تم چلےآؤ پہاڑوں کی قسم (حصہ دوم)۔


پراٹھے کے ساتھ گرم دودھ کی بالائی، مرغ چنے اور بکرے کے پائے، پہلا لقمہ حلق سے اترتے ہی بے ساختہ الحمدللہ نکلا۔ بھوک اور سفر کی تھکان کے بعد اس قدر لذیذ کھانا بلاشبہ اللہ کی بہترین نعمت محسوس ہوا۔ اس دوران مسافروں کا آنا جانا لگا رہا، پہلے سے موجود مسافر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے اور ان کی جگہ نئے آنے والے مسافر لے لیتے۔ کھانے کے دوران اگلے سفر کے بارے میں گفتگو بھی چلتی رہی۔ بل ادا کرنے کے بعد سوات موٹروے جسے سوات ایکسپریس وے بھی کہا جاتا ہے پر سفر کا آغاز ہوا۔

یہ چار لین کی ایک خوبصورت سڑک ہے جو ایم۔ ون کو چکدرہ سے ملاتی۔ صبح کے تقریباً ساڑھے سات کا وقت تھا لیکن بادل اب بھی سورج کے سامنے دیوار کی مانند کھڑے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے خود کو تروتازہ محسوس کیا، ممکنہ حالات و واقعات اور ملکی و بین الاقوامی حالات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر مبشر نے اپنے نئے تحقیقی مقالوں پر اظہار خیال کیا۔ گاڑی رکی تو گفتگو کا سلسلہ معطل ہوا۔ ہمیں باتوں میں مصروف پا کر نعمان نے گاڑی کٹلانگ سروس ایریا پر روک لی اور باہر نکل کر وہاں بنے ایک خوبصورت مارٹ کے اندر چلا گیا۔

کٹلانگ سروس ایریا کرنل شیر خان انٹرچینج سے تقریباً 45 کلو میٹر پر واقع ہے۔ سروس ایریا کے ایک جانب کچھ بورڈز پر نظر پڑی تو میں معلومات کے لیے ان کے قریب چلا آیا۔ بورڈز پر سیاحوں کی راہنمائی کے لیے معلوماتی نقشے بنائے گئے ہیں۔ لکھی گئی عبارت کے مطابق یہ معلوماتی نقشے ایف۔ ڈبلیو۔ او اور خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے نصب کیے گئے ہیں۔ سوات، دیر اور چترال کے مشہور سیاحتی مقامات کے علاوہ آثار قدیمہ کے حوالے سے نہایت اہم معلومات درج ہیں۔ اس کے علاوہ علاقائی کھیلوں، وادیوں اور موجود سہولیات کے متعلق معلومات بھی میسر ہیں۔ ان بورڈز کو دیکھ کر حقیقی طور پر خوشی ہوئی کہ سیاحوں کی راہنمائی کے لیے اچھی کاوش ہے۔

چند لمحات کے قیام اور ریفریشمنٹ کے بعد سفر کا دوبارہ آغاز ہوا۔ کچھ دیر مزید سفر کے بعد ہم سوات موٹروے پر بنی خوبصورت ٹنلز میں پہنچ گئے۔ پہاڑوں کا سینہ چاک کر کے انجینئرز اور ورکرز نے شب و روز محنت کر کے یہ شاہکار تعمیر کیا جو سفر کی آسانی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے کی خوبصورتی میں اضافے کا بھی باعث ہے۔

چکدرہ انٹرچینج پر سوات ایکسپریس وے سے ہمارا سفر اختتام پذیر ہوا۔ اس سے آگے ہمیں نیشنل ہائی وے پر سفر کرنا تھا، موٹروے کی نسبت کم آرام دہ ہونے کے علاوہ بھرپور ٹریفک کی وجہ سے راہی کے نا چاہتے ہوئے بھی یہاں سست قدم ہو جاتے ہیں۔ بادلوں اور سورج کی آنکھ مچولی اب بھی جاری تھی، کبھی ہلکی بارش بھی ہوجاتی جس سے سفرمزید خوبصورت ہوجاتا۔ وادی سوات میں داخل ہونے کے لیے دریائے سوات کے پل پر پہنچے تو دریا کے کنارے ایک شاندار قلعہ نما عمارت پہ نظر پڑی۔

قریب جا کر معلوم ہوا کہ عمارت سوات مانومنٹ کی ہے جو متحدہ عرب امارات کے الجلیلی فورٹ کا ماڈل ہے۔ دریائے سوات پر موجود پل اور یہ ماڈل عمارت شیخ خلیفہ بن زید النہیان کی ہدایت پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ پل تقریباً 448 میٹر طویل ہے جس پر کم وبیش 38 ملین اماراتی درہم لاگت آئی۔ یہ تعمیرات پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی لازوال دوستی کی نشانی ہیں۔

دریائے سوات کو عبور کرتے ہوئے ہم منزل کی طرف روانہ ہوئے اور دلکش وادیوں کا نظارہ کرتے ہوئے مختلف لوگوں سے راستوں کے بارے میں استفسار بھی کرتے رہے۔ اکثر مقامات پر انٹرنیٹ سروس کی عدم موجودگی کی وجہ سے گوگل میپ کی سہولت بھی موجود نہیں۔ مقامی لوگوں سے راستوں کی معلومات کے بہانے مختلف لوگوں سے ملنے کے مواقع بھی میسر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ عموماً زیادہ اور تازہ ترین معلومات بہم پہنچا سکتے ہیں۔ اس سفر کے دوران مقامی پولیس کا رویہ نہایت شفقت آمیز رہا اور ہم نے کئی مواقع پران سے راہنمائی حاصل کی۔ لوگوں کے بقول یہ پولیس خاص طور پر سیاحوں کے لیے مقرر ہے اور ٹریفک کی روانی کے علاوہ سیاحتی مقامات پر آنے والے لوگوں کے لیے راہنمائی کے فرائض بھی انجام دیتی ہے۔

دریائے سوات کے ساتھ ساتھ مدین، بحرین سے ہوتے ہوئے کالام کی طرف ہمارا سفر جاری رہا۔ ہلکی ہلکی بارش میں پکوڑوں اور چائے کی طلب محسوس ہونے لگی تو سڑک کنارے ایک ہوٹل پر رک گئے۔ ہوٹل کے ساتھ ایک چھوٹی سی کیبل کار چل رہی تھی جو سیاحوں کے دریائے سوات کے دوسری طرف لے کر جاتی اور واپس لاتی ہے۔ کچھ لوگوں سے معلوم ہوا کے دریا کے دوسری جانب ایک چشمہ ہے جسے چشمہ شفاء کہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی مرادوں کے بر آنے کے لیے اس چشمے پر جاتے ہیں۔ رم جھم برستی بارش، نیچے بہتے دریائے سوات کی لہروں کا شور، چائے اور گرم پکوڑے، ایسے موسم میں اس سے بہتر کچھ ممکن نہیں تھا۔

اس سب کے باوجود زیادہ دیر رکنا ممکن نہیں تھا کہ منزل ابھی دو رتھی۔ کالام جس کا ذکر مختلف کتب اور جرائد میں پڑھتے آئے تھے اسے اس قدر قریب پا کر جلد از جلد پہنچنے کی خواہش امڈ رہی تھی۔ ہم جس وقت کالام پہنچے اس وقت دن کے تین بج رہے تھے۔ نعمان کا خیال تھا کہ اتنے طویل سفر کے بعد اب آرام کیا جائے اور اگلی صبح تازہ دم ہو کر وادی کالام کی سیاحت کو نکلا جائے۔ اتفاق رائے سے البتہ یہ طے پایا کہ کالام میں رات گزارنے کی بجائے مہوڈنڈ جھیل پر جا کر رات گزاری جائے۔

یہ وادی کالام سے تقریباً 30 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ مقامی لوگوں سے اس بابت دریافت کیا اور راستے کے متعلق آگاہی حاصل کی، کم وبیش سبھی لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اپنی گاڑی پر سفر کرنے کے بجائے جیپ پر سفر کیا جائے۔ کچھ بارگین کرنے کے بعد ایک جیپ مناسب کرایہ پر حاصل کی جو ہمیں لے کر مہوڈنڈ جھیل کی طرف روانہ ہو گئی۔ کالام شہر سے باہر نکلیں تو اوشو وادی کے جنگلات کا وسیع سلسلہ ہے۔ جنگل میں دور دور تک خیموں کی قطاریں نظر آ رہی تھیں۔

سڑک کے ساتھ جنگل میں کچھ فنکار فن موسیقی سے لوگوں کا دل لبھا رہے تھے، کچھ ان کے قریب بیٹھ کر لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ انعام و اکرام سے بھی نواز رہے تھے۔ مہوڈنڈ نام کی وجہ تسمیہ بقول مقامی لوگوں کے مہے پشتو زبان میں مچھلی کو کہتے ہیں جبکہ ڈنڈ کا مطلب جھیل ہے، لہذا مچھلیوں کی بہتات کی وجہ سے اس کا نام مہوڈنڈ جھیل یعنی مچھلیوں کی جھیل ہے۔ کالام سے جھیل تک پہنچنے کے لیے دشوار گزاری کی وجہ سے کافی زیادہ وقت لگتا ہے۔ راستے میں اوشو، مٹلتان، پلوگا اور دیگر چھوٹے بڑے گاؤں ہیں۔ کئی جگہ ایک گاڑی کو رک کر سامنے سے آتی گاڑی کو راستہ دینا پڑتا ہے جس سے گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ راستے میں ایک بہت خوبصورت چشمہ بہتا ہے جس کا پانی انتہائی شفاف ہے۔

مہوڈنڈ جھیل پر پہنچے تو شام اپنے پر پھیلا رہی تھی۔ پہاڑوں میں گھری جھیل افسانوی طرز کی داستان کا منظر پیش کر رہی تھی۔ جھیل کے بالکل کنارے پر بنے خیمے اور کچھ لکڑی اور اینٹوں سے کمرے بھی بنائے ہوئے ہیں جو رات گزارنے کے لیے مناسب کرائے پر دستیاب ہیں۔ جھیل میں کشتی رانی، پیڈل بوٹ لطف اٹھائیے یا گھڑسواری کا شوق پورا کیجیے، یہ آپ پر منحصر ہے۔ جھیل کے کنارے ایک خوبصورت سا ٹینٹ ہاؤس کرائے پر لیا۔ ٹینٹ چار بستروں پر مشتمل تھا اور سردی کی شدت کو کم کرنے کے لیے دو دو لحاف رکھے ہوئے تھے۔ کھانے کے لیے کچھ ہوٹل بھی موجود ہیں جن پر بہت اچھا نہیں تو مناسب کھانا دستیاب ہے۔

سردی کے اثر کو زائل کرنے کے لیے ہم نے ٹراؤٹ مچھلی کھائی۔ موبائل نیٹورک کی غیرموجودگی کسی وقت نعمت معلوم ہوتی ہے۔ دن بھر سفر کے اچھے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے ہم سب اپنے اپنے بستر پر دراز ہو گئے۔ ٹینٹ کی چھت پر بارش کی بوندوں نے موسیقی کے خوش کن ساز چھیڑ دیے جنہوں نے لوری کا کام دیا اور سفر کی ساری تھکان کو دور کر دیا۔ (ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments