ہولناک تناؤ میں کمال فراخ دلی کا مظاہرہ


ایوب خاں تو مارچ 1969 ء میں اقتدار سے دستبردار ہو گئے، مگر اپنی کم نگاہی اور اقتدار کی لامحدود ہوس کے ہاتھوں قوم کو دوگنا عذاب میں جھونک گئے۔ ان کی خواہش یہ رہی کہ ملک میں کوئی طاقت ور قومی جماعت نہ ہو اور کسی قدآور سیاسی شخصیت کو عوام کے اندر مقبول نہ ہونے دیا جائے۔ شکست و ریخت میں علاقائی جماعتیں عوام کے اندر اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ مغربی پاکستان میں مسٹر بھٹو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی بالادستی توڑنے کے لیے سوشلزم کا نعرہ لگا رہے تھے جبکہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات کا ہر سو چرچا تھا۔ سنجیدہ قومی حلقے ان دونوں لیڈروں کو ’سیاسی بازیگر‘ کہتے رہے، مگر انہوں نے پسے ہوئے طبقوں اور نوجوانوں کو اپنے پیچھے لگا لیا جو ان کی ہر بات کو بے چون و چرا سچ سمجھنے لگے تھے۔

دسمبر 1970 ء کے انتخابات پاکستان کو دولخت کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ راقم الحروف 7 دسمبر کی وہ سہ پہر کبھی نہیں بھول سکتا جب وہ چند صحافی دوستوں کے ہمراہ ووٹ ڈالنے اور لاہور شہر کا جائزہ لینے کے بعد سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملنے گیا۔ وہ برآمدے میں کھڑے بری طرح کانپ رہے تھے۔ ہم صحافیوں نے انہیں بتایا کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہو رہی ہے اور چودہ پندرہ سال کے لڑکے بھی ووٹ ڈال رہے ہیں جبکہ خواتین کی ٹولیاں ہر پولنگ اسٹیشن پر بلا روک ٹوک جعلی ووٹ بھگتا رہی ہیں۔ مولانا نے فرمایا ہمیں یہی اطلاعات پاکستان کے ہر گوشے سے موصول ہو رہی ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ علاقائی سیاسی جماعتیں دھاندلی کے ذریعے کامیاب ہو جائیں گی اور اس کے بعد ملک متحد نہیں رہ سکے گا۔

بچے کچھے پاکستان میں اقتدار مسٹر بھٹو کو منتقل ہوا جن میں ذہانت بھی تھی اور مقناطیسی کشش بھی، مگر وہ مزاج کے پکے وڈیرے تھے، اگرچہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ وہ ملک میں اسلام کے بجائے سوشلزم نافذ کرنا چاہتے تھے۔ ان کی اس بے تاب خواہش کے خلاف مولانا مودودی نے جاندار موقف اختیار کیا۔ اگست 1968 ء میں علاج کی غرض سے وہ برطانیہ گئے ہوئے تھے۔ ان دنوں مسٹر بھٹو نے سوشلزم کے نام پر بڑا طوفان اٹھا رکھا تھا۔

مولانا نے واپسی پر لاہور ائرپورٹ پر بیان دیا کہ ”پاکستان محمد عربی ﷺ کی امت کا ملک ہے۔ یہ مارکس اور ماؤ کی امت کا ملک نہیں ہے۔ اگر اللہ کے دین کے لیے ہمیں لڑنا پڑا، تو ہم اللہ کے فضل سے دس محاذوں پر لڑنے سے بھی نہیں چوکیں گے۔ جب تک ہم زندہ ہیں اور ہمارے سر ہماری گردنوں پر قائم ہیں، اس وقت تک کسی کی ہمت نہیں کہ وہ اسلام کے سوا کوئی اور نظام لا سکے۔“

اس زوردار آواز کا فوری اثر یہ ہوا کہ مولانا کوثر نیازی کے مشورے پر بھٹو صاحب نے ’اسلامی سوشلزم‘ کی ترکیب استعمال کرنا شروع کر دی، مگر وہ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران اعلان کرتے رہے کہ میں مولانا مودودی اور قریشی برادران (راقم اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی) کو ’فکس اپ‘ کر دوں گا۔ ان کی نظر میں قریشی برادران کا جرم یہ تھا کہ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں ان کے شائع شدہ انٹرویو کی وجہ سے صدر ایوب نے انہیں وزارت سے سبکدوش کر دیا تھا۔

انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد بھی جناب کوثر نیازی کے مجلے میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف زہریلے مضامین اور اذیت ناک کارٹون شائع ہوتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے بیشتر اخبارات و جرائد ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے زیراہتمام شائع ہونے والے ہفت روزہ ’زندگی‘ کے بجائے ’درندگی‘ لکھتے رہے جس میں ان قلم کاروں کی تحریروں کا محاسبہ کیا جاتا تھا جو پاکستانی سوچ کا مذاق اڑاتی تھیں۔

مسٹر بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل میاں طفیل محمد کو گرفتار کر لیا۔ ایک سیاسی راہنما ملک محمد قاسم بھی حوالۂ زنداں کر دیے گئے کہ وہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آخری وقت تک کھڑے رہے۔ ان پر اس قدر تشدد ہوا کہ ان کی کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ میاں طفیل محمد کے ساتھ بھی جیل میں ناقابل تصور سلوک روا رکھا گیا۔ اپریل 1972 ء کے اوائل میں ’قریشی برادران‘ کے ہمراہ ہفت روزہ زندگی کے مدیر عزیزی مجیب الرحمٰن شامی بھی بغاوت کے الزام میں دھر لیے گئے۔

’پنجاب پنچ‘ کے مدیر اور ناشر بھی ڈی جی پی آر کی زد میں آ گئے۔ جماعت اسلامی کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی کہ اس کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ جیل میں انتہا درجے کی بدسلوکی روا رکھی گئی ہے۔ عدالت نے انہیں پیش کرنے کے احکام صادر کیے۔ اسی عدالت میں راقم الحروف کی بھی پیشی تھی۔ میاں صاحب عدالت میں پیش ہوئے اور جب انہوں نے بڑے دکھ سے اپنے اوپر ہونے والی زیادتی بیان کی، تو حاضرین سناٹے میں آ گئے۔ وہ ایک انتہائی دلخراش منظر تھا۔

بھٹو صاحب کا پورا دور اپوزیشن پر ستم آزماتے گزرا۔ عوامی نیشنل پارٹی خلاف قانون قرار دے دی گئی۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد کے بیشتر سیاست دانوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات بنائے گئے اور انہیں حیدرآباد جیل منتقل کر دیا گیا۔ مارچ 1977 ء کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی جس کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتیں ’پاکستان قومی اتحاد‘ کے نام سے اکٹھی ہو گئیں۔ حکومت نے خواتین کو بھی لہولہان کیا اور اسلامی جمعیت طلبہ اور نظام مصطفیٰ کے سرفروشوں پر بھی ظلم کی انتہا کر دی، مگر تحریک زور پکڑتی گئی۔

جب مسٹر بھٹو کے لیے کوئی جائے پناہ نہ رہی، تو وہ مولانا مودودی کی اقامت گاہ پر آنے پر مجبور ہوئے۔ اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ بہت بپھری ہوئی تھی۔ نظام اسلامی کے متوالوں اور بنیادی حقوق کے محافظوں کے خلاف طاقت استعمال ہوئی۔ اس نے اعلان کیا کہ ہم بھٹو کو ذیلدار پارک اچھرے نہیں آنے دیں گے۔ مولانا نے اس انتہائی نازک وقت میں اسلامی آداب اور سیاسی اخلاق کا دامن پورے وقار سے تھامے رکھا اور اپنے مہمان کا خیرمقدم کیا اور طلبہ کو صبر سے کام لینے کی تلقین کی۔ ملاقات میں مفید تجاویز بھی دیں، مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ جماعت اسلامی نے پاکستان کو مارشل لا سے محفوظ رکھنے کے بڑے جتن کیے، مگر فطرت کا ہاتھ حرکت میں آ چکا تھا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments