عمران خان کی سروائیول کی لڑائی اور پس پردہ ملاقاتیں


سابق وزیر اعظم عمران خان نے وزیر آباد میں فائرنگ میں زخمی ہونے بعد کاروان حقیقی آزادی کو وقتی طور پر روک دیا تھا لیکن ان کے حکم پر 7 روز بعد یہ کارواں دوبارہ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہو گیا ہے۔ فی الحال اس کارواں کی قیادت شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ دو ہفتے بعد یہ قافلہ اسلام آباد کے قریب پہنچنے پر عمران خود قیادت سنبھال لیں گے۔ فی الحال عمران خان وڈیو لنک پر لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کر رہے ہیں۔ عمران خان انتخابی سیاست میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد میدان سیاست میں اپنی شکست تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے دوبارہ اقتدار کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ اس لڑائی میں جھونک دیا ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا جہاں سے ان واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔

لانگ مارچ کی سست روی حکمت عملی کے تحت اختیار کی گئی ہے۔ اس دوران حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان پس پردہ رابطے اور ملاقاتیں ہو رہی ہیں جن کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ عمران فیس سیونگ چاہتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے شرط عائد کر رکھی ہے کہ اگر موجودہ حکومت عام انتخابات کے انعقاد کی جو بھی تاریخ دے قبول کر لیں گے لیکن انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو نئے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار ہونا چاہیے۔ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نئی حکومت کے قیام تک آرمی چیف کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار ہیں جب کہ موجودہ حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری کو آئندہ حکومت تک موخر کرنے کے لئے تیار نہیں

جہاں تک جنرل قمر باجوہ کا تعلق ہے انہوں نے فوج میں الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے وہ اب تک سیالکوٹ اور گوجرانوالہ گیریژن میں افسروں اور جوانوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ انہیں مزید عرصہ تک آرمی چیف رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں تاہم اس کے باوجود اسلام آباد اور لندن کے درمیان موجود آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی تجویز زیر غور ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر کوئی اعتراض نہیں انہوں نے اس آپشن کو جنرل باجوہ پر چھوڑ رکھا ہے۔

تاہم پی ڈی ایم عمران خان کے دباؤ میں قبل از وقت انتخابات کی کوئی تاریخ دینے کے لئے تیار نہیں وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہ لندن میں نواز شریف سے ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف اور میں نے نئے آرمی چیف کی تقرری بارے ان سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ میرا خیال ہے۔ ایک دو روز میں کچھ نہ کچھ سامنے آ جائے گا۔ آرمی چیف کی تقرری بارے میں سمری کی روایت برقرار رہے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف پچھلے 6 ماہ کے دوران تیسری بار لندن گئے ہیں۔

شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلیوں پر عالمی کانفرنس میں شرکت کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی لندن روانگی غیر معمولی نوعیت کی حامل ہے۔ قبل ازیں کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف شرم الشیخ سے لندن جائیں گے۔ بظاہر میاں شہباز شریف کے پاس ملک کا اقتدار ہے لیکن پارٹی کے قائد نواز شریف ہیں جن کے پاس نہ صرف پارٹی کی قیادت ہے بلکہ ان کے مشورے کے بغیر شہباز شریف ایک قدم نہیں اٹھاتے دراصل پی ڈی ایم میں نواز شریف کو ویٹو پاور حاصل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل لندن میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو اعتماد میں لیتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ بارہا مقررہ مدت پر اپنی ریٹائرمنٹ کا کہہ چکے ہیں۔ اسلام آباد میں قومی سلامتی سے متعلق ورکشاپ میں بھی جنرل باجوہ نے نومبر کے اواخر میں ریٹائرمنٹ کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں مزید توسیع کی خواہش نہیں رکھتے۔

عمران خان نے جس طرح وزیر آباد میں لانگ مارچ پر فائرنگ کے واقعے میں وزیر اعظم، وفاقی وزیر داخلہ اور فوج کے ادارے کے ایک اعلی افسر کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے اس سے ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے ہیں۔ عمران کے بعض اقدامات نے بھی باہمی اعتماد کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا کیس بھی زیر سماعت ہے۔ اسی طرح اسلام آ باد ہائی کورٹ نے بھی تحریک انصاف کی قیادت سے کہا کہ وہ اسلام آباد میں اجتماع کی اجازت کے سلسلے میں حکومت سے رجوع کرے حکومت عمران خان کو اسلام آباد میں داخلے پر فری ہینڈ دینے کے لئے تیار نہیں وہ انہیں عدالت کے سامنے بیان حلفی کے تحت اس بات کا پابند بنا نا چاہتی کہ کمٹمنٹ کے مطابق جلسہ ختم کر کے پی ٹی آئی کے کارکن پر امن طور پر منتشر ہو جائیں گے۔ لانگ مارچ میں شامل کوئی شخص ریڈ زون کا رخ نہیں کرے گا۔

جہاں تک رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ وہ بار بار عمران خان کو اسلام آباد آنے دعوت دے کر چڑا رہے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پچھلے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران جہاں عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر تند و تیز حملے کر رہے ہیں۔ وہاں رات کے اندھیرے میں ریاستی اداروں کے اہم افسران سے بالواسطہ اور براہ راست رابطے میں ہیں۔ ان رابطوں کا تازہ ترین انکشاف عمران خان کے دیرینہ ساتھی میجر (ر) خرم حمید روکھڑی کیا ہے اور کہا ہے انہوں نے عمران خان کے ایما پر اس اعلیٰ افسر سے تین مرتبہ ملاقات کی جب کہ تیسری ملاقات میں تحریک انصاف کے رہنما سلمان احمد بھی تھے لیکن آج وہی افسر عمران کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔

عمران خان پر حملہ کے بعد خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف شہروں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے سڑکیں بند کرنے پر عوام کی جانب سے ردعمل کے بعد پارٹی قیادت نے سڑکوں کی بندش ختم کر دی ہے۔ زمان پارک کی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات چیت کے دوران بھی عمران خان سے سوال کیا گیا کہ کیا جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع ملے گی تو انہوں نے کہا کہ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے جنرل قمر باجوہ نے 29 نومبر 2022 ء کو ریٹائر ہو جانا ہے۔ اس سے قبل نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل بھی مکمل ہو جائے گا جنرل باجوہ الوداعی ملاقاتوں کے بعد ان کی مدت ملازمت میں توسیع بارے افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ آئند چندہ دنوں میں فوج کے سربراہ کی تقرری کے بعد اس موضوع پر بحث ختم ہو جائے گی۔

عمران خان اپنی سیاسی سروائیول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں ان کے خیال میں ان کے مطالبے پر فوری طور انتخابات نہ کرائے گئے تو انہیں مقررہ مدت پر انتخابات کرانے میں وہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائے گی جس کے حصول کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں۔ نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن فوری انتخابات کے حق میں نہیں لہذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان کی خواہش پر قبل از وقت انتخابات نہیں ہوں گے۔

عمران خان نے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو عبور کر کے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کی تو قانون نافذ کرنے والے ادارے سخت کارروائی کریں گے۔ دوسری طرف حکومت پاکستان نے عمران خان کی حفاظت پر ماہانہ 2 کروڑ روپے 19 لاکھ روپے خرچ کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ عمران خان پر حملے کا ایک اور سیکیورٹی الرٹ جاری ہو گیا خدا خیر کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments