کون بچائے گا پاکستان


قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی کون بچائے گا پاکستان کے نعرے کی گونج سیاست کے میدان میں گونجنا شروع ہو گئی تھی اس کی وجہ کچھ یوں تھی کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گئے تو ساتھ ہی اقتدار کی رسہ کشی کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے اپنی زندگی میں کئی بار اس نعرے کی گونج ہمارے کانوں میں پڑی ہر بار کون بچائے گا پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے اپنی پسند کی شخصیت کے بارے یہی یقین دلایا گیا کہ یہ ہی پاکستان کو بچائے گا وگرنہ ملک تباہی کہ دہانے پر پہنچ جائے گا ان نعروں کی گونج سنتے سنتے بچپن سے جوانی اور اب بڑھاپے کی سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہیں پر اس نعرے کی گونج آج بھی تازہ دم ہے اور ہم آج بھی پاکستان کو بچانے والے کی تلاش میں ہیں اس دوران اور بھی ایسے ہی نام سے ملتے جلتے نعرے فضاؤں میں بلند ہوئے جیسے تکمیل پاکستان اور کون بنائے گا پاکستان بھی سیاسی تحریکوں کا حصہ بنے لیکن کون بچائے گا پاکستان نعرے نے جو مقبولیت حاصل کی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی۔

پاکستان کو بنانے والے تو جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گئے وگرنہ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ وہ بھی کون بچائے گا پاکستان کا نعرہ بلند کر رہے ہوتے اور باقی سب یہ کہہ کر اپنی جان چھڑؤا رہے ہوتے کہ؛ تم نے بنایا تھا پاکستان تم ہی بچاؤ پاکستان، خیر ایسا نہ ہو سکا اور ہم پاکستان کی تکمیل کے سفر پر جانے سے پہلے ہی پاکستان کو بچانے چل پڑے اور آج بھی اسی سفر پر گامزن ہیں اس دوران کئی رہنما آئے جن کو پاکستان بچانے کی ضمانت سمجھا گیا قوم ان کو اگے لگا کر نعرے لگاتی رہی اس دوران کئی بار ایسا بھی ہوا کہ پاکستان کو بچانے والا اپنا پلو بچا کر پتلی گلی سے نکل گیا یا اس رہنما کے پیچھے نعرے لگانے والا مجمع ہی غائب ہو گیا کیونکہ پاکستان کو بچانے والے رہنماؤں کے کانوں میں جب آواز پڑتی ہے کہ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں تو ان رہنماؤں کے قدم اتنے تیز ہو جاتے ہیں کہ ان کو پاکستان بچانا یاد ہی نہیں رہتا اور وہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور قوم پھر سے ایک ایسے رہنما کی تلاش میں نکل پڑتی ہے جو پاکستان کو بچا سکے۔

کون بچائے گا پاکستان کے نعرے کی گہرائی کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی خطرے میں گھیر گیا اور قوم نے یہ نعرہ بلند کر دیا چہرے بدلتے رہے سیاست کی شطرنج پر مہرے تبدیل ہوتے رہے کوئی گرتا رہا تو کوئی اقتدار کا بادشاہ بن گیا پاکستان بچانے کا نعرہ لگانے والے آوازیں بلند کرتے رہے لیکن جن کو پاکستان بچانا تھا وہ ایسا نہ کر سکے وہ اپنے مفادات کی حفاظت کرتے رہے لیکن دھرتی ماں کی عظمت کو نہ بچا سکے اس کو ایسے گھاؤ لگائے کہ رستے ہوئے خون کی سرخی اپنی داستان بھی نہ سنا سکی اور پاکستان دولخت ہو گیا یہ تاریخ کا ایسا زخم ہے جو نہ بھر سکتا ہے نہ ہی اس کا مرہم ہے یہ ہماری سیاسی تاریخ کے ماتھے پر لگا وہ کلنک ہے جو ہمیں رہتی دنیا تک یاد کرواتا رہے گا کہ ہم پاکستان کی نہ حفاظت کر سکے بلکہ اس تاریخی سانحے سے سبق بھی حاصل نہ کر سکے۔

میری ذاتی رائے میں کون بچائے گا پاکستان کا نعرہ ہماری شکست کو زیادہ نمایاں کرتا ہے اس نعرے کو لگا کر ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہم وطن کی حفاظت کرنے کے اہل نہیں اور ہر دور میں کسی نہ کسی کا انتخاب کر کے اسے پاکستان بچانے کے مشن پر لگا دیتے ہیں اس نعرے مین اتنا جوش ہوتا کہ کہ سننے والے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور وہ بھی نعرہ بلند کرتے ہوئے ہجوم میں شامل ہو جاتے ہیں۔ تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیں تو کون بچائے گا پاکستان کے نعرے میں ایک امید کا عنصر بھی پایا جاتا ہے عوام جب یہ نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں تو وہ صرف وطن کو بچانے کی امید ہی نہیں اس کی ترقی، خوشحالی، بنیادی حقوق، اور عوام کی حالت کو انقلابی انداز میں تبدیلی کے لیے اس نعرہ کو بلند کرتے ہیں لیکن افسوس کوئی رہنما عوام کی امنگوں کا ترجمان نہ بن سکا ہمارے سیاسی رہنماؤں نے آپس کے جھگڑوں جھوٹی اناؤں کی خاطر ملک کو توڑ دیا عوام پھر بھی نہ سمجھ سکے اور آج بھی اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے ان ہی سیاسی رہنماؤں کو اپنا مسیحا سمجھ رہے ہیں۔

آج پاکستان میں کسی ایک نہیں کئی رہنماؤں کی پشت پر یہ نعرہ لگانے والے کھڑے ہیں پاکستان کو بچانے والوں کے درمیان دوڑ لگی ہے سب ہی پاکستان کو بچانے نکلے ہیں لیکن مشترکہ طور پر پاکستان کو بچانے کے مشن میں کوئی بھی شریک ہونے کو تیار نہیں سب نے اپنی اپنی دکانداری سجا رکھی ہے ہر کسی کا اپنی جگہ پر یہ ہی خیال ہے کہ وہ ہی پاکستان کو بچا سکتا باقی سب نا اہل ہیں قوم کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ جن کے لیے پاکستان کو بچانے کے نعرے لگا رہے ہیں وہ تو اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کو بچانے کی کوشش کریں گے یا اپنی سیاسی زندگی کو محفوظ بنائیں گے وہ اپنے سرمائے کو محفوظ مقام پر منتقل کریں گے یا پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں گے اب تو پاکستان تاریخ کے اس دوراہے پر پہنچ گیا ہے کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے عوام کے پاکستان کو بچانے کے نعرے کو اپنی جانب موڑنے کی ضرورت ہے تاکہ ادارے کو قوت مل سکے اور وہ زمینی سرحدوں کو حفاظت عوام کی قوت سے کرے۔ پاکستان میں نفرتوں تفرقوں کے اس دور میں حکومت اپوزیشن عوام اور تمام اداروں کو اپنے اقدامات پر از سر نو جائزہ لینا چاہیے تاکہ پاکستان کو بچانے کے نعرے لگانے کی بجائے اس کی ترقی کا عمل شروع ہو سکے اور باقی ماندہ پاکستان کو اپنے مفاداتی نعروں کی بھینٹ نہ چڑھائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments