیں۔ اس کا نام جسبیر تھا جو اب خود کو جینس کہتی تھی۔ جینس نے بتایا کہ وہ اپنی ماں سے بھاگ کر کینیڈا سے نیپال آئی تھی۔ اس کے والدین میں طلاق ہو چکی تھی اور والد پنجاب میں کہیں رہتے ہیں۔

جینس کو لگتا تھا کہ اس کے والدین نے اس کا خیال نہیں رکھا اور نہ ہی وہ اِس نسل کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ کچھ پیسے چرا کر گھر سے بھاگ گئی اور ہپی بن گئی۔ جس نے بھی ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ میں زینت امان کو ’دم مارو دم‘ میں دیکھا ہے وہ سمجھ جائِے گا کہ یہ فلم دراصل جنیس عرف جسبیر اور کھٹمنڈو کی کہانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments