قدرت کا نظام پھر بھی بلے بازی ناکام


قدرت کا نظام پاکستانی کرکٹ ٹیم کو فائنل میں تو پہنچا گیا لیکن اگر پاکستانی ٹیم کے بیٹسمین یہی سوچ کر گراؤنڈ میں اترے تھے کہ ان کے صرف بلا گھمانے سے خدبخود گیند باؤنڈری لائن پار کرجائے گی تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ثابت ہوئی کیونکے اس کا انتظام انگلینڈ کے فیلڈرز نے خوب کیا اور اس غیر زمہ داری کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا۔ پاور پلے میں سنگل ڈبل اور مڈل اوورز میں آنکھیں بند کرکے بلا گھمانے کے کھیل میں پاکستانی بیٹنگ نے تقریباً وہی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا جیسے انڈیا کی باؤلنگ نے سیمی فائنل میں کیا تھا جس کا پاکستان میں خوب مذاق بنا تھا۔

فائنل میں خراب پاور پلے کھیلنے کے باوجود پاکستان گیارویں اوور کے اختتام پر 84/2 کی مضبوط پوزیشن میں تھا جہاں سے اگر فی اوور صرف سات رنز بھی مان کے چلا جائے تو بھی اسکور 145 سے اوپر چلا جاتا ہے۔ لیکن وہاں ایک دم سے دو وکٹس گر جاتی ہیں اس کے بعد بھی سولویں اوور کے اختتام پر پاکستان کے 121رنز تھے اور شان مسعود بڑا اسکور بنانے کی کوشش میں آوٹ ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے چار اوور تک آنے والے بیٹسمین اتنے بڑے میدان میں صرف آنکھیں بند کرکے بلا گھماتے رہے۔ کوئی کوچنگ اسٹاف یا مینجمینٹ کی طرف سے گائڈ نہیں کیا گیا کہ سنگل ڈبل کرکے ہی اسکور 150تک پہنچا یا جائے جہاں میچ جیتا جاسکتا ہے کیونکے اگر پانچ بالز مس کرکے چھکا آبھی جائے تو فائدہ کیا۔ لیکن نقصان اس کا یہ ہوا کہ پاکستانی ٹیم فائنل جیسے بڑے میچ میں صرف 137 تک ہی پہنچ سکی جو خاصا مایوس کن اسکور تھا۔

اتنے کم ٹارگٹ کے باوجود باؤلرز نے میچ میں جان مار دی اور پاکستان کی شرمناک شکست کو ایک باعزت ہار میں بدل دیا۔ اور یہ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستانی ٹیم کم اسکور پر ڈھیر ہوگئی ہو اور ہمارے باؤلرز نے مخالف ٹیم کے لیے ہدف کا حصول مشکل بنادیا ہو۔ پھر چاہے آپ کم ٹوٹل کے دفاع میں آسٹریلیا کے خلاف 2015کے ون ڈے ورلڈ کپ کے کواٹر فائنل میں وہاب ریاض کا تاریخی اسپیل یاد کریں یا محمد عام کا بھارت کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میں 80رنز کے دفاع میں ڈٹ جانا یاد کریں لیکن آخر میں ہمارے حصے میں ہار ہی آئی ہے۔

2016 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں بین اسٹوکس آخری اوور میں چار چھکے کھا کر اپنی ٹیم کی شکست کی وجہ بننے پر پھوٹ پھوٹ کے رو دیا تھا لیکن وہی بین اسٹوکس 2019کے ون ڈے ورلڈ کپ فائنل میں اپنی ٹیم کو پہلی دفعہ عالمی چئمپین بنوا کر اپنی خراب کارکردگی کا ازالہ کرگیا۔ صرف یہی نہیں اس مرتبہ بھی یہ کھلاڑی باؤلنگ سے قہر برساتے پاکستانی پیس اٹیک کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا کئی بار بیٹ ہوالیکن شاید قسمت اب اس کے ساتھ تھی۔ اسی لیے بین اسٹوکس نے بھی اتنے پریشر میں آنے کے باوجود آنکھیں بند کرکے کوئی بلانہیں گھمایا اور یوں وہ ایک بار پھر اپنی ٹیم کو ٹائٹل جتوا گیا۔

دوسری طرف شاہین آفریدی تھے جو 2021 کے ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے میتھیو ویڈ سے مسلسل تین چھکے کھا گئے تھے وہ بھی اس بار اپنی ٹیم کو سیمی فائنل تو جتوا گئے لیکن فائنل میں جب دو اہم اوورز میں ٹیم کو ان کی ضرورت تھی بدقسمتی سے وہ ان فٹ ہوگئے۔ اگر شاہین ان فٹ نہ ہوتے تو کیا ہم واقعی میچ جیت جاتے یہ تو وقت بتاتا لیکن اب یہی حقیقت ہے کہ پاکستانی ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ، یواے ای میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کے بعد ایشیاء کپ اور ورلڈ کے فائنل میں بھی مسلسل شکست کھا کر ٹرافی نہیں جیت پائی۔
یوں 1992کی تمام نشانیاں ہمارے لیے نہیں بلکہ انگلینڈ کے لیے مبارک ثابت ہوئیں کہ انہوں نے تب کی شکست کا بدلہ ہم سے اب لیا۔ ٹیم کی شکست کے باوجود پاکستان کی باؤلنگ لائن کا مستقبل خاصہ روشن دکھائی دیتا ہے لیکن بیٹنگ کی خراب کارکردگی پر بیٹنگ کوچ محمد یوسف کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان اٹھتا ہے جن کی کوچنگ میں پاکستانی بیٹنگ کا معیار اوپر جانے کے بجائے زوال پزیر ہی دکھائی دیا ہے۔

دوسری طرف کپتان بابر اعظم کے رن سیمی فائنل میں تو آگئے لیکن پورے ایشیاء کپ اور ورلڈ کپ میں ان کا بلا تقریباً خاموش ہی رہا اور وہ ٹرافی کے قریب آکر بھی اسے تھام نہیں سکے۔ اب یہ فیصلہ میجنمینٹ کو لینا ہے کہ کہیں بابر اعظم کپتانی کی وجہ سے اضافی دباؤ کا شکار تو نہیں کیونکے یاد رہے ہمیں بابر اعظم جیسے کپتان تو بہت مل جائیں گے لیکن بابر اعظم جیسا بلے باز جس کی بیٹنگ کی مڈل آرڈر میں بہت زیادہ ضرورت ہے فی الحال دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments