مقصود درد دل ہے نہ اسلام ہے نہ کفر


کسی بھی لکھاری کو کسی ایک موضوع پر ایک سادہ سا مضمون لکھنے کے لئے اس سے بھی زیادہ پڑھنا پڑتا ہے تب جا کے مضمون قابل فہم اور نتیجہ خیز بنتا ہے۔ جبکہ میں نے اپنے مضامین میں ایسا کوئی لچھن نہیں پایا۔

جب لکھنا شروع کیا تو منصوبہ گویا یہ تھا کہ تعلیم و تربیت اور اس سے منسلک مسائل کو اجاگر کیا جائے۔ کیا پتا اقتدار گاہوں میں ان سسکیوں کی صدا سے کہیں کوئی آسودہ ذہن بے قرار ہو کر ان کا مداوا کرنے کے لئے پیش قدمی کرے۔ مگر نہیں پتا تھا کہ وقت اور حالات کی منصوبہ سازی مجھ سے کہیں زیادہ برق رفتار اور پائیدار ہے۔

کیا یہ کسی کو نظر نہیں آتا کہ ہمارے یہاں ایک عمدہ سڑک ایک عالیشان اسپتال کی عمارت تک جاتی ہے جہاں علاج کی سہولیات معدوم ہوتی ہیں۔ مشینیں پڑی سڑتی رہتی ہیں اور چلانے والا نہیں ہوتا نتیجتاً لوگ معمولی ٹیسٹ بھی نجی لیبارٹری سے کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اسپتالوں میں ( ٹرچری سے لے کر بنیادی صحت مرکز تک ) لاکھوں کی دوائی کے بجٹ اور بلز بنتے ہیں پر اگر سفارش نہ ہو تو دوائی بازار سے ہی لینی پڑتی ہے۔ اور کچھ ادویات، جیسا کہ کتے کے کاٹے اور سانپ کے ڈسے کو لگنے والی ادویات تو اسپتال میں بھی میسر نہیں۔ وہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کے دفتر سے خاص سفارش پر ہی مہیا کی جاتی ہیں۔ اور وہاں بیمار مزید ڈسے جانے کے ڈر سے جاتے ہی نہیں۔

اسی سرکاری اسپتال سے تنخواہ لینے والے ڈاکٹر اس کے سامنے اپنا ذاتی کلینک چلاتے ہیں؟ جو بھی آئے دن او پی ڈی سے ہڑتال پر ہوتے ہیں پر کبھی بھی احتجاجاً اپنی کلینک بند نہیں کرتے، شاید یہ جتانے کے لئے کہ اب ہم اتنے کٹھور بھی نہیں کہ لوگوں کو علاج کا مشورہ بھی نہ دیں خاص طور پر جب لوگ اس کی بھاری فیس بھی ادا کر رہے ہوں؟

کیا یہ بات بھی فرضی ہے کہ ہمارے سرکاری اسکولوں کہ قابل اساتذہ کا با اثر تنظیمی گروہ اسکول کے اوقات میں کسی نجی اسکول میں وزیٹنگ ٹیچر کے طور پر پڑھاتا ہے اور اب اسکول جانے والے بچوں میں سے 51 فیصد نجی اسکولوں میں بھاری فیس دے کر پڑھتے ہیں، اس کے باوجود بچے اسکول کے بعد ٹیوشن سینٹرز پر ہی انحصار کرتے ہیں تبھی جا کے بورڈ کے امتحان دینے کے قابل بنتے ہیں۔

نتیجتاً یہاں اسکول جانے والے بچوں میں لائق بچوں کی سوشل لائف فوت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ انیک ذہنی مسائل سے دوچار ہو جاتے ہیں جبکہ نالائق طلبا کو نقل کی مہارت سے لیس کیا جاتا ہے جو زندگی بھر کے لئے ان کو دونمبری کے لئے تیار کر دیتی ہے۔

کیا یہ واقعی لوگ نہیں جانتے کہ گزشتہ سالوں کے دوران خاص طور پر سندھ میں اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی کے لئے جو امتحان لئے گئے اس میں بیروزگاری کی وجہ سے ٹیسٹ پاس کرنے والوں میں کئی ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی تھے، جبکہ سادہ ایم اے، بی اے پاس والوں کی اکثریت ٹیسٹ تک پاس نہیں کر پائی۔

البتہ اس میں وہ لوگ شامل نہیں جو چٹے ان پڑھ ہونے کے باوجود آسودہ معاش و حاکم زاد ہیں۔ کیونکہ وہ کسی نہ کسی طاقتور سیاسی ہاؤس کے کارندے ہوتے ہیں۔ اب جب غلامی سودمند کاروبار کی حیثیت اختیار کر لے تو پھر کوئی کیوں اپنے بچوں کو تعلیم دلوائے گا؟ کہ جس کو دو وقت کی روٹی کے وسائل میسر نہیں۔

اچھا ہی ہے اگر سائیں وڈے، رئیس، گودے یا کسی چودھری، ملک اور خان کی جی حضوری سے باقی لوگ آپ کو ان کا خاص کارندہ جان کے آگے پیچھے پھریں گے، تو پھر سائیں وڈے، رئیس، گودے یا کسی چودھری، ملک اور خان کے جوتے اٹھانے میں کیا قباحت ہے۔ کم ازکم محلے والوں یا گاؤں والوں پر دبدبہ تو رہے گا اس پر منو مال پیٹ میں اور حال بھی باقیوں سے بہتر۔ پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر وہ پیٹھ پیچھے یا دل ہی دل میں گالیاں بکتے ہیں۔ اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے باقی جنتا، اسی کو تو کہتے ہیں۔

کیا یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ ہمارے یہاں نفرت کدے آباد کیے گئے اور ان کی آبیاری کی گئی۔ جہاں نفرت کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ ہمیں ”تکفیر سے نفرت ہے“ یہ نعرہ تو یہاں ہر کوئی شد و مد کے ساتھ لگاتا ہے پر کیا یہ جھوٹ ہے کہ ہم نے دستور تک میں تکفیر کو ریاستی سرپرستی بھی دے رکھی ہے۔ اب اس کا نتیجہ اس کے علاوہ اور کیا نکلنا تھا کہ اب ہر تیسری مسجد سے یہ کافر اور وہ کافر کی صدائیں آتی ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے اب وطن عزیز کے تمام مسالک کسی نہ کسی لحاظ سے کافر قرار دیے جا چکے ہیں۔

کیا یہ فکری مفلسی نہیں کہ اپنے مذہب کو انسانیت کا چیمپئن گرداننے والے تب تک کسی انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے، جب تک وہ انہی کے مذہب و مسلک کا نہ ہو یا کم زا کم ہم خیال قبیلے کا نہ ہو۔

اس پر ہماری فکری منافقت کی حد یہ ہے کہ انہی میں سے کچھ دیسی لبرل دانشور ایسے ہوتے ہیں جو ویسے تو منہ بھر کے دین و مذہب پر طعن و تشنیع کرتے نظر آتے ہیں پر جیسے ہی ان کے آبائی عقائد پر کوئی سوال اٹھائے تو ان کے اندر کا شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث اور ہم جماعتیا جاگ پڑتا ہے۔

اپنے ملک کو چھوڑ کر اڑوس پڑوس کے مسلمان بھائیوں کے رنج و الم ان کے دل میں وہ خاص درد بھرتے ہیں کہ جن کو شام کے مسلمانوں کی فکر لاحق ہوتی ہے انہیں یمن نظر نہیں آتا اور جن کا یمن پر جگر جلتا ہے ان کو لیبیا نہیں دکھتا اور جن کو سنکیانگ دکھ جائے ان سے کشمیر اوجھل رہ جاتا ہے۔

اور ان میں سے جن اکابرین عظام کو شام، یمن، لیبیا، کشمیر اور سنکیانگ سب نظر آ جائیں ان کو اپنی ہی سرزمین پر پستے ہوئے کرد، ہزارہ، سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی، گلگتی، بلتی اور کیلاش نظر نہیں آتے۔ چہ جائے کہ غیر مسلم اقلیتوں کی زبان پر کبھی ’شاید کہ آوے پرسش احوال کو کبھو‘ بھی در آئے۔

شاید یہاں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی انسانی حقوق پر بھی اسی لئے توجہ نہیں دی جاتی کہ اگر سب پڑھ لکھ گئے تو سائیں وڈے، رئیس، گودے یا کسی چودھری، ملک اور خان کی گاڑی کے آگے آگے کون بھاگے گا، اس پر اچھی صحت مطلب بہتر ذہن اور طاقتور جسم، کہیں گودا، خود ہی گھر کا سودا لینے پر نہ مجبور ہو جائے۔

ویسے بھی میر ہی نے کہا تھا
گل گشت کا بھی لطف دل خوش سے ہے نسیم
پیش نظر وگرنہ چمن زار کیوں نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments