مرزا اطہر بیگ: تعارفی مطالعہ


مرزا اطہر بیگ دنیا سے لاتعلقی انداز میں تعلق رکھنے والا ایک ایسا قلم کار ہے جو ”دھند میں راستہ“ پر چلتے ہوئے سیر کے لیے ”غلام باغ“ میں داخل ہوا۔ سیر کے دوران ”دوسرا آسمان“ تکتے ہوئے ”صفر سے ایک تک“ کے نظریہ پر غور و فکر کرتا ہوا ”گہرے پانی“ کا رخ کیا۔ راستے میں اس کی نظر ”دلدل“ پر پڑتی ہے تو اسے اچانک کچھ ”روگ“ یاد آ جاتے ہیں۔ ”روگ“ کے ”حصار“ سے نکلنے کی کوشش میں اس کی واقفیت ”حسن کی صورت حال“ سے ہوتی ہے۔ کہیں لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر وہ ”بے وزن لوگ“ کا نوحہ کہنے لگتا ہے تو کبھی ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ سنانے لگ جاتا ہے۔

مرزا اطہر بیگ لاہور سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شرقپور نامی قصبے میں مارچ 1950 ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مرزا طاہر بیگ تھا۔ ان کے والدین کا تعلق شعبہ تدریس سے تھا اور وہ دونوں سکول میں پڑھاتے تھے۔ ان کے والد مرزا طاہر بیگ تصوف اور مذہب کے مضمون پر گہری گرفت رکھتے تھے۔ مرزا طاہر بیگ خود صاحب کتاب بھی تھے۔ والدین کا تعلق شعبہ تدریس سے اور والد صاحب کتاب بھی۔ اس سے صاف طور پر بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے گھر علمی و ادبی ماحول تھا اور اسی ماحول ہی کا اثر تھا کہ مرزا اطہر بیگ کی کتابوں کی وادی سے بچپن میں ہی آشنائی ہو گئی۔ ابتدائی تعلیم شرقپور سے حاصل کی۔ اور میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مرزا اطہر بیگ لاہور چلے آئے۔ اور انٹرمیڈیٹ کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد آپ نے بی ایس سی (BSc) کی سند حاصل کی۔ (BSc) کے بعد آپ آرٹس کے مضامین کی طرف جھکے اور پنجاب یونیورسٹی میں فلسفہ میں داخل لیا۔ وہاں فلسفہ میں ماسٹرز کرنے کے بعد آپ 1979ء میں گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ یونیورسٹی) سے منسلک ہو گئے۔ 1999ء سے 2010ء تک گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں شعبہ فلسفہ کے سربراہ بھی رہے۔ اپنے گھر کے علمی و ادبی ماحول کے متعلق ایک انٹرویو میں انہوں نے یوں بیان دیا۔

”میری والدہ بھی ایک سکول میں پڑھاتی تھیں، پس ہمارا گھر کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ گھر میں ہر طرف ہر طرح کے ادبی رسالے بکھرے رہتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں میں کتابوں کے اس ڈھیر میں گھس جاتا تھا۔ اب اس ساری صورت حال کو اس امر سے جوڑیے کہ میرے والد ایک صوفی مزاج آدمی تھے۔ یہ مزاج بنیادی طور پر بڑی دعائیں دینے والا اور انسانی معاملات کو احساس جرم کے بغیر دیکھنے والا ہے۔“

مرزا اطہر بیگ سائنس کے طالب علم تھے اور اس سے بھی واضح ہے کہ انہوں نے گریجویشن سائنس یعنی BSc میں کی۔ مگر اس کے بعد آرٹس کی جانب چلے گئے اور فلسفہ میں ماسٹرز کیا۔ ایک انٹرویو میں ان سے سوال کیا گیا کہ آپ سائنس پڑھتے پڑھتے فلسفے کے سنجیدہ طالب علم کیسے بن گئے؟ تو مرزا اطہر بیگ نے یوں جواب دیا۔

”جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں پری انجینئرنگ پڑھنی شروع کی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے ہم جماعت انجنیئرنگ سے بہت سطحی انداز سے وابستہ ہیں۔ انہیں اس حیرت سے کوئی واسطہ نہیں تھا جو ہمیں اشیا کی ماہیت پر غور کرنے پر ابھارتا ہے۔ وہ مختلف مضامین اس لیے پڑھ رہے تھے تاکہ اچھے گریڈز حاصل کر سکیں اور اساتذہ بھی طلبا کے اندر کسی قسم کے حساس حیرانی کو جگانے کی کوشش نہیں کر رہے تھے۔ انہی دنوں (امریکی فلسفی اور نفسیات دان) ولیم جیمز (William James) کی کتاب“ مذہبی تجربے کا تنوع: انسان فطرت کا ایک مطالعہ ”کسی طرح میرے ہاتھ آ گئی۔ انگریزی زبان میں فلسفیانہ تحریر سے یہ میرا تعارف تھا۔ اس کتاب کے ساتھ ہی میں نصاب کی مجوزہ کتابوں سے دور ہو گیا۔“

مرزا اطہر بیگ کو حیرت میں بہت زیادہ دلچسپی ہے اور وہ اپنی تصانیف میں بھی اس عنصر کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اس کے متعلق وہ یوں بیان دیتے ہیں۔

”I am in a state of wonder، certainty doesn’t convince me۔“

اسی طرح کا سوال ایک انٹرویور اختر مرزا نے بھی مرزا اطہر بیگ سے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ مرزا اطہر بیگ نے یوں جواب دیا۔

”میں ہمیشہ حیرت میں رہتا ہوں! اور یہ کوئی استعاراتی بیان نہیں ہے۔ یہ حرفاً درست ہے : میں ہمیشہ حیرت میں رہتا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ فلسفہ حیرت سے شروع ہوتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ یہ ختم بھی حیرت پہ ہوتا ہے۔ کہنے کا یہ مطلب ہے کہ مجھے کسی جگہ قرار نہیں۔ میں خود کو کسی ایک جگہ روک نہیں سکتا۔ میں یقینیت کے کسی خیال سے خود کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ میں ایسا کروں بھی کیوں؟ یقینیت مجھے مائل نہیں کر پاتی۔ حیرت کے بغیر کچھ نہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ علم، ادب، فلسفے کے سفر میں آگے بڑھ نہیں سکتے۔ حیرت ہر لمحے میں ہے۔ اگر کوئی فنکار یا کوئی سائنسدان، حیران ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ تخلیقی نہیں ہو سکتا۔ وہ چیزوں کو جوڑ سکتا ہے۔ انہیں سمجھ سکتا ہے۔ لیکن یہ حیرت ہی ہے جو آپ کو نامعلوم میں گھسنے دیتی ہے۔ اور وہاں آپ پھر سے حیرت میں ہوتے ہیں۔“

مرزا اطہر بیگ کے ہاں ناول کے روایتی طریقوں سے انحراف ملتا ہے اور وہ روایتی کلیوں کو توڑتے ہوئے نئے نئے تجربات کرتے ہیں اور تحریر کو نئے ڈھنگ اور کلیوں سے متعارف بھی کرواتے ہیں۔ مگر اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر معاشرے میں قائم کلیوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بلکہ یہ کام تحریر کی نوعیت خود سر انجام دیتی ہے اور اپنے لیے ایک نئی ڈھنگ کو متعارف کرواتی ہے۔ اپنے طرز ناول نگاری سے متعلق مرزا اطہر بیگ یوں بیان دیتے ہیں۔

”میں یہ عزم لے کر نہیں لکھتا کہ مجھے کلیے توڑنے ہیں۔ جو بھی موضوع میرے سامنے آتا ہے، وہ خود اپنی ساخت اور ہیئت کا انتخاب کرتا ہے۔“

مرزا اطہر بیگ ناول میں مشاہدہ اور علم سے زیادہ تجربات کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کے نزدیک ایسا کوئی ناول ادبی ناول نہیں بن سکتا جس میں تجربات کا لمس موجود نہ ہو۔

”اگر ناول میں تجربات نہیں ہیں۔ تو یہ پاپولر ناول (Papular Novel) تو ہو سکتا ہے مگر ادبی ناول نہیں ہو گا۔ ادبی ناول میں کسی نہ کسی سطح پر تجربہ ضرور ہوتا ہے۔ یہ حیرت انگیز صنف ادب ہے۔ یہاں امکانات لامحدود ہیں۔ اس میں کمال ہے کہ تغیر کو گرفت میں لانے کے لیے خود تغیر سے گزرتا ہے۔ “

مرزا اطہر بیگ انسان کی داخلی کشمکش، جذبات اور ان کے انسانی زندگی پر اثرات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے ہاں خوف، حیرت اور پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کرنے کی جستجو بنیادی ہتھیار کا کام دیتے ہیں۔ وہ ادب کے لکھاریوں سے خائف بھی نظر آتے ہیں کہ لکھاری خارجی عوامل کو تو بیان کرتے ہیں مگر داخل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ادب میں چند ناول داخلی معاملات کو بھرپور اہمیت دیتے ہیں مثلاً ”امراؤ جان ادا“ میں مرزا ہادی رسواء نے فلسفہ لاشعور جو کہ نفسیاتی نوعیت کا مسئلہ ہے اور فلسفہ تربیت کو ملا کر ایک ایسا جہاں تخلیق کیا ہے جو اندرونی جنگ کی لفظی تصویریں پیش کرتا ہے۔ اور دوسری طرف قرة العین حیدر تاریخ اور تہذیب سے دوہری منظر نگاری، اندرونی اور بیرونی، ”آگ کا دریا“ کے روپ میں پیش کرتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہمارے ہاں اندرونی معاملات کو زیادہ اہم خیال نہیں کیا جاتا۔ اس کے متعلق مرزا اطہر بیگ یوں بیان دیتے ہیں :

”بیرونی دنیا میں ناول کے میدان میں بہت تجربات ہوئے۔ مگر ہم اردو ناول کی بات کریں تو میں کہوں گا کہ ہمارے ہاں فوٹو گرافکس تو بنائے۔ گئے، مگر ایکس ریز نہیں بنائے۔“

مرزا اطہر بیگ کے نزدیک ناول نگاری متوازی دنیا میں زندہ رہنے کا نام ہے۔ جب دنیا میں کوئی حادثہ/ واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کی بازگشت ناول کی دنیا میں بھی سنی جا سکتی۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ ہر بڑے واقعہ کے بعد کوئی ناول اس تناظر کو پیش کرتا ہوا سامنے آتا ہے۔

المختصر مرزا اطہر بیگ کے نزدیک ناول نام ہے تنہائی میں سفر کرنے کا۔ اور جب ناول مکمل ہو جاتا ہے تو وہ آباد دنیا کا حصہ بنتے ہوئے لکھاری کو پھر تنہا کر دیتا ہے اور لکھاری کا وہ جہاں بھی ختم ہو جاتا ہے جو ناول کی تخلیق سے قبل لکھاری کی تخیلی دنیا میں آباد تھا۔

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 65 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments